مزاحمت والی مریم عوامی مریم بن گئی
بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مریم نواز نا تجربہ کار ہیں ان کا انتظامی امور چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے وہ پنجاب جیسے سب سے بڑے صوبے کو نہیں چلا سکیں گئیں۔ کچھ ناقدین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مریم نواز عثمان بزدار سے بھی برے طریقے سے پنجاب چلائیں گی۔ لیکن مریم نواز نے تمام تبصرے، تجزیے پیش گوئیاں غلط ثابت کر دیں، 30 دنوں میں مریم نواز نے وہ کام کیے جو پنجاب کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں سرانجام پائے۔
ان میں سب سے بڑی مثال رمضان نگہبان پیکج کی ہے۔ کوئی بھی حکومت مستحق افراد کے گھروں تک باعزت طریقے سے راشن نہیں پہنچا سکی۔ لیکن مریم نواز نے یہ ثابت کر دیا۔ اس رمضان پیکج کی سب سے بڑی خصوصیت ہی یہی تھی کہ کسی مستحق کی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا گیا۔ مریم نواز نے اس پورے عمل کی ذاتی طور پر نگرانی کی۔ ان کی جماعت کے بہت سارے سر کردہ رہنماؤں نے اپنے حلقوں میں رمضان پیکج خود تقسیم کرنے پر اصرار کیا لیکن مریم نواز نے اس کی اجازت نہیں دی۔
مریم نواز کا دوسرا سب سے بڑا کام لاہور میں پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کے قیام کا آغاز ہے۔ ان کا تیسرا اور سب سے اہم کام پنجاب میں ایک لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ بہت جلد مریم نواز پہلے ماڈل گھر کا افتتاح کریں گی اور مستحق افراد کو گھر کی چابیاں ان کے حوالے کریں گی۔ جبکہ اس سے قبل ان کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان نے پاکستانیوں کو لنگر خانے اور پچاس لاکھ گھروں کے نام پر ایک اینٹ بھی نہیں لگا کر دی۔
مریم نواز نے وزیر اعلی بننے کے بعد اپنے طرز سیاست کو مکمل تبدیل کر لیا ہے۔ آٹھ فروری سے پہلے والی مریم نواز اور آج کی مریم نواز میں زمین و آسمان کا فرق ہے، آٹھ فروری سے پہلے والی مریم نواز تلخ لہجہ رکھنے والی اور مخالفین پر تابڑ توڑ حملے کرنے والی مریم نواز تھی لیکن آج کی مریم نواز کو اپنے مخالفین کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔ ان کو فکر ہے تو پنجاب کے 11 کروڑ عوام کی فکر ہے۔
مریم نواز کی شخصیت مزاحمت کے سانچے میں ڈالی گئی تھی۔ جس کا آغاز 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے کے بعد ہوا پھر 2017 میں نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے وزیراعظم ہاؤس سے نکالے جانے کے بعد مریم نواز مزاحمت کی آواز بن کر سامنے آئی لیکن وزیراعلی بننے کے بعد مریم نواز نے مکمل طور پر خود کو تبدیل کر لیا۔ مزاحمت والی مریم عوامی مریم بن گئی ہے۔ آج وہ جس عہدے پر فائز ہیں اس کا تقاضا ہے کہ وہ مار دھاڑ اور پکڑ دھکڑ کی سیاست کی بجائے عوامی مسائل کے حل پر فوکس کریں۔ جو حکمران اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کے گریبان پکڑنے اور ان کو جیلوں میں ڈالنے کی سازشوں میں مصروف عمل رہتے ہیں ان کا رابطہ عوام سے کٹ جاتا ہے۔ وقتی طور پر تو وہ مولا جٹ کی سیاست سے عوام میں ہیرو بن سکتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا رول ایک ولن کا ہوتا ہے پھر جیسے ہی وہ اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو ان کو اپنے طرز حکومت پر پچھتاوا ہونا شروع ہوتا ہے۔ مریم نواز کی حکومت کو 30 دن مکمل ہو چکے ہیں اس دوران انہوں نے اپنے ایک بھی بیان میں مخالفین سے متعلق ایک بھی لفظ نہیں بولا۔
وہ روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار اہم اور عوامی نوعیت کے اجلاسوں کی صدارت کرتی ہیں پھر وہ عوام سے ملاقاتیں کرنے کے لیے باہر بھی نکل آتی ہیں جبکہ ان کے مخالف جماعت کی خیبر پختون خواہ میں حکومت ہے وہاں 30 روز میں ایک بھی ایسا پروگرام پروجیکٹ یا منصوبہ عوامی نوعیت کا سامنے نہیں آیا جس میں عوام کو کوئی وقتی ریلیف ملا ہو اسی لیے مریم نواز اکثر کہتی ہیں کہ میرا مقابلہ میرے کسی سیاسی مخالف سے نہیں بلکہ میرے والد اور چچا سے ہے کیونکہ ان دونوں نے پنجاب میں ڈلیور کر کے دکھایا ہے اس لیے مریم نواز کارکردگی کی بنیاد پر اپنے والد میاں نواز شریف اور چچا شہباز شریف سے مقابلے کی ریس میں شامل ہیں۔
مریم نواز کو بڑے عہدے پر دیکھنا بیگم کلثوم نواز کی دلی خواہش تھی جس کو ان کے والد میاں نواز شریف نے پورا کر دیا۔ امید ہے مریم نواز اپنے والد کی توقعات پر پورا اتریں گی اور پنجاب میں پارٹی کو مضبوط اور مستحکم کریں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے جن کارکنوں نے چار سال تک نواز شریف کے بیانیے کو من و عن سپورٹ کی مریم نواز اور شہباز شریف کو چاہیے کہ ان کارکنوں کی بھی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا وجود اپنے کارکنوں کی بدولت ہی ممکن ہوتا ہے صرف لیڈرشپ کا نام ہی سیاسی جماعت نہیں ہوتا اگر بات لیڈرشپ کی ہے تو شیخ رشید کی مثال سب کے سامنے ہے وہ اکیلا ہی پارٹی کا سربراہ بھی ہے رکن بھی ہے اور کارکن بھی ہے۔ جو سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو نظر انداز کرتی ہیں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
- عمران کی سیاست وزیر اعظم ہاؤس یا سڑکیں - 25/11/2024
- کیا ٹرمپ حقیقی آزادی دلائے گا؟ - 07/11/2024
- بیرون ملک چیف جسٹس (ر) فائز عیسی سے بدتمیزی - 31/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).