علامہ اقبال کی شاعری میں تصورِ وطنیت کے بدلتے زاویے


قلزم تاریخ میں ایسے بیش بہا درنایاب اور گوہر ہاۓ آبدار پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں جنہوں نے اپنی تفکر و دانشوری سے نہ صرف اپنے عہد کو منور و روشن کیا بلکہ رہتی دنیا تک اپنی فکری تابندگی اور اجتہادی درخشانی سے اندھیروں کا خاتمہ کیا۔
ایسے ہی تابدار موتیوں میں ایک ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں جن کے افکار کی تابناکیوں سے مشرق ومغرب کی اندھیر نگریاں چمک چمک اٹھی ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے فلسفہ و مذہب کے نادر گوشوں کو بے نقاب کیا۔
اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا جاۓ تو ان کی شاعری محدودیت سے لامحدودیت کی طرف سفر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شاعری کا آغاز بلاشبہ حب الوطنی اور وطن پرستی سے ہوتا ہے۔ مغرب نے محدود وطنیت کا بلند بانگ نعرہ لگایا تو اقبال نے بھی ہندوستانی وطن پرستی کی نواۓ دلربا سے دلوں کو گرمایا اور مغربی وطنیت کے ردعمل کے طور پر ہندوستان کی سر زمین اور اس کے باسیوں کی محبت میں خوب جھوم جھوم کر زمزمے گاۓ۔
اپنی نظم “ہمالہ” میں نہایت جذباتیت کے ساتھ اس خطے کی ہر چیز سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں:
“اے ہمالہ!اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں”
“اک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
 تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے”
اس دور میں اقبال کی شاعری میں وطن محض ایک مخصوص خطہ ہے جس سے وہ محبت کرتے ہیں اور اس کے باسیوں کو اپنا مانتے ہوۓ انہیں کے گن گاتے ہیں:
“سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی،یہ گلستاں ہمارا”
اقبال وطن کی محبت میں اس قدر مست و سرشار نظر آتے ہیں کہ مذہبی حدود و قیود سے بھی برسرِ پیکار ہو جاتے ہیں:
“مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا”
حب الوطنی کے جذبات کی شیرینی میں وہ شیخ و ملا کو بھی مخل نہیں ہونے دیتے:
“اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے”
“نیا شوالا” کے آخری شعر میں مذہبی تفریق اور ذات پات کی اونچ نیچ کو ختم کرکے اپنے دیس کے باسیوں کو محبت اور پریت سے جینے کا سبق دیتے ہیں:
“شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے “
اقبال کی والہانہ محبت کا جھکاؤ فقط ہندوستانی باشندوں کی طرف ہےاور محدود وطنیت کے تصور کے تحت وہ ہندوستانی قوم کی باہمی محبت اور یگانگت میں ان کی سلامتی کے خواہاں ہیں۔ ایک پر جوش واعظ کی طرح وہ اپنے لوگوں کو باہمی نفرت اور تفرقہ بازی کے انجامِ بد سے خبردار کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں:
“نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”
“وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں”
دراصل یہ “قطرہ نیساں” ابھی تک ذرا سی آبجو میں کھیل رہا تھا مگر جب گوہر آبدار بننے کے لیے بحر بے کراں کی موجوں سے ہم کنار ہوا تو تصوارت میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اقبال جو مقامیت کو نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے اسی میں انہیں قوموں کی بربادی کے آثار نظر آنے لگے۔
 اقبال اب تک ایک مخصوص قوم کے افراد سے مخاطب تھے مگر اب ان کی شاعری میں وسعت،آفاقیت اور عالمگیریت نظر آتی ہے اب ان کا تخاطب انسان سے ہے۔ اب اقبال کے نزدیک وطن کچھ اور شے ہے:
“گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے”
یہاں اقبال کے نظریات میں واضح تبدیلی نظر آ تی ہے۔ اب ان کے نزدیک ساری زمین ان کا وطن ہے کیونکہ زمیں اللّٰہ کی ہے جسے مختلف خطوں میں تقسیم کرنا اصل تباہی ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں:
” ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدای ماست”
“سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا” کا دلفریب نعرہ پس پشت ڈال کر اب وہ نیا راگ الاپتے ہیں جو حقیقی معنوں میں امن اور شانتی کا ضامن ہے:
“چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم،وطن ہے سارا جہاں ہمارا”
اقبال کے تصورِ وطنیت میں اب نمایاں ترین پہلو یہ نظر آتا ہے کہ اب وہ مابعد الطبیعیاتی چیز کو وطن کہتے ہیں۔ اب وہ اسلام کو ایک وطن اور دیس تصور کرتے جس میں تمام انسان برابر ہیں اور ایک خدا کے حضور جھکتے ہیں:
” بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے، تو مصطفوی ہے”
اسلام کے علاوہ اب وہ کسی دوسری شے کو وطن تصور کرنے کو شرک سمجھتے ہیں:
“ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے،وہ مذہب کا کفن ہے”
ان کے نزدیک تمیز ملت و آئیں کے بت کو پاش پاش کر کے ہی انسان امن اور سلامتی سے اس دھرتی پر رہ سکتے ہیں کیونکہ وطن ہو یا سیاست جب دین اور خدا سے الگ ہو جاتے ہیں تو چنگیزی ہی رہ جاتی ہے۔
آج بھی تمام عالم انسانی کو محدود وطنیت کے شیش محل سے نکلنے کی ضرورت ہے تاکہ فخر سے ہر کوئی کہہ سکے:
” گر فردوس برروۓ زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است”

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments