ایک پاکستانی کتاب کی اسرائیل میں تقریب، اسرائیلی صدر کا پیغام، اہم امریکیوں کی شرکت
پیر مدثر شاہ صوفی کونسل کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب ’وسپر ان دی سٹون‘ لکھی ہے۔ یہ کتاب پنڈی کے اردگرد مختلف مذاہب کے آثار اور مقامات کے بارے میں ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ اور یہودی آثار کے حوالے سے اس کتاب میں تصاویر ہیں۔
اس کتاب کی تعارفی تقریب یروشلم سینٹر فار پبلک افیئر میں 27 مارچ کو ہوئی۔ اس تقریب میں گنتی کے دو ڈھائی درجن افراد شریک ہوئے۔ کتاب کے لکھاری سمیت کچھ مہمانوں نے ورچوئل شرکت کی۔
اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کا ایک ریکارڈڈ پیغام اس تقریب میں سنایا گیا۔ منتظمین تقریب اس میں ہونے والی باتوں کے حوالے سے بہت ہی احتیاط کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پیر مدثر شاہ سے یروشلم سینٹر نے رابطہ کر کے کہا تھا کہ آپ اپنے نام کی ادائیگی جیسے کرتے ہیں وہ ریکارڈ کر کے بھیجیں۔ اسرائیلی صدر آپ کا نام ٹھیک طرح سے ادا کرنا چاہتے ہیں۔ صدر اسحاق ہرزوگ پھر بھی نام کو پیر مصدر شاہ ہی بولتے رہے۔ ڈھائی منٹ کے اس ویڈیو پیغام میں 2 بار اسرائیلی صدر نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ٹیکنالوجی، زراعت، ماحولیات اور دوسرے شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی صدر کے پیغام کی ویڈیو تقریب میں چلائے جانے کے بعد فوری جاری نہیں کی گئی۔ اس کو ایڈیٹنگ کے لیے زیر غور رکھا گیا۔ یہ اس احتیاط کا مظاہرہ تھا کہ کوئی لفظ یا جملہ ایسا نہ چلا جائے جس سے کوئی حساسیت منسلک ہو اور کسی غیر ضروری ردعمل کا باعث بن جائے۔
ری پبلکن امریکی صدور ڈونلڈ ٹرمپ اور بش جونیئر کے مڈل ایسٹ ایڈوائزر اس تقریب میں شریک ہوئے۔ دو ڈھائی درجن افراد کی مختصر تقریب میں ہائی پروفائل شرکا کا اندازہ اسی سے لگا لیں۔ مائیکل ڈورن نے زوم کے ذریعے شرکت کی۔ یہ صدر بش کے دور میں امریکی وزارت دفاع میں پبلک ڈپلومیسی کے لیے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری رہے ہیں۔ یہ سینٹر فار پیس اینڈ سیکیورٹی مڈل ایسٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ’جیسن ڈی گرین بلاٹ دی ٹرمپ آرگنائزیشن‘ کے ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ کے علاوہ ٹرمپ کے چیف لیگل افسر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے دور صدارت میں یہ اسرائیل کے لیے صدر ٹرمپ کے مشیر تھے۔
اس تقریب میں ایک اسرائیلی خاتون نے پاکستان اور پاکستانیوں کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے یہودی آثار کو اوریجنل حالت میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ انڈین سفارتخانے کے ایک نمائندے نے بھی تقریب میں شرکت کی۔
انڈین ڈپلومیٹ کے لیے یقینی طور پر یہ بات اٹریکشن کا باعث تھی کہ ایک پاکستانی کتاب کی مختصر سی رونمائی تقریب میں اتنی ہائی پروفائل شخصیات اور خود اسرائیل صدر شریک ہیں۔ اگر کبھی پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہوئے تو پاکستان انڈیا کا پہلا میچ بیت المقدس میں موجود بابا فرید گنج شکر کی چلہ گاہ پر ہو گا۔
اس چلہ گاہ میں بابا فرید نے قیام کیا تھا۔ اس کا کنٹرول قیام پاکستان سے پہلے سہارنپور کی ایک انڈین فیملی کے پاس تھا۔ بابا فرید کے بھانجے سہارنپور سے تھے۔ ایک واسطہ اس طرح قائم ہوتا ہے۔ یہ چلہ گاہ اب انڈین سینٹر ہے اور اس میں مہمان خانہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا اس چلہ گاہ پر دعویٰ تکنیکی طور پر بہت مضبوط ہے۔
بیت المقدس میں پاکستانیوں کے لیے دلچسپی کے بہت سے اور پوائنٹ بھی ہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کی پہلی اہلیہ بھی بیت المقدس ہی میں دفن ہیں۔
پیر مدثر شاہ ’پاک یو ایس ایلومینائی‘ (سابق طالب علم) کے اسلام آباد چیپٹر کے صدر ہیں۔ تعلق مچھ بلوچستان سے ہے۔ سادات کی یہ فیملی سروبا جہلم اور بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ بزنس مین، کھلاڑی، لکھاری مذہبی لوگ سفیر بھی ہوتے ہیں۔ پبلک ڈپلومیسی یہ شخصیات معجزے برپا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے صوفی ڈپلومیسی کے اثر اور پہنچ کو ابھی دریافت ہی نہیں کیا۔ پاکستان کا صوفی کنیکشن کتنا مضبوط ہے اس کا ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہے۔ مختلف سلسلے کیسے کہاں کدھر آ کر جڑتے ہیں۔ اس پر کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا۔ ویسے ہی جنرل نالج واسطے عرض ہے کہ کئی ملکوں کے حکمران خاندان جن صوفیا کے عقیدت مند تھے ان کا تعلق بھی ہمارے خطے سے ہے۔ ان کنیکشنز کو ڈھونڈنے اور استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).