دوسرے کا عیب ہی آپ کو سچ بولنے پے مجبور کیوں کرتا ہے؟


جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، اور سچ کا دل نہیں ہوتا۔ سچ کا بول بالا اور جھوٹ کا منہ کالا، اسی محاورے کے مصداق سچ بولنے کو ایک طاقت سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ سچ بولنا اکثر اوقات آپ کو مشکلات میں بھی ڈال دیتا ہے، تو پھر یہ تاویل دی جاتی ہے کہ سچ کڑوا ہے نا، ہضم نہیں ہوتا۔

جو سچ آپ بول رہے ہوتے ہیں، وہ کڑوا اس لیے ہوتا ہے، کیونکہ وہ کسی کا عیب ہوتا ہے۔
عیوب کی دو اقسام ہوتی ہیں۔

کچھ عیوب ایسے ہوتے ہے جنہیں لوگ دور تو کر سکتے ہیں لیکن کچھ مراعات اور چھوٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنائے رکھتے ہیں، یا تو انہیں عادتاً نہیں چھوڑتے۔

مثلاً کسی غیر قانونی کام میں شامل ہونا؛ بجلی چوری، ٹیکس چوری، رشوت خوری، جعل سازی، ملازمت سے غیر حاضری، سرقہ، چربہ سازی، وغیرہ وغیرہ

یا کوئی غیر اخلاقی رویہ رکھنا، جیسے ؛ اقربا پروری، بد زبانی، بے حیائی، سود خوری، نا انصافی۔ یا کچھ بری عادات، جیسے بخل، فضول خرچی، سستی و کاہلی، وغیرہ وغیرہ

جب سچ کسی کے عیب کے بارے میں بولا جاتا ہے، تو نیت عموماً اصلاح کی ہی ہوتی ہے، یا کم از کم دعوہ یہ ہی ہوتا ہے، لیکن اکثر سچ اصلاح کے لیے نہیں بلکہ اپنی محرومیوں کی تسکین کے لیے ہی بولا جاتا ہے۔

مثلاً کوئی صاحب اے سی اس لیے نہیں لگواتا کیونکہ اس کے علاقے میں بجلی چوری پر ذرا سختی ہے۔ اب اپنے دل کی بھڑاس وہ اس شخص کو بجلی چور بول کر ہی نکال سکتا ہے جو اے سی کے مزے اس لیے لیتا ہے، کیونکہ اس کے علاقے کے واپڈا ملازمین کافی کوآپریٹو ہیں۔

کسی کا رشوت دے کے نوکری لینا ہمیں اس لیے قابل مذمت لگتا ہے، کیونکہ ہم نے خود تو زندگی تعلیمی جگاڑ میں گزار دی، اب نا اہلیت ہے نا پیسہ کہ ہم نوکری حاصل کر پاتے۔

بنک کی ملازمت پانے میں ناکامی یا بنکر کی عیش بھری زندگی پر حسد ہمیں بنکر کو سود خور کا طعنہ دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔

یعنی، انگور کھٹے ہیں۔

عیب کی دوسری قسم یہ ہے کہ وہ عیب دور کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ بلکہ اکثر اوقات وہ اس کی زندگی کا ناسور ہوتا ہے، جس کے بارے میں سن سن کے وہ اکتا چکا ہوتا ہے۔

مثلاً کوئی معذوری، بدصورتی، نا مناسب قد و قامت، ماضی میں کسی کا بے راہ روی کا شکار ہونا، مجرم ہونا، یا کسی بڑی غلطی کا سزاوار ہونا، قریبی رشتے دار کی کوئی موجودہ یا ماضی کی برائی، خاندانی پیشہ، وغیرہ وغیرہ۔

جب ہم سچ بول کے کسی کے ایسے عیب کو اچھالتے ہیں جو عیب دور کرنا دوسرے کے بس میں نہیں ہوتا، تو ایسا سچ صرف سامنے والے کو نیچا دکھانے کے لیے ہی بولا جاتا ہے۔ جب آپ کو لگے کہ کوئی آگے بڑھ رہا ہے یا اس کو زندگی سے کئی نعمتیں ملی ہوئی ہیں، پھر تو اس کو وہ سچائی یاد دلائے بنا چارہ ہی نہیں۔

جیسے ماضی میں کوئی غریب تھا (اپنی اوقات بھول گیا) ۔
یا راہ سے بھٹکا تھا (نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی)
کوئی کسی جسمانی عیب کے باوجود اعلٰی مقام پا چکا ہے (گنجی کبوتری محلوں میں ڈیرا) ۔

اشفاق احمد زاویہ میں کہتے ہیں کہ سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں وہ سچ نہیں ہوتا۔ بابا جی کے مطابق سچ بولا نہیں جاتا، سچ پہنا جاتا ہے، سچ اوڑھا جاتا ہے، یہ اوڑھنے کی چیز ہے، بولنے کی نہیں۔

ذرا یاد کیجئے،
جب آپ نے اثر و رسوخ سے کام کروایا تھا، تو کیا اس وقت آپ کے اس عیب پے آپ شرمندہ ہوئے تھے؟

کیا جب آپ کے کسی عزیز نے کسی کی حق تلفی کی تھی، یا اپنے کام میں بد دیانتی کی تھی، تو آپ کو اتنا ہی غصہ آیا تھا جتنا آج آپ کو کسی اور پے آ رہا ہے؟

کبھی اپنا ادبی سرقہ غیر اخلاقی لگا؟

اگر نہیں، تو یہ آپ کا سچ نہیں یہ آپ کا جھلستا ہوا دل کہلواتا ہے۔ تو جب کسی کا عیب آپ کو سچ بولنے لے لیے اکسائے تو خود سے پوچھیں کہ کہیں یہ جلن تو نہیں، اگر ہے تو، مٹی ڈالیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments