تیسری سیاسی قوت کی ضرورت
یہ آزمودہ نسخہ ہے کہ منزل نہ مل رہی ہو تو اسے حاصل کرنے کے لیے طریقہ کار بدلنے یا راستہ بدلنے سے مل جاتی ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نیم سول اور نیم فوجی ادوار میں ترقی کرنے کے طریقہ ہائے کار اور راستے بہ راستے ڈھونڈتے رہے ہیں۔ اس کی مثال فارسی کے اس مقولے میں ملتی ہے کہ، ”ہر کہ آمد او عمارت نو ساخت“ ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نئے آنے والے دور میں ہماری قوم نظریات اور پالیسیوں کی بجائے شخصیات کے سحر میں جکڑتی چلی گئی ہے جس کی ایک تازہ اور آخری مثال آدھی سے زیادہ قوم کے ہیرو اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی ہے جو پہلے عوامی کلٹ کی حد تک مقبول ہوئے اور جب غیر مقبول ہوئے ہیں تو اب خود اس کے پرستار خوف زدہ ہیں اور منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے 22 سالہ سیاسی جدوجہد میں عوام کے دلوں میں گھر کرنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور جب ان کے کندھے پر مقتدرہ نے ہاتھ رکھا تو قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو گئی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دوسرے سیاست دانوں کے مقابلے میں عمران خان کی سیاست ایک بھاری پتھر ہے جس کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے دیگر معاصر سیاستدانوں کے مقابلے میں عمران خان کی سیاست سے اگر سیاست نکال بھی دیں تو وہ پھر بھی ہیرو ہیں اور ان کا پلڑا کرکٹ ورلڈ کپ، کینسر ہسپتالوں اور نمل یونیورسٹی وغیرہ کی وجہ سے پھر بھی بھاری رہتا ہے۔ لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ یہی عمران خان دہشت گردی اور غداری پر مبنی 9 مئی جیسے واقعات کا ”ماسٹر مائنڈ“ بن کر بھی سامنے آتا ہے جس کے بارے میں حال ہی میں خود عمران خان کی بہن علیمہ خان نے بھی کہا ہے کہ، ”جس قسم کی شقیں عمران خان پر لگائی گئی ہیں ان کے مطابق تو سزائے موت بنتی ہے“ ۔
اس کے باوجود ایک کریڈٹ جو عمران خان کو دیا جانا بنتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلے عوامی لیڈر ہیں جنہوں نے عوام کو اتنے بڑے پیمانے پر سیاسی شعور دیا اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔ لیکن کیا عمران خان کا انجام بھی اس سے ملتا جلتا ہو گا جس سے ذوالفقار علی بھٹو دوچار ہوئے تھے؟ یہ وہ سوال ہے جو ایک ایسے سیاسی خلا کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کو پر کرنے کے لیے پاکستان کو اس وقت ایک تیسری سیاسی قوت کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس کی طاقت و اہمیت کو اگر اسٹیبلشمنٹ بھی چاہے تو وہ اسے کم نہ کر سکے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ اگر سول بالادستی کو سخت جدوجہد پر یقین رکھنے والا عمران خان جیسا کڑک سیاسی رہنما بھی قائم نہیں کر سکتا ہے تو پھر کون کر سکتا ہے؟ نون لیگ سول بالادستی کے معاملے میں مصالحت اور کمپرومائز پر یقین کرتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی مزاحمتی سیاست پر سرے سے یقین ہی کھو بیٹھی ہے۔ اس صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ کا مضبوط سے مضبوط تر ہونا اور ملک میں سیاسی بحران در بحران پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے جس کی واضح مثال اپریل 2022 ء کے عدم اعتماد کے ووٹ اور بعد میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات ہیں جس سے عمران خان کی شہرت بڑھتی ہی چلی گئی حتی کہ 9 مئی کے واقعات پیش آ گئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا موقع پہلے کبھی نہیں آیا تھا کہ ایک مقبول ترین سیاسی جماعت کے ورکرز اپنی ہی محب وطن فوج کی تنصیبات اور اس کے حساس اداروں پر حملہ آور ہو گئے ہوں۔
دوسری طرف آج بھی عمران خان لوورز عمران خان کو بدعنوانی کے خلاف لڑنے والا قوم کا ایسا مسیحا قرار دیتے ہیں جسے اشرافیہ نے بیرونی ہاتھ کی پشت پناہی سے کی گئی سازش کے ذریعے اسے وزارت عظمی کے عہدے سے ہٹایا۔ اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ اگر عمران خان بھی قوم کی امنگوں پر پورا اترنے میں ناکام ہوا ہے تو چوتھی بار وزارت عظمی کی جنگ لڑنے والا محمد نواز شریف قوم کی امنگوں پر کیسے پورا اتر سکتا ہے کیونکہ نواز شریف پہلے ہی تین بار آزمائے جا چکے ہیں۔
یہ صورتحال تیسری سیاسی قوت کی عدم موجودگی میں مایوس کن ہے جو روایتی طور پر انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ خدا را! ایسی فسطائیت سے ملک کو بچایا جائے۔ تاریخ گواہ ہے اٹلی اور اسپین میں بھی یہی سوچ کارفرما تھی جو بعد میں جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کی مقبولیت کا باعث بنی۔ مایوسی اور نا امیدی کفر ہیں جو نا امید افراد کو مثالی دنیا کے خوب صورت وعدوں کی وجہ سے جذبات میں بہا کر لے جاتی ہیں۔ عوامی طور پر مقبول سیاسی رہنما عوام کو اندرونی اور بیرونی کشمکش کا شکار کر کے کینسر بنا دیتے ہیں۔ کچھ واقعات (جیسا کہ 9 مئی کو ہوئے ) ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جو بیرونی دشمنوں کے لئے سازگار ثابت ہوتے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ قوم کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لئے مقتدرہ اہل، ایماندار اور محب وطن تیسری سیاسی قوت کو آگے لانے کے لئے راستہ ہموار کرے۔
قوم کو معاشی بقا کا مسئلہ درپیش ہے جو صرف اسی صورت میں حل ہو سکتا ہے جب ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو۔ اگر انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے یا اس کے نتائج دوبارہ سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتے ہیں تو یہ بیرونی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ پاکستانی قوم کو باور کرایا گیا ہے کہ سیاسی بدعنوانی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، نہ کہ اس کی مایوس کن شرح خواندگی، ٹیکسوں کی ناکافی وصولی، اعلیٰ تعلیم کا پست معیار، زرعی اور صنعتی پیداواری صلاحیت یا بیرونی امداد اور قرضوں پر انتہائی انحصار۔
عوام عموماً اس بات سے بے خبر ہے کہ نظریاتی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کیا ہے۔ پاکستان کی نسبتاً عالمی تنہائی کی بنیادی وجہ یہی سیاسی عدم استحکام ہے جو اب صرف ایسی تیسری سیاسی قوت کے پیدا ہونے سے ختم ہو سکتا ہے جس کی سوچ اور پالیسیاں پہلے سے موجود بڑی سیاسی قوتوں سے یکسر مختلف ہوں اور جس کی ترجیحات بھی فقط ملکی مفادات ہوں۔ یہ تیسری سیاسی قوت ”استحکام پاکستان پارٹی“ تو ہو نہیں سکتی کیونکہ وہ بظاہر کنگ پارٹی ہے۔ یہ تیسری سیاسی قوت مقتدرہ کیسے آگے لائے گی؟ اصل یہی کرنے کا کام ہے۔
- پیر سپاہی سے حق پیر تک - 27/03/2024
- بین المذاہب اور عالمگیر انسانی اقدار - 16/02/2024
- الیکشن سنہ 2024 ء سیاسی انقلاب یا خرید و فروخت کی منڈی؟ - 10/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).