ہندو لڑکے سے ملنے جانے والی مسلمان لڑکی پر ’تشدد اور گینگ ریپ‘: ’اخلاقیات کا درس دینے والوں کی غیر اخلاقی حرکات‘
عمران قریشی - بی بی سی ہندی
انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں پیش آنے والے ’مورل پولیسنگ‘ کے ایک معاملے نے نیا موڑ لے لیا ہے۔
اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون، جو اس معاملے کا مرکزی کردار تھیں نے ’اخلاقیات کا درس‘ دینے والے افراد پر ریپ کا الزام عائد کیا ہے۔
خاتون نے اس معاملے میں سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان بھی درج کرایا ہے۔
28 سالہ خاتون نے کہا ہے کہ ہنگل شہر کے ایک ہوٹل میں سات افراد نے انھیں ہراساں کیا کیونکہ وہ دوسری کمیونٹی کے ایک شخص کے ساتھ ہوٹل میں موجود تھیں۔
خاتون نے بتایا کہ اس کے بعد انھیں ہوٹل سے سات مسلم افراد نے اغوا کیا اور انھیں قریبی ویران جگہ پر لے گئے جہاں اگلے 24 گھنٹوں تک انھیں ریپ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
کرناٹک پولیس نے ابتدائی طور پر سات افراد کے خلاف ریپ، جان سے مار دینے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے پر مقدمہ درج کیا۔
اس کے ساتھ ہی غیر قانونی اجتماع، تشدد اور ہراساں کرنے جیسے الزامات لگائے گئے۔
یہ معاملہ ہوٹل کے ایک ملازم کی شکایت کی بنیاد پر درج کیا گیا تھا جہاں ایک مسلم خاتون اور ایک ہندو شخص نے 7 جنوری کو ایک کمرہ لیا تھا۔
معاملہ کیا ہے؟
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے پر حملہ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں اتر کنڑا ضلع کے سرسی کے رہنے والے ہیں۔
جب یہ دونوں ہوٹل کے کمرے میں موجود تھے تو باہر سے چند لوگ کمرے میں مرمت کی غرض سے داخل ہونے کی کوشش کی روکے جانے پر ان لوگوں نے زبردستی کی اور ہوٹل کے کمرے میں داخل ہو گئے۔
وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہوٹل کے کمرے میں داخل ہونے والے افراد نے خاتون کو کمرے سے گھسیٹ کر باہر نکالا۔
ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ مرد جھاڑیوں کے پیچھے خاتون کو ہراساں کر رہے ہیں۔
اس کے بعد اسی واقعے سے متعلق تیسری ویڈیو سامنے آئی جس میں خاتون مردوں پر ریپ کا الزام لگاتی دکھائی دے رہی ہیں۔
انھیں یہ کہتے سُنا جا سکتا ہے ’میں نے ان سے بھیک مانگی، میں نے کہا کہ مُجھے جانے دیں، لیکن انھوں نے میری ایک نہ سُنی۔ میں ان کے قدموں میں گر گئی اور التجا کی کے میری عزت پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔‘
پولیس نے کیا کہا؟
پولیس نے ہوٹل کے ایک ملازم کی شکایت پر مقدمہ درج کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ ’7 جنوری کو ایک مسلم خاتون اور ایک ہندو لڑکے نے اُن کے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر حاصل کیا تھا۔‘
حویری ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ انشو کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خاتون نے مجسٹریٹ کے سامنے سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت اپنا بیان درج کرایا ہے، جس کے بعد ہم نے سات افراد کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 376 (ڈی) (گینگ ریپ) شامل کی ہے۔‘
جب خاتون نے پولیس کے سامنے اپنا بیان دیا تو انھوں نے اغوا اور جنسی استحصال کے بارے میں بات کی، لیکن گینگ ریپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
پولیس نے اس معاملے میں اب تک تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔
اس معاملے کے چوتھے ملزم فی الحال ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں جو اس کے بعد ایک حادثے کا شکار ہوئے اور پولیس نے اُن کی شناخت کی۔
پولیس کے مطابق اس معاملے میں مزید تین افراد کی گرفتاری کے لیے کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پولیس نے اس بارے میں کسی بھی قسم کی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ ان خاتون کے ساتھ ہوٹل میں موجود دیگر مذاہب کے لوگ کون تھے اور اُن کے ساتھ خاتون کا کیا تعلق ہے۔‘
ایک پولیس افسر کے مطابق اس مقدمہ کی تفتیش ابھی جاری ہے اس لیے ابھی مزید تفصیل نہیں بتائی جا سکتی۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ
جس دن یہ واقعہ ہنگل میں پیش آیا تھا، اسی دن یہاں سے تقریبا 175 کلومیٹر دور بیلگاوی میں فورٹ لیک سائیڈ کے قریب دو مختلف برادریوں کے ایک جوڑے کو نو لوگوں نے ہراساں کیا تھا۔ یہ دونوں کزن تھے۔
یہ دونوں کرناٹک حکومت کی بے روزگاری الاؤنس سکیم یووا ندھی کے لیے اپنا اندراج کرانے کے لیے آئے تھے۔ ہنگل معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی جن نو لوگوں پر تشدد کا الزام لگایا گیا ہے، وہ سبھی مسلم برادری سے ہیں۔
لیکن ہنگل معاملے نے اس وقت سیاسی رخ اختیار کر لیا جب سابق وزیر اعلی اور بی جے پی لیڈر بسوراج بومئی نے ’مورل پولیسنگ‘ یعنی اخلاقیات کا درس دینے والوں پر تنقید کی ہے۔
سابق وزیر اعلی اور بی جے پی لیڈر بسوراج بومئی نے ایکس (سابق ٹویٹر) پر لکھا ’مورل پولیسنگ کے نام پر کچھ انتشار پسند عناصر کی طرف سے حویری ضلع کے ہنگل میں ایک جوڑے پر حملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ پولیس کو اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو نہ صرف گرفتار کرنا چاہیے بلکہ انھیں اس امر پر سخت سزا ملنی چاہیے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’لڑکی کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد، اسے ایک ویران جگہ پر لے جایا گیا اور مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان انتشار پسند عناصر کی موجودگی اور اس واقعہ کے بعد یہ گمان ہونے لگا ہے کہ ریاستی حکومت موجود ہے بھی یا نہیں؟
بسوراج بومئی نے کہا کہ ’چیف منسٹر سدارامیا، جو اخلاقی درس دینے والوں کے حق میں بات کرتے ہیں، اس خاص واقعے پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ شرپسندوں کا تعلق اقلیتی برادری سے تھا؟ سدارامیا کو اس واقعے پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔‘
مورل پولیسنگ کے واقعات
جنوبی کنڑا، منگلورو، اڈپی اور چکمگلورو میں کچھ سال پہلے مورل پولیسنگ کے واقعات سامنے آنے لگے تھے، جبکہ ایسے ہی کُچھ واقعات چند دن قبل بھی کچھ معاملات سامنے آئے۔
ہیٹ ڈیٹیکٹر نامی ایک ایکس ہینڈل پر لکھا گیا کہ ’پولیس نے کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو سے 256 کلومیٹر دور چکمگلورو میں دو مسلم نوجوانوں پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک ہندوتوا گروپ سے وابستہ چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔‘
حملہ آوروں نے ایک ہندو لڑکی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کی موجودگی پر اعتراض کیا اور اُن پر حملہ کیا گیا۔ یہ واقعہ سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ ہوگیا اور چاروں افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔ جن نوجوانوں پر حملہ کیا گیا انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
جنوبی کنڑا ضلع کے دھرم استھالا میں ایک آٹو رکشہ ڈرائیور پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ ایک ہندو خاتون کو چھوڑنے آئے تھے۔
منگلورو میں ایک میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل اپنے طالب علموں کے ساتھ تھے جب انھیں روکا گیا اور مسلم خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔
کانگریس پارٹی نے گزشتہ سال اپنی حکومت بناتے ہوئے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ ان خلاقیات کا درس دینے اور سرِ عام لوگوں پر تشدد کرنے والے افراد سے سختی سے نمٹے گی اور ان واقعات کا خاتمہ کیا جائے گا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).