سوچ کا فرق
ضلع کے تمام ہائی سکولوں اور ہائر سیکنڈری سکولوں کے سربراہان کی ماہانہ میٹنگ تھی۔ کارروائی کے رسمی آغاز کے بعد ضلع کے فنانس افسر سٹیج پر تشریف لائے جو ہمارے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہی گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سٹیج پر آتے ہی حاضرین کو بتایا کہ ضلعی افسران کے پاس موجود پرانی جیپوں کو بیچ کر ان کو جی ایل آئی دی جا رہی ہے اور تحصیلی سطح پر کام کرنے والے افسران کے لیے سوزوکی کلٹس اور اس سے نیچے تمام اسسٹنٹ ایجوکیشن افسران کو اس سے چھوٹی گاڑی مہران دی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ ہر شہری سکول کے ہیڈ ماسٹر کو ایک لاکھ روپے اور دیہی سکول کے ہیڈماسٹر کو پچاس ہزار روپے دیے جا رہے ہیں۔ اور یہ رقم ان لوگوں نے صرف اور صرف اپنے دفاتر کی ڈیکوریشن پر لگانی ہے۔ ان لوگوں کے دفاتر ایسے شان دار اور بارعب ہونے چاہئیں جیسے کہ ایک ڈی۔ سی یا اسی۔ پی کا آفس ہوتا ہے۔ ایسے دفاتر میں آنے والے لوگوں پر بڑا رعب پڑتا ہے اور بقیہ سارا وقت بھی انہی موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی۔ مجھے یہ بات بڑی عجیب لگی کہ جس محکمے کا بنیادی مقصد قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے اور ضلع کے تمام افسران کی چار پانچ گھنٹے کی میٹنگ میں اس بنیادی مقصد کو ٹچ ہی نہیں کیا گیا۔ اور ساری کی ساری کارروائیاں محض اپنی ذاتی سہولت اور رعب داب میں اضافے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
میں نے اپنی کمزور اور مہین سی آواز میں حاضرین کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن مجھ جیسے طوطی کی آواز حسب ِمعمول اس تقار خانے میں بھی کسی نے سننے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اگلے دن میں اپنے سکول میں پہنچا اپنے دفتر کا جائزہ لیا۔ وہاں میرے بیٹھنے کے لیے کرسی اور میز اور ملاقاتیوں کے لیے بھی کرسیاں موجود تھیں۔
چھت پر ایک پنکھا بھی لٹک رہا تھا۔ واش روم بھی اٹیچڈ موجود تھا۔ فرش پر بچھی ہوئی ایک پرانی دری افسری کی علامت کے طور پر موجود تھی۔ مجھے اس حالت میں اپنے دفتر پر پچاس ہزار روپے صرف کرسی میز تبدیل کرنے اور فال سیلنگ پر خرچ کرنا اسراف اور پیسے کا زیاں محسوس ہو رہا تھا۔ جب کہ میرے سکول میں کلاس دہم کو چھوڑ کر باقی تمام کلاسیں خاک نشینی کی حالت میں تھیں۔ میں نے اپنے دفتر کو ڈیکوریٹ کرنے کے لیے بھجوائی جانے والے پچاس ہزار روپے کی اس رقم سے طلباء کے بیٹھنے کے لیے ڈیسک اور بنچ بنوانے کا فیصلہ کر لیا۔
یاد رہے کہ یہ موجودہ میلنیم کے آغاز کا زمانہ تھا۔ جب روپے کی اس قدر بے توقیری ابھی نہیں ہوئی تھی۔ میں نے پہلے دن ہی سٹور میں پڑے ہوئے تمام کاٹھ کباڑ کو باہر نکال کر گراؤنڈ میں پھیلا دیا۔ جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ یہاں تو بہت سے ڈیسک بینچ موجود ہیں۔ جو معمولی مرمت طلب ہیں۔ کسی کا بازو غائب ہے۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے۔ کسی کے اوپر لکڑی کے تختے موجود نہیں ہیں۔ میں نے فوری طور پر تین چار سینیئر ٹیچرز کی ایک کمیٹی بنا دی۔
سکول کے متحرک نوجوان اور فعال پی ای ٹی کو اپنا اسسٹنٹ بنالیا۔ اور ہنگامی بنیادوں پر مرمت کا کام شروع کر دیا گیا۔ ہمارے سکول کا چوکیدار لوہار ترکھان کا کام جانتا بھی تھا۔ اور اس نے اپنے گھر پر ہی ایک ورکشاپ بھی بنا رکھی تھی۔ کمیٹی نے اس سے مذاکرات کر کے تنخواہ کے علاوہ نہایت ہی معمولی اجرت پر سکول ٹائم میں ہی مرمت کا کام کرنے کے جملہ معاملات طے کر لیے۔ لکڑی کے پھٹوں کے حصول کے لیے سکول میں پرانے گرے ہوئے درختوں کے تنے آرے پر بھجوا دیے گئے۔
اگلے دن کمیٹی نے مجھے بتایا کہ لکڑی ہماری ضرورت سے کافی زیادہ ہے۔ اس کا کیا کیا جائے ایک طرف سے تجویز آئی کہ اس کی امتحانی کرسیاں بنوا لیتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر بورڈ کا امتحانی سنٹر بنوانے کی کوشش کریں گے۔ بڑی اچھی تجویز تھی۔ فوراً منظور کر لی گئی۔ اب ہمارا پورا سکول ایک ورکشاپ کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ مین گراؤنڈ میں پورا فرنیچر بکھرا ہوا تھا۔ اور سکول کے سارے ملازمین مرمت کے کام میں مصروف تھے۔
کوئی کپڑے سے صفائی کر رہا ہے۔ کوئی پینٹ کر رہا ہے۔ کوئی پیچ کس کی مدد سے پھٹوں کے پیچ ٹائٹ کر رہا ہے۔ چوکیدار اس ساری ٹیم کا فور مین تھا وہ زیادہ تر ویلڈنگ یا ایسے ہی دوسرے ٹیکنیکل کاموں میں مصروف ہوتا۔ خالی پیریڈ میں ٹیچرز بھی عموماً وہیں پر ہی ہوتے اور کارخیر کے اس کام میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ بڑی کلاسوں کے بچے ڈرل کے پیریڈز میں خوشی خوشی اس کام میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتے۔ ایسے نظر آ رہا تھا کہ پورا ادارہ ہی اس دھن میں لگا ہوا ہے۔
مجھے زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا کہ اگر لوگوں کو اس بات کا یقین دلا دیا جائے کہ یہ کام ان کے اجتماعی فائدے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ تو پھر وہ ہمہ قسم کے تعاون کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ مہینے کے آخر میں مرمت کا کام ختم ہو چکا تھا۔ ڈیسک بنچ کلاس رومز میں پہنچا دیے گئے۔ سکول کے تمام بچوں کے ان سیٹوں پر بیٹھنے کے بعد بھی ہر کلاس روم میں مزید آٹھ دس طلباء کے بیٹھنے کے لیے سیٹیں موجود تھیں۔ درجنوں بھانت بھانت کی مرمت شدہ کرسیاں معرض وجود میں آ چکی تھیں۔
بلکہ انہی میں سے کچھ سٹائلش قسم کی کرسیاں میں نے بھی اپنے دفتر میں رکھوا کر مذکورہ گرانٹ کی شرط کو پورا کرنے کی ایک ناکام سی کوشش بھی کردی تھی۔ امتحانی کرسیاں بننے کا عمل کافی لمبا تھا۔ لیکن وہ بھی سکول کے ایک کمرے کو ورکشاپ کی صورت میں تبدیل کر کے وہیں پر ہی سرانجام دیا جا رہا تھا۔ اگلے ماہ ایک بار پھر افسران ضلعی ہیڈ کوارٹر پر میٹنگ میں موجود تھے۔ مذکورہ فنانس افسر بھی موجود تھے۔ اور ہر ایک ہیڈ ٹیچر سے پچھلی میٹنگ کا فالو اپ لے رہے تھے۔
کوئی کہہ رہا تھا کہ میں نے کرسی بہت اونچی بنوائی۔ اس کا تاج بہت منفرد ہے۔ کوئی بتا رہا تھا کہ میں نے پرانے میز کی جگہ ایک بہت بڑا رعب داب والا میز بنوا لیا ہے۔ کسی نے دفتر میں اے سی لگوا لیا تھا۔ اور کسی نے فال سیلنگ میں بیل بوٹے بنوا لیے تھے۔ بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے دفتر کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ اپنی باری پر میں نے بتا یا کہ میں نے وہ ساری رقم سٹوڈنٹس کے لیے ڈیسک بنچ مرمت کروانے دو سو عدد امتحانی کرسیاں بنوانے اور دیگر فرنیچر کی مرمت پر صرف کر دی ہے۔
بچوں کی اکثریت ٹاٹوں پر بیٹھتی تھی۔ اور اب سارا سکول ہی بنچوں پر بیٹھتا ہے۔ میرے دفتر میں ضرورت کی ساری چیزیں موجود تھیں۔ اس لیے میں نے اس کو نہیں چھیڑا اور میں ویسے بھی اس فعل کو شعوری طور پر غیر اخلاقی اور نامناسب خیال کرتا ہوں۔ کہ میرے سٹوڈنٹس تو زمین پر بیٹھے ہوئے ہوں اور میں اپنے دفتر میں موجود فرنیچر کو محض اپنا رعب داب بنانے کے لیے تبدیل کرتا پھروں۔ جونہی میں نے اپنی بات ختم کی تو فنانس افسر بولے۔
وہ گرانٹ صرف آپ کے دفتر کے لیے تھی آپ اس کو اپنی مرضی سے استعمال نہیں کر سکتے۔ آپ نے یہ غیر قانونی کام کیا ہے۔ ایک اور محرم راز بولے آپ نے سکول میں پڑی ہوئی جو لکڑی استعمال کی ہے۔ وہ سرکاری لکڑی تھی۔ آپ اس کو اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے اس کے لیے آپ اپنے محکمے کو لکھتے آپ کا محکمہ جنگلات کے محکمے کو لکھتا۔ جنگلات والے ریونیو یا شاید کوئی اور محکمے سے اس کا تخمینہ لگواتے۔ پھر اس کی نیلامی کے لیے کسی قومی سطح کے اخبار میں باقاعدہ اشتہار دیا جاتا۔
مقامی سطح پر منادی کرائی جاتی۔ مساجد میں سپیکروں پر نیلامی کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جاتا۔ پھر ان تمام محکمہ جات کے نمائندوں کی موجودگی میں نیلامی ہوتی اور اگر آخری بولی اس لکڑی کی تخمینہ شدہ قیمت سے کم رہتی۔ تو یہی طریقہ کار دوبارہ دہرایا جاتا۔ اور بولی تخمینے کی رقم سے زیادہ ہونے کی صورت میں حاصل شدہ رقم وصول کر کے حکومت کے کھاتے میں جمع کروائی جاتی۔ میں نے جواب دیا کہ گرانٹ آپ کو ہمارے ادارے کی ضروریات کے مطابق دینا چاہیے تھی۔
اور جہاں ضرورت تھی میں نے اسے استعمال کر لیا۔ اب آپ اسی گرانٹ کا ہیڈ تبدیل کر دیں۔ اور جہاں تک سرکار کی لکڑی کے استعمال کی بات ہے تو سرکار کی لکڑی میں نے سرکار کے سکول کے فرنیچر کی تیاری میں استعمال کی ہے۔ اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لایا۔ بہر حال بڑی دیر تک لے دے ہوتی رہی۔ ہمارے افسران ِ اعلیٰ کا خیال تھا کہ میں ذہنی طور پر افسرانہ سوچ کا نہیں ہوں۔ بلکہ ملازموں والی سوچ کا مالک ہوں۔ میں نے اس سے سو فی صد اتفاق کیا۔ کہ چوں کہ ابھی ابھی نیا آیا ہوں اس لیے ظاہر ہے کہ اس کام میں وقت لگے گا۔
بہر حال اس بحث مباحثے میں یہ بات تو بالکل روز ِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی۔ کہ سرکاری لکڑی کا استعمال قابل ِ دست درازی پولیس فعل ہے۔ اور یہ معاملہ کسی وقت بھی آپ کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ حالاں کہ میں نے پچاس ہزار روپے کی گرانٹ سے جو فرنیچر نیا بنوایا تھا۔ اور جو فرنیچر مرمت کے بعد قابل استعمال بنایا گیا تھا۔ اس کی مارکیٹ ویلیو کسی طور پر بھی دس بارہ لاکھ روپے سے کم نہیں تھی اور اسی فرنیچر کی بنیاد پر ہی ہم نے اپنے سکول میں جماعت نہم اور دہم کے طلباء کے لیے بورڈ کا امتحانی سنٹر بھی بنوا لیا تھا۔ اس کی بھی ایک علیحدہ داستان ہے جو زندگی رہی تو آپ سے ضرور شیئر کروں گا۔ اور سکول اور گردونواح کے بچے اپنا سالانہ امتحان شہر جا کر دینے کی بجائے اپنے ہی سکول میں سہولت اور آسانی سے دیتے ر ہے۔ اس سب کے باوجود سرکاری لکڑی کے غیر قانونی استعمال کی تلوار ریٹائرمنٹ تک میرے سر پر لٹکتی رہی۔
- ریفریشر کورس: تمت بالخیر - 06/09/2024
- ریفریشر کورس: تفریحی اور معلوماتی دورہ - 01/09/2024
- ریفریشر کورس: دہ جماعت پاس ڈائریکٹ حوالدار - 27/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).