شفاف لوگوں کو کون قابو کرے گا؟
8 فروری 2024 میں منعقد ہونے والے حالیہ قومی انتخابات نے الیکشن کمیشن سمیت تمام قومی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اگرچہ غنیمت ہے کہ انتخابات ہو گئے اور نئی حکومت کے قیام سے ملک کی گاڑی کا پہیہ چل پڑا ہے۔ مگر ان انتخابات سے یہ بات مزید عیاں ہو گئی ہے کہ طاقتور سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ کا مفاد سول اداروں کو کمزور رکھنے خاص طور پر الیکٹورل نظام کو اپاہج رکھنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ تکنیکی اور قانونی اعتبار سے تمام بڑی پارٹیوں کے امیدواران انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کی پاداش میں نا اہل قرار پاتے ہیں جہاں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق جو انتخابی امیدوار کو غالباً پندرہ لاکھ کے اخراجات کی اجازت دیتا ہے کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے اور کئی درجن کروڑ کے اخراجات کئیے گئے۔
حد تو یہ ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کو پاؤں تلے روند کر سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نتیجے میں جیتنے والے امیدوار اب قومی اسمبلی کی نشست سنبھال کر اسمبلی میں قانون سازی کے عمل کی نگرانی کریں گے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے محنت کش طبقے کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پوشیدہ مقاصد سمجھ میں آ جائیں گے کہ کیسے اس ملک کی چھوٹی سی اقلیت کثیر لوگوں کی محنت کا منافع اپنی جیب میں ڈالنے کے لئے آزاد ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانی مساوات کا دائرہ صرف ووٹ ڈالنے تک ہے جبکہ زندگی کے تمام شعبے سنگین عدم مساوات کا شکار ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مطلب ہے کہ چھوٹی سی اقلیت کو امیر ترین رکھنے کے لئے بھاری اکثریت کو غریب رکھا جائے اور جمہوریت کے نام پر لوگوں کو اپنا استحصال کرنے والے ایک گروہ یا کسی دوسرے گروہ کو اپنا حاکم بنانے کی آزادی ہو۔ وہ سماجی علوم جن کی غیر جانبداری کو سائنسی علوم کی طرح مسلمہ ثابت کرنے پر زور لگایا جاتا تھا وہ بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
تاریخ ہی کو لیجیے، تاریخ کا سرمایہ دارانہ نظریہ ہے کہ چند شخصیات تاریخ ساز ہوتی ہیں۔ یہ شخصیات مافوق الفطرت طاقتیں رکھتی ہیں، عام آدمی کچھ نہیں ہوتا۔ چمن میں بڑی مشکل سے پیدا ہونے والے دیدہ ور ہی تاریخ بناتے ہیں۔ لیکن سائنس کی کچھ دریافتوں اور ایجادات نے چند ایسے حقائق کو بے نقاب کیا جس سے ثابت ہو گیا کہ محنت کرنے والوں نے ہی انسان کو قدرت کا مالک بنایا ہے۔ عام انسان ہی تاریخ بناتے ہیں۔ جاگیرداروں اور بادشاہوں نے چونکہ دنیا کے تمام ہی ملکوں پر صدیوں بلکہ ہزاروں سال حکومت کی ہے اس دوران معاشروں میں ایک جاگیرداری کلچر بھی پروان چڑھا ہے۔
ہندوستان کے جغرافیائی خطے میں بھی جاگیرداروں نے ہزاروں سال حکومت کی ہے یہاں تک کہ جاگیر دار کی ذیل میں بسنے والی آبادی یعنی رعایا حکمرانی کی اس طرز کو انسانی فطرت کے عین مطابق اور ناگزیر سمجھتی تھی۔ جاگیر دار اور اس کے خاندان کے چھوٹے سے بچے کو بھی ”، مائی باپ“ کا لقب دیا جاتا تھا۔ رعایا اپنے حاکموں کو کسی بیرونی خطرے سے بچانے کے لئے اور ان کے خزانے بھرنے کو اپنی پیدائش کا مقصد جانتی تھی۔ غلام اور آقا کا یہ رشتہ دور جدید میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
عام آدمی کو سیاست یا دوسرے لفظوں میں طاقت سے دور رکھنے کے لئے پیسے کا اندھا دھند استعمال ہی ایک کارگر طریقہ ہے۔ چاہے آپ کتنے ہی پڑھے لکھے، ایماندار اور دانشور کیوں نہ ہوں لیکن آپ سیاست نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ کے پاس پیسہ نہ ہو یا پیسے والوں اور طاقتور گروہوں کی آشیر باد حاصل نہ ہو۔ شریف، پڑھے لکھے، محنتی اور ایماندار لوگوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے سیاست کو گالی بنا دیا گیا ہے کہ یہ شریف لوگوں کا کام نہیں یعنی دوسرے لفظوں میں قوم کی باگ ڈور سنبھالنا اور قیادت کا فریضہ انجام دینا صرف لچے، لفنگوں اور بدمعاشوں کا ہی کام ہے اور عجیب اتفاق ہے کہ اس کیٹیگری میں آنے والوں میں سے زیادہ کا تعلق اس کلاس سے ہوتا ہے جو خود کو طبقہ اشرافیہ یا خاندانی کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ سب کے لئے برابر مواقع۔ تعلیم پر سب کے برابر حق کا آئین اور قانون کی کتابوں میں موجود ہونا اور عملی طور پر صرف سرمایہ دار طبقے کا اس حق سے فائدہ اٹھانا طبقاتی معاشرے کا بنیادی تضاد ہے۔ نظام کی بہتری اداروں کی بہتری میں پوشیدہ ہے اور اداروں کی بہتری تب ہو گی جب ادارے آزاد ہوں گے اور قانون کی حکمرانی ہو گی نہ کہ افراد کی۔ تب ہی نظام کی گرفت ہو گی۔ جب کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت نظام کی گرفت نہیں بلکہ نظام پر ناظم کی گرفت کو مضبوط کرتی ہے۔
ناظم تو بدلتے ہی رہتے ہیں، نظام مضبوط نہ ہوا تو ملک ڈوب جائے گا۔ کیا ملک کے چند سو اداروں پر وفاداروں کا تقرر کر کے مخصوص لوگوں کے مفادات کی نگہداشت نہیں کی جاتی؟ کیا ہمارے ہاں الیکشن کمیشن آزاد ہے؟ اگر آزاد ہے تو پوری قوت سے اپنا ضابطہ اخلاق نافذ کرنے میں ناکام کیوں؟ نیب آزاد ہے تو اب تک کتنے طاقتور لوگوں کے ٹرائل کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا؟ ، حقیقت تو یہ ہے کہ کمزور پھنس جاتے ہیں اور طاقتور پلی بارگین کر کے چھوٹ جاتے ہیں۔
کیا اس ملک کی عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ واقعی آزاد ہیں؟ جنرل مشرف کو عوام کا تعاون بھی حاصل تھا، فوج بھی ساتھ کھڑی تھی اور پوری دنیا نے بھی گلے لگایا ہوا تھا، کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ اتنی طاقت کسے ملتی ہے؟ لیکن ملک کو نیا نظام دینے کی سمت کوئی کام نہ کیا گیا۔ شاید اس لیے کہ اتنا بڑا جھمیلا کون سر پر اٹھائے، شاید اس لیے بھی کہ اگر نیا مضبوط سیاسی نظام تشکیل دیا جاتا، جس میں ملک کے بہترین لوگ آسکتے اور حکومت کار گر ہوتی، تو ایسا نظام خود طاقت اختیار کر لیتا۔
پھر ان سب کا کیا ہوتا؟ ظاہر ہے، اب جو موجودہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے تحت منتخب ہو کر آئیں گے وہ کیسے اس نظام کو بدلیں گے، جس کے زور پر انھیں طاقت ملی۔ نظام یہی رہے گا جب تک اسے نوچ کر نہ ہٹایا جائے۔ پہلے نیشنل سیکیورٹی کونسل پر اکتفا کیا گیا اور یہ ادارہ بھی ناکام ہی رہا۔ اس کا حکومت میں کوئی کردار نہیں تھا۔ بلدیاتی نظام پر مشرف دور میں جنرل نقوی کی قیادت میں خاصا کام کیا گیا، مگر نہ ہی یہ سول سروس کو بھایا اور نہ ہی سیاست دانوں نے اسے قبول کیا۔
بلدیاتی انتخاب کے انعقاد کا تسلسل ہی مضبوط جمہوری روایات اور لیڈرشپ کو فروغ دیتا ہے جو کہ عرصہ دراز سے تعطل کا شکار ہے یا عملی طور پر لوکل گورنمنٹ نظام کو مفلوج اور بے اثر کر دیا گیا ہے۔ سول سروس کی گرفت میں اب وہ سختی نہیں رہی جو انگریز بادشاہ عطا کر گیا تھا، اور وہ نچلی سطح پر بھی عوام کے نمائندوں کے تابع ہوئی۔ کیوں خوش ہوتی؟ سیاست دانوں کو یہ شکایت رہی کہ کیا پارلیمنٹ صرف قانون سازی ہی کرے اور سارا ترقیاتی بجٹ ناظمین کو ہی ملے؟
صوبائی حکومتوں نے کہا کہ ناظمین خود مختار ہیں، پھر ہماری کیا طاقت رہ گئی؟ جھگڑا سارا طاقت اور پیسے کا تھا، عوام کی بہتری کا نہیں۔ کچھ ردو بدل کی گئی، طاقت اور پیسے کو بانٹا گیا، لیکن پھر بھی کوئی خوش نہ تھا۔ یہ نظام بھی ناکارہ ہوا۔ اب عوامی دباؤ پر بلدیاتی انتخابات کا ڈول تو ڈالا جا رہا ہے لیکن عملی طور پر کونسلر کا الیکشن بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔ بلدیاتی ہوں یا قومی یا سینٹ انتخابات اپنی وقعت کے اعتبار سے اب صرف برائے نام الیکشن رہ گئے ہیں۔
بلدیاتی عہدیداروں کی حیثیت اب محض نمائشی ہو گی اور عملاً اختیارات بیوروکریسی کے پاس ہی رہیں گے۔ جب اوپر کی سطح پر نظام میں تبدیلی نہ لائی جائے تو نیچے کوئی تبدیلی کیسے آئے؟ یہ سارا نظام ان ہی سیاستدانوں اور ان کے ہم پیشہ طاقتور لوگوں نے تشکیل دیا ہے اور اس جمود اور بدستور حالت ( سٹیٹس کوو) کو ہلانے میں ان سب کا نقصان ہے، جو اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ آخر کیونکر یہ اقتدار اور پیسے کے پجاری اس نظام میں کوئی تبدیلی لانے دیں گے؟ فوج اس حوالے سے کیا سوچ رکھتی رہی ہے اس بارے جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں رقم طراز ہیں ”کہ ایک کور کمانڈرز کانفرنس میں جنرل مشرف نے یہ صفائی پیش کی کہ جہاں تک شفاف سیاستدانوں کا تعلق ہے تو جتنے سیاستدان ہیں، جب تک طاقت میں نہیں آئے تھے تو سب ہی صاف تھے۔ یہ گند تو بعد میں ان سے چپکا۔ تو اگر ہم صاف لوگوں کو لے لیں، تو کیا گارنٹی ہے کہ کل جب یہ طاقت میں آتے ہیں، تو گندے نہیں ہو جائیں گے؟ پھر ہم پہلی بار سیاسی نظام کو چلانے لگے ہیں، ضروری ہے کہ یہ لوگ ہمارے قابو میں رہیں۔ شفاف لوگوں کو کون قابو کرے گا؟ ”
- مشترکہ خطرات کے خلاف پاکستان بحریہ کی امن مشقوں کا جائزہ - 03/12/2024
- ورلڈ میری ٹائم ڈے، بلیو اکانومی کی اہمیت - 27/09/2024
- ملکی دفاع میں پاکستان نیوی کا قائدانہ کردار - 10/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).