شاہراہ دستور یا جرنیلی سڑک؟


اس بات میں کلام کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ ووٹ پی ٹی آئی کو پڑا ہے۔ کسی بھی سیاسی کارکن کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ انتخابی مینڈیٹ کا احترام کرے۔ احترام کے ساتھ ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مشکل وقت میں اپنی قیادت کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ انتخابات سے چند دن پہلے بلا چھن جانے کے بعد وہ جس رفتار سے عوام میں گئے اور اپنے انتخابی نشان کی پہچان کروائی وہ ناقابل یقین ہے۔ الیکشن والے دن بھی جس طرح انہوں نے ووٹر کو متحرک کیا اور پھر اپنے ووٹ پر پہرا دیا، وہ بے مثال ہے۔ روایتی سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ اور کارکنوں کے لیے اس میں سیکھ کا بہت سارا سامان موجود ہے۔

لیکن کیا اس موقع پر سیاست کے ہم جیسے طالب علموں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ خان صاحب کو حق سمجھ کر تحریک انصاف کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوجائیں؟ نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ میڈیٹ کا احترام ایک بات ہے اور سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف دوسری بات ہے۔ بہت سوچ لینے کے بعد بھی تحریک انصاف کی سوچ سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ دو سادہ سی وجوہات ہیں۔ ایک، تحریک انصاف کی مرکزی سوچ غیر سیاسی ہے۔ دوسرے، تحریک انصاف کا بیانیہ ریاستی اشرافیہ کے اس بیانیے کا کاپی پیسٹ ہے جو پون صدی سے چلا آ رہا ہے۔

تحریک انصاف کا اجتماعی مزاج رواداری، شراکت، مشاورت اور شمولیت جیسے عناصر کا یکسر انکاری ہے۔ سیاست ان کے لیے حق اور باطل کا ایک ایسا معرکہ ہے جس پر ان سے پہلے مکمل کاپی رائٹ صرف جماعت اسلامی کے تھے۔ اس کی ایک مثال ماضی سے لیتے ہیں دوسری مثال حال سے۔

جنرل پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں خان صاحب نے ووٹ دیا، جس پر بعد میں پشیمانی کا اظہار کیا۔ یہ پشیمانی انہیں کیوں ہوئی؟ اس لیے نہیں کہ جنرل مشرف ایک ڈکٹیٹر تھا۔ اس لیے کہ جنرل مشرف سے وہ جس احتساب کی توقع رکھتے تھے، مشرف اس پر پورا نہیں اترے۔ یعنی جنرل مشرف اگر میاں صاحب کو سزائے موت دے دیتے، جائیدادیں ضبط کر لیتے اور بے نظیر بھٹو کو قیامت تک لیے سیاست سے دور کر دیتے تو وہ مشرف کے حکومتی وجود کو درست مان لیتے۔

اسی بات کو ایک اور سوال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ریفرنڈم پر ندامت کے بعد وہ کہاں گئے؟ کیا ان لوگوں کی طرف جو سیاسی بنیادوں پر جنرل مشرف کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے؟ ناں جی، وہ متحدہ مجلس عمل کے اس پلیٹ فارم کی طرف گئے جسے خود جنرل مشرف نے اپنے خلاف ایک ایسی اسلامی اپوزیشن برپا کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا جو انہیں صرف جہادی معاملات میں چیلنج کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مجلس عمل کی جد و جہد کو نمایاں رکھنے کے لیے صحافی اور ٹی وی مالکان ہر دم موجود رہتے تھے۔ مشرف کے خلاف اعلان کیے جانے والے کسی بھی ملین مارچ کے لیے درخواست بعد میں پہنچتی تھی، این او سی پہلے جاری ہو چکا ہوتا تھا۔ خان صاحب ان ملین مارچوں میں اعزازی مہمان کی حیثیت سے ایک ڈکٹیٹر کو چیلنج کیا کرتے تھے۔

حال کی طرف آئیں تو مثالیں بے انتہا ہیں، مگر آپ صرف جیل جانے سے پہلے کے ان کے بیانات دیکھ لیں۔ جاتے جاتے بھی ان کی تکرار یہ تھی کہ میں چوروں (سیاست دانوں ) سے ہر گز بات نہیں کروں گا۔ اصرار یہ تھا کہ بات صرف اس سے ہوگی جن سے بات ہونی چاہیے۔ اس سے ان کی مراد ایک ایسی ہستی تھیں جو پنج وقتہ نمازی ہیں اور قرآن کے حافظ ہیں۔ یہ چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کے پہلے حافظ ہیں جو قرآن کی آیت ح اور ع کی درست ادائیگی کے ساتھ پڑھ کر بھی سوائے شہباز شریف اور مریم نواز کے کسی کو متاثر نہیں کر پائے ہیں۔

اس بات کو بھی آسان بھاشا میں کہیں تو خان صاحب سیاست دانوں کے ساتھ مل کر بندوقچی کے لیے کسی قسم کا کوئی چیلنج پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ وہ بندوقچی کے ساتھ مل کر سیاست دانوں کا بیک جنبش قلم خاتمہ ضرور کر دینا چاہتے ہیں۔ اس تصور کے ساتھ سیاست میں موجود ہونا بجائے خود ایک بڑی سیاسی بد اخلاقی ہے۔ یہ بد اخلاقی نوے کی سیاست میں پائی جاتی تھی، مگر سیاست دانوں نے صلوۃ التوبہ پڑھی اور میثاق جمہوریت پر دستخط کر دیے۔ جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد سیاست دانوں نے میثاق کی روح اوڑھ کر ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ مگر ریاستی اشرافیہ نے کبھی میموگیٹ کے گلاس میں دھورا جی کا گولا گنڈہ بیچا تو کبھی مک مکا کی گردان رٹا کر خان صاحب کو ریاستی اڑن طشتری پر بٹھایا۔

ان سب سے ہٹ کر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طاقت کے غیر جمہوری مراکز سے اب بھی کوئی سیاسی اختلاف نہیں ہے۔ ان کا اختلاف محض ایک فرد سے ہے اور اس اختلاف کی وجہ بھی غم اور غصے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر تحریک انصاف کے نقطہ نظر میں اور غیرریاستی اشرافیہ کے نقطہ نظر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست وہی ون یونٹ والے تصورات کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی قوتوں کا گھیراؤ کرنے کے لیے تراشے گئے نظریہ پاکستان، کرپشن اور احتساب جیسے ریاستی نعروں کے وارث بھی تنہا خان صاحب ہی ہیں۔ اقتدار کے بندوبست کے حوالے سے بندوقچی اور پی ٹی آئی کی رائے میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے، نظریہ پاکستان کے فروغ، صدارتی نظام کے قیام اور ایک قومی نصاب پر ان کے بیچ کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سابق فوجی جرنیلوں، مرحوم جرنیلوں کی اولادوں، سبز ہلالی قاضیوں اور بیوروکریٹوں، شیخ رشید، پرویز الہی، فواد چوہدری اور عمر ایوب جیسے ریاستی کارندوں کے لیے تحریک انصاف ہی آخری خیمہ بستی ثابت ہو رہی ہے۔ یہی نہیں، الیکشن کے بعد بھی پی ٹی آئی کے لیے ریاستی بیانیے کی امانت دار جماعتیں وحدت المسلمین اور جماعت اسلامی آپشن ثابت ہوئی ہیں۔ سپاہ صحابہ، تحریک لبیک اور جماعۃ الدعوہ اگر کسی سیاسی پوزیشن میں ہوتیں تو ہر آپشن سے بڑھ کر یہی آپشن ان کے لیے روا تھا۔

سو، یہ مقابلہ پرو اسٹبلشمنٹ یا اینٹی اسٹبلشمنٹ کا نہیں ہے۔ یہ اسٹبلشمنٹ بمقابلہ اسٹبلشمنٹ کا ہے۔ یہ معاملہ سیاسی قبیلہ بمقابلہ غیر سیاسی قبیلے کا ہے۔ اس مقابلے میں غیر سیاسی قبیلے کو برتری حاصل رہی ہے۔ ایک ایسا غیر سیاسی قبیلہ جس سے ایک غیر سیاسی شخص ناراض ہے۔

ووٹ کا احترام ایک بات ہے، وہ ہم سب پر لازم ہے۔ مگر بڑھتی ہوئی اس غیر سیاسی سوچ کا خاتمہ کیسے ہو، یہ ہم سب کے لیے ایک سنجیدہ سوال ہے۔ کیا اس کے لیے کوئی غیر سیاسی راہ اپنائی جائے؟ ووٹر کی ذہانت کو تضحیک کے بھاڑ میں جھونکا جائے؟ یا اپنے حصے کا کوئی ’ذہین‘ بندوقچی ڈھونڈ کر گاڑی جرنیلی سڑک پر ڈال دی جائے؟

نہیں، اس کا حل سیاست ہی میں پنہاں ہے۔ سیاست ہی وہ درس گاہ ہے جو کسی بھی سیاسی کارکن کی تربیت کر سکتا ہے۔ جیل، سزا، عدت، رانا ثنا اللہ، انتخابی نشان کی چوری وغیرہ نے تربیت کے سفر کو بڑھاوا دیا ہے۔ ایسا کوئی بھی قدم آگے بھی بڑھاوا ہی دے سکتا ہے۔ یہاں پہنچ کر میں پھر سے بہکنے لگا تھا، مگر اچانک میرے سامنے یہ سوال آ گیا کہ تحریک انصاف کی قیادت ایسے کسی سفر پہ کتنا یقین رکھتی ہے؟ خان صاحب جب آئیں گے تو سیاست کریں گے یا انقلاب لائیں گے؟ سیاسی قبیلے کے ساتھ مل کر ریاستی قبیلے کو جواب دیں گے یا ریاستی قبیلے کے ساتھ مل کر سیاسی قبیلے کے خلاف جنگ لڑیں گے؟ ان سوالات کا جواب ملنے پر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بدلاؤ کا یہ سفر کتنا لمبا ہے۔

سفر لمبا ہی سہی، مگر گاڑی شاہراہ دستور پہ رہنی چاہیے۔ مورخ دیکھ کر آیا ہے، جرنیلی سڑک کے دوسرے سرے پہ روشنی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments