مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت


جب دوسروں کی زمین، گھر اور وسائل پر طاقت کے بل پر قبضہ کر کے ظلم و جبر کی انتہاء کر دی جاتی ہے تو حماس جیسی مزاحمتی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں جو جانوں کے نذرانوں سے لے کر زندگی کی ہر قیمت ادا کر نے کے لئے تیار ہوتی ہیں۔ انہیں یہ پروا نہیں ہوتی کہ دنیا ان کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ صیہونیوں کی ریاست 75 سالوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ یہ درد ناک اور خون آلود داستان 1948 ء میں شروع ہوئی۔ فلسطینیوں کو نقبا کے نام سے مشہور ایک صہیونی سازش کے ذریعے ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

فلسطین کی بچی کچی آبادیاں غزہ اور ویسٹ بینک میں آباد ہو گئی۔ غزہ 45 کلو میٹر کی پٹی تک بکھری ہوئی ہیں۔ اسرائیل کی حکومت کے بیشتر عہدیدار فلسطینیوں کو غزہ اور ویسٹ بینک کے علاقوں سے بھی بے دخل کر کے گریٹر صیہونی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اسرائیل کا یہ خواب اب بہادر فلسطینی کبھی بھی پورا ہونے نہیں دیں گے۔

آج امریکہ کے صدر جو بائیڈن سمیت مغرب کے مختلف حکمران فلسطینوں کی نسل کشی کو اسرائیل کے دفاع کا نہ صرف حق سمجھتے ہیں بلکہ اسرائیلی دفاعی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے بارے میں نہ کوئی جنگی اصول رکھتا ہے اور نہ اقوام متحدہ کے قوانین کا احترام کرتا ہے۔ کیا یہ ملک نہیں جانتے ہیں کہ اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر 75 سالوں سے فلسطینیوں کی قتل و غارت کر رہا ہے۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔

اس میں فلسطینیوں کے لئے نہ ایک آزاد زندگی ہے، نہ صاف پانی اور نہ ہی زندگی کی بنیادی سہولیات۔ اس کنسنٹریشن کیمپ میں فلسطینی اسرائیلی ریاست کی اجازت کے بغیر نہ کہیں آ سکتے ہیں نہ کہیں جا سکتے ہیں۔ فلسطینی اپنے ہی ملک میں ہر وقت اسرائیلی فوج کے بندوقوں اور گولیوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کے لئے نہ ریاست کا کوئی مہذب قوانین ہیں نہ عالمی قوانین کو مانا جاتا ہے۔ ان کے قانون بھی دہشت گرد اسرائیلی ریاست اور فوجیوں کی مرضی پر ہیں کہ جب چاہیں وہ فلسطینیوں کو جیلوں میں ڈال دیں، جب چاہیں گھروں سے نکال دیں اور جان سے مار دیں۔

اسرائیل کی جیلیں بے گناہ فلسطینی کمسن بچوں اور عورتوں سے بھری پڑی ہیں۔ فلسطینیوں کو مارنا اسرائیل اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ کیا فلسطینیوں کے مسئلہ کا حل یہی ہے کہ کلسٹر بموں سے حملہ کر کے انہیں جلا دیا جائے، توپ کی گولیوں اور بموں سے ان کو نشانہ بنایا جائے یا انہیں ساری زندگی کے لئے اپاہج بنا دیا جائے۔ نہیں! بلکہ دنیا آنکھیں کھول کر دیکھے تو فلسطینیوں کے مسئلہ کا اصل حل یہی ہے کہ فلسطینیوں کے لئے ایک آزاد ریاست کا حل ممکن بنا دیا جائے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں جہاں کہی فلسطینی مہاجرین آباد ہیں جن کو صیہونی ریاست نے اپنے گھروں اور اپنے علاقوں سے زبردستی نکال دیا ہے، ان کو ان کے آبائی گھروں میں واپس بھیج دیا جائے۔ پھر اقوام متحدہ اپنی نگرانی میں استصواب رائے کروا کے اکثریت کی بنیاد پر فلسطین اور اسرائیل کی دو آزاد ریاستیں بنائی جائیں۔

آج فلسطین کے لوگوں نے اپنی بے جا قربانیوں، عزم و ہمت اور بہادری کی وجہ سے اسرائیل کے گھناونے کردار کو عیاں کر کے دنیا کے باضمیر لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ اب وہ یہ جاننے لگے ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ غلط ہو رہا ہے۔ یہی وجہ کہ آج وہ سب غزہ کے فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسرائیل کا ساتھ صرف اس کے ڈیپ پاکٹس دے رہے ہیں۔

پاکستانی عوام اور ریاست 75 سالوں سے فلسطینی عوام اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج بھی پاکستانیوں کے دل اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور اسرائیل کی بربریت پر خون کے آنسوں رو رہے ہیں۔ مجھے تو اس بات پر تعجب ہے کہ صیہونی وزیر اور فوجی فلسطینیوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتے ہیں اور چھوٹے بچوں، حاملہ عورتوں، اسپتالوں، سکولوں اور مساجد پر بموں سے حملہ کر کے اپنے آپ کو بہادر بھی سمجھتے ہیں۔

صیہونیوں کی یہی سوچ نہ صرف فلسطینیوں کے لئے اذیت کا باعث رہی ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرناک ہے۔ دنیا نے بہادر فلسطینیوں کے لٹے پٹے قافلوں کو بے بسی سے اپنے گھروں کے کھنڈرات، ٹینکوں اور بموں کے حملوں میں اسرائیلی وارننگ پر شمال سے جنوب کی طرف جاتے اور فلسطینیوں کی قتل گاہیں بنتے بھی دیکھ لیا۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینی ظلم کے خلاف مزاحمت نہ کریں بلکہ اپنے ہاتھ باندھ کر قتل گاہوں میں سر جھکا کر اپنی موت کا انتظار کریں۔ لیکن جب تک ایک فلسطینی بھی زندہ رہے گا تو وہ اس ظلم اور بربریت کے خلاف جد و جہد کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments