حماس اسرائیل جنگ اور نتائج


ریاستوں کے درمیان نظریاتی، نسلی مذہبی اور زمینی اختلافات کہاں نہیں ہوتے۔ کوئی خطہ دنیا کا ایسا نہیں جہاں ریاستوں کے درمیان ایسے تنازعات نا ہوں۔ لیکن دو ریاستوں کے درمیان نفرت جب آخری حد تک پہنچی ہوئی ہو تو سرحدوں پر ایک فریق کی ذرا سی غفلت سے فریق مخالف کو حملے کا موقع ضرور مل جاتا ہے اور ایسی کارروائیوں میں زیادہ فائدہ بھی عموماً حملہ آور کو ہی ہوتا ہے۔ یہ حملے غیر متوقع اور عین بر وقت ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو جانی اور مالی نقصان کے علاوہ بعض اوقات اپنے مطالبات منوانے کے لئے دشمن کے سپاہیوں کو زیر حراست رکھنے کے حربے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر فوجی نقطہ نظر سے ایسی کارروائیوں پر زبانی کلامی واجبی سرزنش تو ہوتی ہے لیکن زیادہ تعجب کا اظہار کم ہی ہوتا ہے اور متاثرہ فریق کا شور شرابا کرنا اور ڈھنڈورا پیٹنا بھی اکثر فضول سمجھا جاتا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے بھی بڑی سیدھی سی بات ہے کہ یہ جاننے کے باوجود کہ فریق مخالف آپ کی تاک میں نشانہ باندھ کر بیٹھا ہے پھر اس کی طرف سے غافل اور پر اطمینان ہونا آپ کے لئے سراسر خود کشی کے مترادف ہوتا ہے۔

یعنی یا تو آپ دشمنی کی زحمت ہی نہ کریں اور جب کر لیں تو پھر اس کے آداب اور تقاضے بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ ایسے معمول کے حملوں کا جواب بھی اتنا ہی دیا جاتا ہے کہ بدلے کی آگ کچھ دھیمی پڑ جائے او ر یہ احتیاط بھی کی جاتی ہے کہ جھڑپ کسی ایسی بڑی جنگ میں نہ تبدیل ہو جائے جس کے دونوں فریق ہی متحمل نہ ہو سکیں۔

دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کی ترقی یافتہ افواج اور بدنام زمانہ مشہور ایجنسیوں کے مقابلے میں فلسطین کی جہادی تحریکوں کی حیثیت کیا ہے؟ لیکن دنیا بھر کی نامور انٹیلی جنس ایجنسیاں حیران ہیں کہ کیسے حماس نے وسائل کی قلت اور کسی بڑے طاقتور ملک کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ماموں بنا کر رکھ دیا۔ اسرائیل کی آبادی میں گھس کر کامیاب حملہ کرنا جس میں ایک ہزار سے زیادہ افراد جان سے چلے جائیں اور درجنوں اٹھا لئے جائیں انتہائی غیر متوقع اور مشکل کام ہے۔

لیکن حماس کے اس قدر منظم اور اچانک زبردست حملے کی اسرائیلی ایجنسیوں کو کانوں کان بھنک نہ پڑی۔ دنیا کے جدید ترین آلات سے لیس ایجنسیوں کی مہارت کو حماس نے دھول چٹا کر رکھ دی۔ گوریلا کارروائیوں کے ماہرین بھی اس سوال پر اٹک کر رہ جاتے ہیں کہ آخر اتنی آسانی سے یہ سب کیسے ممکن ہو گیا۔ لیکن ایسی داستانیں اکثر بہت بعد میں منظر عام پر آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حملے سے قبل حماس کی پلاننگ آخری وقت تک اتنی خفیہ رکھی گئی تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس حملے کے بعد اسرائیل کے رد عمل اور جوابی حملے کے نتائج کو نظر انداز کیا گیا ہو۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ جس طرح اسرائیل کے لئے حماس کا حملہ حیران کن اور قطعی غیر متوقع تھا تو بالکل اسی طرح اسرائیل نے بھی اس حملے کا جواب بھی ایک مناسب اور رسمی حد تک دینے کی بجائے اتنا غیر متوقع دیا کہ جس کی امید نہ حماس کو تھی اور نہ ہی اہل فلسطین کو ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ حماس کو یہ اطمینان تھا کہ حملے کے فورا ً بعد اسرائیل کے لئے پہلی ترجیح یقیناً حماس کے زیر حراست لوگوں کو بازیاب کروانا ہوگی اور یوں وہ فلسطینی جو اسرائیل کے زیر حراست ہیں ان کی رہائی بھی ممکن ہو جائے گی۔ اور اسرائیل کی جوابی کارروائی واجبی سی تو ہو گی لیکن درندگی کی آخری حد تک جانا اسرائیل کے لئے مشکل ہو گا۔

لیکن اس کے برعکس اسرائیل نے اپنے لوگوں کی بازیابی کے مسئلے کو ایک طرف رکھ کر انتہائی وحشیانہ جارحیت سے دیکھتے ہی دیکھتے غزہ کو کھنڈر بنا ڈالا پھر بھی جی نہ بھرا تو ہزاروں بچوں اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کر دیا۔ تعلیمی ادارے تو کیا ہسپتال بھی نہ چھوڑے بلکہ جنگ سے دکھی اور زخموں سے چور لوگوں کے لئے پانی، خوراک اور ادویات کی فراہمی کو بھی معطل کر کے رکھ دیا۔ اور یوں حماس کے حملے کا انتقام ہزاروں لوگوں اور بچوں کا قتل عام کر کے لیا۔ مقصد اسرائیل کی اس ہولناک جارحیت کا سوائے یہ باور کروانے کے اور کیا تھا، کہ اس سے پہلے کہ اس کی درندگی مزید فلسطینیوں کے قتل عام کا باعث بنے حماس اپنے مطالبات سے نہ صرف دست بردار ہو جائے بلکہ زیر حراست اسرائیلیوں کو بھی رہا کر دے۔

یوں دیکھا جائے تو محض ایک ہزار اسرائیلیوں اور درجن بھر زیر حراست لوگوں کے عوض حماس کے لئے سینکڑوں گناہ زیادہ بھاری اور نا قابل تلافی نقصان کا خمیازہ بھگتنا سراسر سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ ہی وہ تاثر ہے جس کی بنیاد پر اسرائیلی جارحیت کے فوراً بعد دنیا بھر میں حماس کے حملے کو بے سود اور بے مقصد قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن جب اسرائیل اپنی بے شرمی کی انتہا پر اترا تو حماس کے بے سود حملے کا تاثر زائل ہو گیا اور پوری دنیا اسرائیل کی مجرمانہ درندگی پر چیخ اٹھی۔ اس کی وجہ بڑی خاص وجہ کیا ہے؟ کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ حماس ایک جہادی تحریک ہے اور اس کے وسائل اور اس کی جنگی طاقت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اسرائیل کی کل جنگی طاقت کے سامنے اس کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرے کی چٹکی سے زیادہ نہیں۔

ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر حماس کے ممکنہ حملے کا پوری طرح علم ہونے کے باوجود حماس کو حملے کا موقع دیا اور پھر اس حملے کو انتقام کا جواز بنا کر اپنی جنگی مہارت کے تجربہ سے غزہ کو نیست و نابود بھی کر دیا اور اسلامی دنیا پر اپنے رعب اور دبدبے کا مظاہرہ بھی کر دیا۔ اس مقصد کے لئے اپنے ایک ہزار لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دینا بھی اسرائیلی ذہنیت سے بعید نہیں۔ اور اگر یہ خیال واقعی درست ہے تو پھر اس سارے خون خرابے اور قتل و غارت کا سارا ملبہ بھی اسرائیل کے سر پڑتا ہے۔ اسرائیل اپنا انتقام تو لے چکا ہے لیکن سوائے امریکی صدر اور برطانوی قیادت کے پوری دنیا کی رائے عامہ کی مخالفت کا سامنا بھی اسی کو ہے۔

غزہ کو کھنڈر بنانے کے بعد لاکھوں اسرائیلی فوجی غزہ کی طرف زمینی پیش قدمی کے لئے تیار تو کھڑے ہیں لیکن پھر بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ نہ جانے کس خوف کے تحت ان کے قدم نہیں اٹھ رہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ابھی تک اسرائیل کی ساری ایجنسیاں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی اس بات کا کھوج نہیں لگا سکیں کہ غزہ اور اس کے گردونواح میں کہاں کہاں کتنی طویل زیر زمیں سرنگوں کا جال حماس نے بچھا رکھا ہے۔ یعنی کہ حماس کا کل سہارا سراسر غیبی امداد ہی نہیں بلکہ ذاتی جدوجہد اور بہترین جنگی حکمت عملی بھی ہے۔

جنگی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسرائیل کی جنگی برتری فی الوقت فضا تک محدود رہی لیکن زمینی برتری پھر حماس کو حاصل ہے۔ پہاڑی علاقوں سے ہٹ کر وسائل کی قلت کے باوجود فلسطین کے میدانی علاقے میں اسرائیلی فوج جسے امریکا اور برطانیہ کے بحری بیڑوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہو، اس کی زمینی پیش قدمی کو بے بس اور مفلوج کر کے رکھ دینا اسرائیل پر حماس کی پر برتری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments