زن بیزاری


Loading

وہ تمام افراد جو صنفی تشدد کے امدادی وسائل اور روک تھام کے لئے کسی بھی لحاظ سے فرائض سر انجام دیتے ہیں، ان کو مسلسل وقوع پذیر ہونے والے صنفی تشدد کے غیر معمولی واقعات انہونی معلوم نہیں ہوتے۔ یہ ان کی زندگیوں کا روزمرہ کا معمول تو بن ہی جاتا ہے مگر اس کے ہمراہ اور بہت سی نفسیاتی اور جذباتی وجوہات بھی موجود ہیں۔ مجھ سمیت ان رضاکاروں میں مایوسی کا عنصر نمایاں ہو چکا ہے۔ اس کو نا امیدی کہئیے یا حقیقت پسندی کہ عورت کے لئے شاید دنیا بنی ہی نہیں تھی، یہ تشدد، جبر، اور تکلیف کبھی انجام کو نہیں پہنچے گی۔

ہاں انفرادی طور پر تو مر جانے سے ایک متاثرہ عورت کی زندگی میں جبر تو ضرور انجام کو پہنچے گی مگر یہ سلسلہ باقیوں کے لئے کوئی بھی نہیں روکے گا۔ پے درپے انسانیت سوز کہانیوں کی ہیبت ناک اشکال اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی جس قدر ہمت، کوشش، یا محنت کر لے، یہ سماج عورت دشمن رویوں کو روکنے میں ناکام تو رہا ہے، آگے بھی خیر کی توقع رکھنا ممکن نہیں۔ معاشرے میں عورت بیزار سوچ موجود ہے، اس کا ثبوت یہ تو نہیں کہ جب وہ مار دی جائے، تب ہی اس کو تسلیم کیا جائے گا؟ ایک محکوم اور مغلوب کی ساری زندگی ہی اس امر کا مظہر ہوتی ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ماریہ کی زندگی بھی اسی بات کا مظہر تھی۔

جب کسی عورت کو جان سے مارا جاتا ہے تو یہ کوئی امتیازی طور پر مخصوص عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک بھرپور تسلسل کا نتیجہ بن کر ابھرتا ہے جو بہت سے ناقابلِ برداشت اور متشدد رویوں کی صورت میں پہلے ہو چکا ہوتا ہے۔ جان سے مار دینا اس سلسلے کا آخری انتہائی عمل ہے۔ یہ واقعات خاندانوں میں تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر متصل سماجی اکائیوں کے معذرت خواہانہ اطوار، توصیف، یا پردہ پوشی ظاہر کرتا آیا ہے کہ ایسا انتہائی عمل معاشرے کے لئے معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ماریہ کی موت کیا جدا گانہ عمل تھا یا اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا؟ تشدد کے اس عمل کی بہت سی کڑیاں ہوتی ہیں۔ اس کی موت سے اس کے قاتلوں کے مکان میں کیسا سکون اور قاتلوں کے حواس کس قدر مطمئن تھے، بتاتا ہے کہ صرف موت سے قبل اس کی کیسی حقارت اور تشدد آمیز زندگی ہوگی۔

ریاست کی حاکمیت اور رٹ ہر اس لمحے ٹھکرائی جاتی ہے جب جب تشدد کرنے والے سکوں کی سانسیں لیتے ہیں۔ ریاست کے مجرم فقط اسلحہ اٹھائے دہشتگرد ہی نہیں، بلکہ ملک کے شہریوں کو اس نوعیت کے جبر کا نشانہ بنانے والے بھی برابر کے دہشت گرد ہیں۔ جس ریاست کی آدھی آبادی کو ایک خاص طرز کے جرائم اور جبر کا سامنا ہو، وہاں ان نجی دہشت گردوں کے خلاف بھی ریاست کو اسی طرح نقل و حرکت کرنے کی ضرورت ہے جیسے ملکی سلامتی کے دشمنوں کے خلاف کی جاتی ہے۔ کیا یہ آرزو رکھنا دیو مالائی دنیا کی باتیں ہیں؟ کیا ہر شے کا تعلق سیاست اور سلامتی سے نہیں؟

اس جہاں میں لاکھوں علم و ہنر، سوچ، انصاف، امن و سلامتی اور ترقی کے حامل لوگ آئے، مذہبی پیشوا، فلسفی، دانش ور، علماء، حکماء، سلاطین، اور رہنما آئے۔ ریاستیں، حکومتیں، سماج، روحانی، سیاسی تحاریک عروج پر پہنچیں، جنہوں نے تہاذیب کو تخلیق کیا، سنوارا، تبدیل کر ڈالا، مگر یہ ارتقاء بھی عورت بیزاری کو کیوں ختم نہ کر سکا؟ یہ دنیا آج بھی اس وجود کو پامال اور رسوا کرتی ہے۔ ریاست، حکومت، آئین، یا جدت کی اوٹ نے تلخیوں کو چھپا تو رکھا ہے مگر ختم نہیں کیا۔ آج بھی اس وجود کے لئے جینا مشکل اور مار دیا جانا آسان ہے۔

رابعہ سرفراز چودھری
Latest posts by رابعہ سرفراز چودھری (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments