دائرے کا مرکز
سکول میں کیمیا (کیمسٹری) کے ماسٹر ڈوگر صاحب دبنگ آدمی تھے۔ قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کیمیائی جدول (کیمیکل پریاڈک ٹیبل) انہیں ایسے ازبر تھا کہ عناصر کا پورا پورا کالم ایک ہی سانس میں پڑھ جاتے تھے۔ ایک دن سوال کیا کہ اس جدول کو کیسے یاد کیا جا سکتا ہے؟ کہنے لگے کہ چارٹ پہ سارا جدول بناؤ، اسے اپنے گھر میں ہر اس جگہ لگاؤ جہاں تمہاری نظر پڑتی ہے۔ تب ہی یہ یاد ہو گا ورنہ نہیں۔ نہ اس نصیحت پہ عمل ہو سکا اور نہ ہی یہ جدول یاد ہو سکا ماسوائے کلورین والے کالم کے۔ لیکن ریاضی کے ماسٹر کچھ ایسے مشاق تھے کہ انہوں نے الجبرا ریاضی سے نکال کر ہماری عام زندگی میں بھی داخل کر دیا تھا۔ مثلاً بات کرتے ہوئے اگر متعلقہ شخص کا نام ذہن میں نہ آتا تو یہی کہہ دیتے کہ کوئی بات نہیں، اس کا نام ہم ایکس فرض کر لیتے ہیں۔
مسئلہ فیثا غورث تک پہنچانے سے پہلے الجبرا اور جیومیٹری کی بنیادی مشقوں سے دوستی ناگزیر تھی۔ تا کہ بنیادی باتیں اور رموز سمجھ آ جائیں۔ انہی میں سے ایک کام پرکار (کمپاس) کا استعمال تھا۔ مختلف زاویوں کی بناوٹ سے قبل پرکار کی مدد سے گول دائرہ بنانے کی مشق کروائی جاتی رہی۔ لکڑی کی بڑی سی پرکار اور چاک کی مدد سے تختہ سیاہ (بلیک بورڈ) پہ جس مہارت سے استاد گول دائرہ بناتے اور قوس (آرک) لگاتے، یوں لگتا کہ یہ تو نہایت آسان سا کام ہے۔ جب اپنی ننھی منی پرکاروں اور پنسل کی مدد سے کاپی پہ دائرہ بنانا پڑا تو پتا چلا کہ پرکار تو پرکار، بچہ جمورا بھی گھومے گا۔
آغاز میں تو پنسل کی نوک اور پرکار کی نوک کا تال میل بنانا سیکھا۔ یہ مرحلہ پار ہوا تو اصل شامت اعمال شروع ہوئی۔ کسی طور نصف دائرہ تو بن جاتا تھا لیکن جونہی دوسرے نصف تک پہنچتے، تو پرکار ہل جاتی۔ پرکار کو اپنی جگہ قائم رکھنے کی غرض سے جو دباؤ بڑھاتے تو صفحے کے سینے میں چھید ہو جاتے۔ لیکن ماسٹروں نے بھی کسر نہیں چھوڑی کہ جیسے تیسے سکھا کے ہی دم لیں گے۔
کامیابی کا معیار یہی ٹھہرا کہ ایک ہی بار میں پورا دائرہ مکمل کرنا ہے۔ مشق کے دوران یہ نکتہ بتایا گیا کہ دائرے کے مرکز پہ توجہ مرکوز (فوکس) رکھنی ہے۔ پرکار کی نوک دائرے کے اس مرکزی نقطے (سینٹر) سے نہ اٹھنے پائے، تو ہی دائرہ مکمل ہو پائے گا۔ یعنی نکتہ یہ تھا کہ پرکار کی نوک کا نقطہ نہ چھوٹے۔
ریاضی کے دائروں سے نکلے تو کیمیا کے دائروں سے واسطہ پڑا کہ وہاں بھی الیکڑان اپنے دائرے (مدار) میں رہتے ہوئے اپنے مرکز (نیوکلیئس) کے گرد مسلسل چکر لگاتے ہیں۔ مرکز کے گرد بہت سے دائرے (مدار) ہو سکتے ہیں اور الیکڑان اپنی تعداد کے حساب سے اپنے اپنے دائرے میں اپنی مخصوص حرکت میں گھومتے رہتے ہیں۔ عام حالات میں الیکٹرانز اپنے دائرے کو چھوڑ کر دوسرے دائرے میں نہیں جاتے۔ کہ اس کے لئے انہیں توانائی (انرجی) کی ضرورت رہتی ہے۔ اپنے دائرے سے نکلنے کے لئے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ عمومی طور پہ بیرونی ذرائع ہی سے ممکن ہے۔ اندرونی محرک نہ بھی ہو تو بیرونی خلفشار دائرہ (مدار) توڑ سکتا ہے۔
علم فلکیات سے دلچسپی والے بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ایک نظام شمسی کی ترتیب و ترکیب کیسی ہے اور یہاں سب سیارے کس کس دائرے (مدار) میں اپنے مرکز (سورج) کے گرد کیسے گھومتے ہیں۔ اس نظام شمسی کے علاوہ دوسرے کون کون سے سورج ہیں۔ یہ سب مل کے کیسے کہکشاں (گلیکسی) بناتے ہیں اور کتنی کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں اور کتنی ابھی بھی انسانی تلاش کی دسترس میں نہیں آ سکیں۔
اسی بنیاد پہ سوچ کا دائرہ اور وسیع کرتے جائیں تو اس کل کائنات کی تمام تر بنیادی اکائیوں (نکتوں) کا خالق و مالک ہی اس کا مرکز (بنیادی نقطہ) بنتا ہے۔ اس کے بتائے ہوئے دائرے (ضابطہ حیات) میں رہنا ہی کامیابی ہے۔ جیسے جیومیٹری میں دائرہ بنانا سیکھنا پڑتا ہے، اسی طریق پہ یہ دائرہ (ضابطہ حیات) بھی اپنانا سیکھنا پڑے گا۔ اپنے مرکز (اللہ کریم) سے جڑے رہنا ہی دائرے (دین) کو مکمل کرے گا۔ حتی الوسع یہی کوشش ہو کہ بیرونی خلفشار، دخل اندازی اور انماد (شیطانی حربے ) ہمیں اپنے مرکز (اللہ کریم) سے دور نہ کر دیں
- کل کا دن کیسا رہے گا - 02/10/2024
- تانا بانا - 02/09/2024
- زندگی کا رنگ - 29/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).