راہ ہدایت
اللہ پاک نے کائنات ایک ضابطے کے تحت بنائی ہے۔ روشنی کا اصول اندھیرے کے اصول کو کاٹ نہیں سکتا۔ دونوں اپنے وقت پر اپنا کام کرتے ہیں۔ حکم بجا لاتے ہیں۔ ستارے کی عمر انسان کی عمر سے زیادہ ہے لیکن وہ روشنی دیتا جا رہا ہے۔ دن میں سورج نکل آیا تو وہ بھی روشنی کا منبع ہے جانے کب سے ہماری پیدائش سے پہلے سے وہ روشنی دیتا جا رہا ہے۔ اس روشنی کی تلاش میں کھوجی نکلے اور وقت کی رفتار کو ماپنے لگے، کھوجنے والوں نے جانے کتنے عرصے کی کوشش کے بعد جان لیا کہ روشنی کتنا وقت طے کر کے ہم تک پہنچتی ہے۔ ستارہ مہینے کے کن دنوں میں آسمان کی کس سمت نظر آ سکتا ہے۔ نظام شمسی میں سورج سے متصل کتنے نظام ہیں اور اس کائنات سے باہر کتنی کائناتیں ہیں۔ خلا کا سفر طے ہو گیا۔ چاند تک رسائی ہو گئی، انسان خوش ہو گیا کہ ستاروں کا ہدف حاصل ہو گیا۔
غور کیا تو معلوم ہوا کہ آسمان کا ایک الگ نظام ہے زمین ایک الگ نظام سے گزر رہی ہے۔ لیکن سب ہی ایک ضابطے کے اندر ہیں۔ زمین پر ہی انسان بڑھا، پھیلا۔ نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ذہن پر دل نے دستک دی کہ کوئی ہے جس کے حکم کے تابع سب کچھ ہے۔ انسان کا دل پکارتا ہے کہ کوئی ہستی اس نظام کو چلا رہی ہے۔ کوئی ہے جو دن کو رات میں بدلتا ہے اور رات کو دن میں داخل کرتا ہے۔ کھوجنے والے تلاش میں نکل گئے اور ماننے والوں کے لئے دل کا راستہ کھل گیا۔ راستے پر چلنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ چلنے سے قبل دریافت کیا جاتا ہے کہ راستہ کیسے طے کیا جائے۔ اس میں وہ صاحب دل جو منزل کے قریب ہوں نئے آنے والوں کو راستے کی کنجیاں تھما دیتے ہیں۔ کھوجنے والا کھوجتا رہتا ہے ماننے والے راستے کے مسافر ہو جاتے ہیں۔
کھوجتا کون ہے؟ جس کے پاس سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ جس کے اندر ایک سلسلہ چلتا ہے لیکن اسے چین نہیں لینے دیتا۔ سوال رت جگا ہے، سوال خیال ہے، سوال قدرت کی نشانی ہے، سوال دل کا محرم ہے، سوال رسائی ہے، سوال غنچہ ہے جو جواب کے پھول میں بند ہے۔ سوال عشق ہے۔ جس کے پاس سوال نہ ہو وہ خالی ہے۔ سوال تلاش ہے تو جواب اللہ ہے۔ کھوجتا کون ہے تلاش کے سفر پر کون روانہ ہوتا ہے۔ جس کا دل تو گواہی دیتا ہے لیکن مشاہدہ ساتھ نہیں دیتا۔ ذہن والے لوگ کھوجتے ہیں، جن کے ماحول کے اثرات ان پر ایسا اثر ڈالتے ہیں کہ وہ ایمانی کیفیت سے دور رہتے ہیں۔ جس کے لئے انھیں اپنے دل کے ساتھ دماغ کی گواہی بھی ضروری لگنے لگتی ہے۔ جو پیدائشی مسلمان نہیں ہوتے۔ لیکن ان کی کھوج میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ ان کی پچھلی زندگیوں کو بھی مسلمان کر جاتا ہے۔
تلاش کی ضرورت اسے ہوتی ہے جسے معلوم نہ ہو راستہ کیا ہے۔ کون مسافر ہے، رہبر کون ہے! ہدایت کس کو ملتی ہے جو تلاش کے بعد ہی سہی ایمان لے آئے۔ لیکن وہ جسے پیدا ہوتے ہی ایمان کی گٹھی ملی ہو۔ اور وہ اپنی پیدائش بھول گیا ہو؟ جب اللہ ہمارے ساتھ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت ہمارے پاس موجود ہے، اللہ کا پیغام قرآن پاک کی صورت میں قائم ہے۔ پھر بھی ہمیں ہدایت کیوں نہیں ملتی؟ کیوں ہم ظلم و جبر کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں؟ کیا ہم نے تلاش چھوڑ دی ہے یا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم نے عمل چھوڑ دیا ہے۔
دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر انسان اپنی اصل شناخت کھو بیٹھا ہے۔ اسے زندگی رنگین اور اپنا آپ بے رنگ محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنے سکون کے نت نئے طریقے اپناتا ہے لیکن سکون نہیں ملتا۔ جس اللہ نے یہ تمام دنیا بنائی اس میں اتنے رنگ رکھے وہ انسان کی زندگی کو کیسے بے رنگ چھوڑ سکتا ہے۔ درخت بھی خواہ سوکھا ہو اس پر چرند آ کر ضرور بیٹھتے ہیں، کیا ہم سب بے فیض ہو چکے ہیں جو کسی کو فیض نہیں دے سکتے۔ زندگی کی ترازو کو ہم نے ایک پلڑے کا سمجھ لیا ہے جس میں ہم نے صرف اپنا آپ رکھا ہے۔
ہم نے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا لیکن اسے گزارنے کا قرینہ نہیں سیکھا جو ہمیں اتنے سال قبل عطا کر دیا گیا ہے۔ ایک انسان جو ایمان نہیں رکھتا جب اس کے اندر امید کا ستارہ جگمگاتا ہے تو وہ تلاش کرتا ہے کہ میرا رب کون ہے۔ ہمیں رب نے جو کچھ پہلے سے عطا کر دیا ہمیں اس کی قدر ہی نہیں۔ اس کا سفر باہر سے شروع ہوتا ہے اور ہمارا سفر اپنے اندر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سفر اندر کا سفر ہے، ایمان کا سفر ہے، ماننے کا سفر ہے، فلاح بانٹنے کا سفر ہے۔
ہدایت کی توفیق ان کو ملتی ہے جو خود بھی اس کے طالب ہوں۔ طالب کو مرشد مل کر رہتا ہے۔ کھوجی کو سفر مل کر رہتا ہے، تلاش کرنے والے کو منزل کا پتہ دے دیا جاتا ہے، اس کی شرط عاجزی ہے۔ جس کی تلاش اللہ ہے اس کا سفر الا اللہ ہے۔ جس کا خیال اللہ ہے اس کی عاقبت بھی اللہ ہے۔ جس کا استاد اللہ کے راستے پر ہے اس کا مرید بھی اسی راستے پر ہے۔ جس کو دنیا چاہیے ہو اسے دنیا ملتی ہے جسے اللہ چاہیے اسے اللہ ملتا ہے۔ فرق صرف خیال، تصور اور دل کا ہے۔ اس لئے خاموشی سے اپنے اندر جھانکنے کا حکم ملا ہے تا کہ جانچ ہو سکے تیرا دل کیا چاہتا ہے۔
پس دو گروہوں میں فرق یہ ہے کہ جو نہیں مانتا اسے ماننے سے قبل کھوجنا پڑتا ہے کہ رب کہاں ہے۔ اور جسے معلوم ہو کہ اللہ ہی تمام جہانوں کا رب ہے وہ تلاش کے لئے کہاں جائے گا۔ وہ اس تلاش میں اپنے رب تک ہی پہنچے گا۔ کمی صرف ماننے کی ہے۔ ہم جس پر عمل پیرا نہیں اسے ہم نے دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ اور اگر تسلیم کر چکے ہیں تو اس کا عملی پیکر نہیں بن سکے۔ پھر فرق رہے گا کہ دل اور دماغ ایک نقطے پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔
اس کے لئے یکسوئی کی ضرورت ہے جس کے لئے اللہ سے رجوع لازم ہے۔ ورنہ یہ فرق ہمیں چین نہیں لینے دے گا۔ پھر رات تو ہوگی مگر دل کی روشنی نہیں ہوگی۔ اندھیرے میں چمکنے والا چراغ نہیں ہو گا۔ جس سے تعمیر ہو آدم کی وہ گل نہیں بن سکے گی۔ دل کا چین اور روح کا سکون اللہ کی یاد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ دنیا کی رنگینی کھو جائے گی اور پھر تسلیم کا چراغ روشن ہو گا۔ آخر میں صرف انسان اور اللہ ہی رہ جائے گا۔ اور کہانی ختم ہو جائے گے۔
اس کہانی کے ختم ہونے سے قبل ہمیں اپنی کہانی تحریر کرنی ہے۔ اللہ پاک نے لوح محفوظ میں بڑی محبت سے میرا نام لکھا تھا۔ اس محبت سے اپنی کتاب میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام تحریر کرنا ہے۔ ورنہ زندگی لا یعنی اور بے مقصد رہ جائے گی۔ زندگی بہت مختصر ہے اور وقت کم، اور پھر ہم سب اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔ دعا ہے کہ اس وقت اللہ ہمارے ساتھ ہو، شفاعت کا دست شفقت ہمارے ساتھ ہو۔ تسلیم کے چراغ روشن ہوں۔ ایمان کا نور راستے کو روشن کر سکے۔ اللہ پاک ہم سب کے حامی و ناصر ہوں آمین!
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).