اسرائیل کا انتقام، ایران کا انکار
اسرائیل کی طرف سے ایران کے شہر اصفہان پر ڈرون اور میزائل حملے کے بعد بظاہر مشرق وسطیٰ میں کسی بڑے تصادم کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت اپنی ان کوششوں میں کامیاب دکھائی دیتی ہے کہ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے پر حملوں کے جنون میں وسیع علاقائی جنگ کا سبب نہ بنیں۔ البتہ ان حملوں سے اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت اپنے انتہا پسند عناصر کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہے گی کہ اس نے 14 اپریل کو ہونے والے ایرانی حملے کا بدلہ لے لیا ہے۔
اسرائیل نے ایران پر حملے کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی امریکہ نے اس بارے میں سرکاری طور سے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل نے ایران پر میزائل اور ڈرون حملہ کیا ہے۔ لیکن امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکومت نے امریکہ کو اس حملہ کے بارے میں قبل از وقت مطلع کر دیا تھا۔ حملہ کی نوعیت اور ایران کی طرف سے اس وقوعہ کی سنسنی خیزی سے انکار کے سبب مبصرین یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور ایران دونوں کو عقل کے ناخن لینے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس سے پہلے اتوار کے روز ایران نے تین سو کے لگ بھگ ڈرون اور میزائل اسرائیل پر داغے تھے۔ البتہ اس بارے میں ایرانی حکومت نے ہمسایہ ممالک کے علاوہ امریکہ کو بھی مطلع کر دیا تھا۔ سرکاری موقف سے قطع نظر پیش از وقت اطلاع فراہم کرنے ہی کا نتیجہ تھا کہ اسرائیل نے امریکہ اور اپنے دیگر حلیف ممالک کی مدد سے تمام ایرانی ڈرون و میزائل مار گرائے تھے۔ بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم تعداد میں میزائل اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہو سکے تھے۔ ان میں سے بیشتر کو اردن یا عراق کی فضا میں ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ اسرائیلی ائر ڈیفنس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن کی فضائیہ نے ایرانی حملے کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔
اب اسرائیلی جوابی کارروائی اور اس پر ایرانی ردعمل کی روشنی میں یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے ایرانی حملہ محض سیاسی شعبدہ بازی تھا تاکہ تہران کی حکومت اپنے عوام کو مطمئن کر سکے اور سیاسی طور سے اسرائیل کو چیلنج کرنے کا دعویٰ کرسکے تاکہ وہ خود کو مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی اور موثر طاقت کے طور پر تسلیم کروا سکے۔ اسرائیل جواب کی بھی وہی حیثیت ہے۔ ایران نے کبھی بھی اسرائیل کو نقصان پہنچانے کا ہدف متعین نہیں کیا تھا۔ اسی لیے اس معاملہ پر امریکہ کے ساتھ سفارتی مواصلت کھلی رکھی گئی تھی۔ تہران اور تل ابیب براستہ واشنگٹن ایک دوسرے کو اپنی ’سیاسی‘ مجبوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کسی ایسے منصوبے پر ’متفق‘ تھے جس کا شور شرابا تو بہت ہو لیکن عملی طور سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
ایران نے اپنے طور پر یہ دھاک بٹھانے کی کوشش کی کہ وہ اسرائیل کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اگر اس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا تو وہ بھی براہ راست اسرائیل کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے اس سے جواب طلب کرے گا۔ ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ سید علی خامنائی نے واضح کیا تھا کہ ’اسرائیل کو سزا ملنی چاہیے اور یہ سزا مل کر رہے گی‘ ۔ البتہ پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ ایران کا وار نشانے پر بعد میں پہنچا البتہ اس کے بارے میں خود اسرائیلی ذرائع پہلے سے اعلان کرنے لگے تھے کہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل نے اس حملے کو مکمل طور سے ناکام بنا کر پوری دنیا اور خاص طور سے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کو یہ واضح پیغام دینے میں کامیابی حاصل کی کہ وہ جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ اور کسی بھی چھوٹے یا بڑے حملہ کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے دیگر حلیف ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل کو ’ناقابل تسخیر‘ بنانے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا مظاہرہ کیا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان میزائل پھینکنے کے اس ’مقابلہ‘ کو زیادہ سے زیادہ ایک فوجی مشق کہا جاسکتا ہے جس میں دو دوست ممالک کی بجائے دو ’دشمن‘ ممالک نے حصہ لیا اور ایک دوسرے کی دفاعی یا عسکری قوت کو آزمانے کی بجائے اس ’تصادم‘ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اسرائیل وزیر اعظم نیتن یاہو گزشتہ چند دنوں کے دوران اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ اسرائیل کو نقصان پہچانے والوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ اسرائیل ہمیشہ سے اپنے خلاف کسی بھی ’جارحیت‘ کا کئی گنا بدلہ لینے پر یقین رکھتا ہے۔ لیکن سینکڑوں ڈرون اور میزائل حملے کا جواب محض چند ڈرونز یا میزائلوں سے دیا گیا ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو ایران نے بھی اختیار کی تھی۔ اس نے بظاہر دمشق میں اپنے قونصل خانے میں متعدد فوجی افسروں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل سے انتقام لینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس حملہ کا اہتمام یوں کیا گیا کہ نہ تو اس کی وجہ سے تنازعہ میں اضافہ ہو اور نہ ہی کسی بڑی جنگ کا اندیشہ پیدا ہو۔ یہ ایک لحاظ سے اطمینان بخش ہے کہ ایران اور اسرائیل جنگ سے گریز کی حکمت عملی پر گامزن ہیں لیکن خطے کے علاوہ ایران اور اسرائیل کے عوام کے لیے یہ پہلو تشویش کا سبب ہونا چاہیے کہ یہ دونوں سخت گیر حکومتیں کیسے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کو اپنے ہی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ ایران پر اسرائیل کے جوابی حملے سے اب تہران اور تل ابیب کی حکومتوں کے سیاسی عزائم مزید واضح ہوئے ہیں۔
ایران نے اتوار کو اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے اپنے درجن بھر فوجی افسروں کا انتقام لینے کا اعلان کیا تھا لیکن سینکڑوں ڈرون اور میزائل ضائع کرنے کے باوجود اس حملہ میں صرف ایک بچہ زخمی ہونے کی اطلاع آئی تھی۔ اگرچہ اس وقت بھی ایرانی میڈیا کے ذریعے عوام کو یہی بتایا گیا جیسے ایرانی حملے نے اسرائیلی عسکری صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ بعینہ اب اصفہان پر اسرائیلی حملے کے بعد ایرانی حکام اس کی نوعیت، سنگینی اور حقیقی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کرنے یا اسے کسی غیر ملکی طاقت کا حملہ تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ ایرانی حکام نے قیاس ظاہر کیا ہے کہ یہ ملک کے اندر سے ہی اڑائے گئے تین چھوٹے ڈرون تھے جنہیں فوری طور سے گرا لیا گیا تھا۔ 14 اپریل کو اسرائیل پر ناکام حملہ کے فوری بعد تہران نے واضح اعلان کیا تھا کہ ہم نے اپنا حساب برابر کر لیا۔ اب ہماری اسرائیل کے ساتھ کوئی ’لڑائی‘ نہیں۔ البتہ اگر اس کے جواب میں کوئی کارروائی کی گئی تو اس کا پوری شدت سے جواب دیا جائے گا۔ اب اسرائیلی حملے کے بعد اس کے وقوع پذیر ہونے سے ہی انکار کیا جا رہا ہے اور ایرانی حکام نے واضح کیا ہے کہ ایران جوابی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس طرح تنازعہ ختم کرنے کا اشارہ دے دیا گیا ہے۔
عام طور سے کوئی بھی ملک اگر کسی دشمن کو نشانہ بناتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ تاکہ ایک تو دشمن پر دھاک بیٹھ جائے اور دوسرے اپنے عوام کے جوش و خروش میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اسرائیل نے پانچ روز تک انتقام لینے کا شور مچانے کے بعد بالآخر جب ایران سے ’بدلہ‘ لینے کا اقدام کیا تو کسی بھی سرکاری سطح پر اس کا اعلان کرنے سے گریز کیا گیا۔ حتی کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اس حوالے سے تصدیق کرنے سے انکار کیا۔ رپورٹروں کے بار بار استفسار پر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ امریکہ کسی جارحیت کا حصہ نہیں ہے اور جی سیون کے فیصلے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کروانے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ کی یہ خاموشی اور جوابی حملے کو قومی اعزاز ماننے سے گریز بلاوجہ نہیں ہو سکتا ۔
البتہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی اس ’نورا کشتی‘ کے حوالے سے چند پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے اہم یہ ہے کہ تہران اور تل ابیب دونوں جگہ شدت پسند عناصر حکمران ہیں جن کے قول و فعل پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اس وقت تک مشرق وسطی میں کسی بڑی جنگ کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جب تک فریقین کے درمیان سلسلہ جنبانی شروع نہ ہو اور اسرائیل علاقے کا مانیٹر بننے کی حکمت عملی ترک نہ کرے۔ اس کے علاوہ جب تک غزہ اور فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ نہیں ہوتا اور اسرائیل دو ریاستی حل کو مان کر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی نمائندوں سے باقاعدہ سنجیدہ بات چیت کا آغاز نہیں کرتا، اس وقت تک ہر سفارتی کوشش یا ضمانت ناکام رہے گی۔ اور ایک معمولی چنگاری کسی بھی وقت بڑے تصادم کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
امریکہ ایک طرف مسلسل فلسطینی ریاست کے قیام کو ہی مسئلہ کا واحد حل قرار دیتا ہے اور واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیل کو یہ حقیقت تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن دوسری طرف آج ہی سلامتی کونسل میں امریکہ نے ایک بار پھر فلسطین کو اقوام عالم کا باقاعدہ رکن تسلیم کرنے کی قرارداد ویٹو کردی۔ حالانکہ اسے باقی سب ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ اسرائیل کے حوالے سے یہی امریکی تضاد درحقیقت مشرق وسطی کو ایک خطرناک خطہ بنا رہا ہے جہاں رونما ہونے والا معمولی واقعہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کو خواہ کتنا ہی ناکام یا ملی بھگت کا نتیجہ قرار دیا جائے لیکن اسرائیل کے لوگوں کو یہ پیغام بہرصورت پہنچا ہے کہ اسرائیل ’ناقابل تسخیر‘ نہیں ہے بلکہ کسی بڑے یا حقیقی تصادم کی صورت میں تمام تر عسکری صلاحیت اور بڑی طاقتوں کی مدد کے باوجود اسرائیلی شہریوں کو اپنے خون سے اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے سے یہ حقیقت دستاویزی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ایرانی حملے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اب اسرائیلی عوام کو اپنے لیڈروں پر زور دینا ہے کہ انہیں اسی وقت امن نصیب ہو گا جب فلسطینی شہریوں کو انصاف فراہم کیا جائے گا اور ان کے انسانی حقوق تسلیم کیے جائیں گے۔
دوسری طرف اسرائیل نے ایران پر جو محدود ڈرون اور میزائل حملہ کیا ہے، اس کے لئے اصفہان کو چنا گیا تھا۔ یہ حملے اصفہان کے ہوائی اڈے اور ایک فوجی مرکز کے قریب ہوئے تھے۔ اصفہان ہی میں ایران کی جوہری تنصیبات ہیں جن کے بارے میں اسرائیل ہمیشہ شکوک شبہات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ اب اس شہر میں اہداف کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ کسی ’حقیقی تنازعہ‘ کی صورت میں وہ ایران کے جوہری پروگرام کو براہ راست نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایرانی حکومت اس حملہ کی اہمیت کو خواہ کتنا ہی غیر اہم بتانے کی کوشش کرے لیکن تہران تک اسرائیلی عزائم اور صلاحیت کے بارے میں واضح اشارہ پہنچا دیا گیا ہے۔
اسرائیل اور ایران میں شدت پسند اور عوام دشمن حکومتیں اپنی سیاسی بقا کے لیے کوئی بھی احمقانہ اور خطرناک اقدام کر سکتی ہیں۔ فلسطینی عوام کے ساتھ ایرانی عوام کے حقوق بحال کیے بغیر ان دونوں ملکوں سے ذمہ دارانہ رویہ کی امید کرنا عبث ہو گا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).