حاصل پور میں احمدی شہری طاہر اقبال کا قتل: ایچ آر سی پی کی رپورٹ
4 مارچ 2024 کو ضلع بہاولپور کی تحصیل حاصل پور میں دو نامعلوم حملہ آوروں نے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ طاہر اقبال کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کے اس دعوے کی بنیاد پر پریس میں واقعے کو عزت کے نام پر قتل قرار دیا گیا کہ مقتول زمیندار نے ایک عورت کے ساتھ مراسم قائم کر رکھے تھے جس پر عورت کے رشتہ داران سے نالاں تھے۔ پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بننے والی مظلوم احمدی برادری کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آرسی پی ) نے اس دعوے کی صداقت جاننے کے لیے تحقیقات کرنا ضروری سمجھا۔ ملتان میں ایچ آرسی پی کے ریجنل دفتر نے 11 مارچ 2024 کو حاصل پور میں ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کا اہتمام کیا۔ مشن نذیر احمد، خواجہ اسد اللہ (ایچ آرسی پی رکن) ، فیصل محمود ( سٹاف ممبر) ، اور لبنیٰ ندیم (ایچ آرسی پی کونسل ممبر) پر مشتمل تھا۔
مشن کا مقصد قتل کے ممکنہ محرکات معلوم کرنا اور اصل حقائق کا تعین تھا۔
4 مارچ 2024 کو صبح کے لگ بھگ ساڑھے چھ بجے ضلع بہاولپور تحصیل حاصل پور کے چک نمبر 84 کے رہائشی طاہر اقبال کو صبح کی چہل قدمی کے دوران دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ تنویر شاہد نے ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر ان کی لاش دیکھی جو اس وقت اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جا رہے تھے۔ مقتول کے کزن فاروق خان کو صبح سات بجے کے قریب واقعے کی رپورٹ ملی۔ جائے وقوعے پر پہنچنے پر انہوں نے اقبال کی لاش دیکھی جن کی گردن پر گولیوں کے نشان نظر آ رہے تھے۔ ایک اور مقامی شخص محسن ( جنہیں بعد میں بطور گواہ طلب کیا گیا تھا) بھی واقعے کی اطلاع سن کر جائے وقوعے پر پہنچے اور مقامی حکام کو مطلع کیا۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال حاصل پور منتقل کیا گیا۔
اس دوران پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے جن میں زمین پر خون کے نشانات، گولیوں کے خول اور نزدیکی دکانوں سے سی سی ٹی وی کی تصاویر تھیں جن سے معلوم ہوا کہ حملہ آور کس طرف فرار ہوئے تھے۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں فاروق خان کی مدعیت میں نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمہ) مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعات 34 / 302 کے تحت ایف آئی آر نمبر 23 / 143) درج ہوا۔
بعد ازاں، ڈی پی او بہاولپور سید محمد عباس نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، اور تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج کی بنیاد پر 13 مارچ 2024 کو دو مقامی نوجوانوں عدیل عظیم اور زین ارشاد کو گرفتار کیا گیا۔
مدعی مقدمہ فاروق خان نے ٹیم کو بتایا کہ چک نمبر 84 میں لگ بھگ 200 گھرانے آباد ہیں جن میں سے 10 گھرا نے احمدی برادری کے ہیں جو سات مربع اراضی پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہ اراضی ان کے اجداد کو الاٹ ہوئی تھی۔ کئی برسوں سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پر امن رہنے کے باوجود، حالیہ واقعات سے برادری میں خوف اور غیر یقینی کا احساس پیدا ہوا ہے۔
احمدیوں کی مقامی جائے عبادت پر درس و تدریس سے وابستہ اشرف رحمان نے احمدی برادری کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے قرب جوار کے علاقوں میں احمدی جائے عبادات پر حملوں کی کئی مثالوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے مشن کو بتایا کہ خاص طور پر مولوی رزاق نامی مذہبی رہنما کی حال ہی میں نفرت انگیز تقریر نے گاؤں میں احمدی مخالف جذبات کو پروان چڑھایا ہے اور دونوں بر ادر یوں میں تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی ہے۔ رحمان نے بتایا کہ بہاولپور پولیس کو مولوی کی اشتعال انگیز تقریر اور لوگوں کو احمدی مخالف تشدد پر اکسانے کی شکایت کی گئی مگر مولوی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ مشن کو یہ جان کر بھی افسوس ہوا کہ تحقیقات پر ہونے والی پیش رفت کے متعلق پوچھنے پر، اطلاعات کے مطابق، اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) نے احمدی برادری کو کہا کہ اقبال کے قتل کو مذہب سے نہ جوڑیں کیونکہ اس سے تحقیقات متاثر ہوں گی۔
بہاولپور میں جماعت احمد یہ کے صدر رضا سہیل نے مشن کو بتایا کہ ڈی پی او نے انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ تحقیقاتی ٹیم قتل کے مذہبی محرکات کی چھان بین کرے گی۔ مگر افسوس کا اظہار کیا کہ مولوی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
احمدی برادری کے مذہبی رہنما وقار حیدر نے دعوی کیا کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پچھلے تین مہینوں میں بہاولپور میں اجلاس منعقد کر رہی تھی جن میں مقررین احمدی برادری کے خلاف اشتعال کا پرچار کرتے ہیں اور لوگوں کو کہتے تھے کہ احمدیوں پر حملے فرض ہیں۔ ان اجتماعات پر پولیس کی موجودگی کے باوجود نفرت انگیز بیان بازی کے خلاف کچھ نہ کیا گیا۔ حیدر کا کہنا تھا کہ احمدی اس معاندانہ ماحول میں اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو گئے ہیں اور سورج غروب ہونے کے بعد باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے اجداد کی زمینوں سے تعلق کی وجہ سے وہ علاقہ چھوڑنے سے گریزاں ہیں۔ حیدر کا کہنا تھا کہ طاہر اقبال کے قتل کی وجہ واضح طور پر مولوی رزاق کی اشتعال انگیز تقریر تھی۔
اہل سنت سے منسلک جمال احمد، جن کے مقتول کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے، نے ایچ آرسی پی کو بتایا کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ مقامی لوگوں کے رویے میں تبدیلی کا مشاہدہ انہوں نے بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دھڑے بندیوں اور کشیدگی سے پہلے، جن کا بنیادی سبب مولوی رزاق کے خطبے ہیں، مقامی لوگ اتنے پیار محبت سے رہ رہے تھے کہ مقامی قبرستان کا نصف حصہ احمدی برادری کو الاٹ کر دیا گیا جبکہ نصف باقی لوگوں کو، جس سے معاشرے میں اتحاد کی فضا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
طاہر اقبال کے قتل کے بعد ، مقامی نمبردار اعجاز سلمان نے لوگوں کو ان واقعات کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی اور تسلیم کیا کہ احمدی برادری اور دیگر مقامی لوگ کئی عشروں سے پر امن طریقے سے رہ رہے تھے۔
قانون نافذ کرنے والے حکام سے ملاقات
جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کے بعد ، ایچ آرسی پی کی ٹیم ایس ایچ او اور تحقیقاتی افسر سے ملاقات کرنے کے لیے صدر پولیس اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئی۔ تاہم دونوں دیگر امور نمٹانے میں مصروفیت کے باعث انٹرویو کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ بعد ازاں، ٹیم نے ڈی پی او بہاولپور سے ملاقات کی کوشش کی۔ مگر ٹیم کو بتایا گیا کہ وہ دستیاب نہیں۔ ڈی پی او کے پی آر او محمد عمر نے ایچ آر سی پی کو بتایا کہ ڈی پی او نے ایس پی تحقیقات سے رپورٹ مانگی ہے جو اگلے دن مشن کو فراہم کر دی جائے گی۔
14 مارچ کو مشن نے بالآخر ڈی پی او بہاولپور سے بات چیت کی جن کا کہنا تھا کہ دو نوجوانوں عدیل عظیم اور زین ارشاد کو قتل کے الزامات پر گرفتار کیا گیا ہے اور انہوں نے مبینہ طور پر طاہر اقبال کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں، بقول مولوی رزاق کے فتوی کے کسی احمدی کا قتل جنت جانے کا شارٹ کٹ ہے۔
مشن کو یہ جان کر افسوس ہوا کہ ایس ایچ او نے مقتول کے ورثا کو مشورہ دیا کہ وہ ان کے قتل کو عقیدے کی بنیاد پر تشدد کا واقعہ قرار نہ دیں۔ حالات کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ پولیس کو بالکل شروع میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خاص طور اس صورت میں جب ان کے گرفتار کیے گئے دو افراد نے اعتراف کر لیا ہے کہ انہوں نے یہ قتل عقیدے کی بنیاد پر کیا تھا۔
مشن کے مشاہدے میں آیا کہ مولوی رزاق کی نفرت انگیز تقاریر نے مقامی لوگوں کے دلوں میں احمدی برادری کے خلاف نفرت میں اضافہ کیا ہو گا۔ مولوی رزاق کے خلاف کارروائی کرنے میں حکام کی ناکامی بھی پریشانی کا سبب ہے۔ حالانکہ پولیس ان اجتماعات میں موجود تھی اور احمدی برادری نے یہ معاملہ پولیس کے نوٹس میں بھی لایا تھا۔
ان نتائج کی بنیاد پر مشن نے درج ذیل سفارشات پیش کی ہیں۔
1۔ طاہر اقبال کے قتل کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات کی جائیں اور استغاثہ کو فرانزک شواہد فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے تاکہ ملزمان کے خلاف ٹھوس کارروائی یقینی ہو سکے۔
2۔ پولیس کو قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یقینی بنانا ہو گا کہ عقیدے کی بنیاد پر تشدد کرنے والے لوگ قانون کی گرفت سے بچ نہ پائیں۔
3۔ حکام احمدی برادری کے خلاف تشدد اور نفرت پھیلانے والے لوگوں کے خلاف فوری طور پر فیصلہ کن کارروائی کریں۔ وہ مستقبل میں ایسے اجتماعات پر نظر رکھیں اور جہاں ضروری ہو فوری کارروائی کریں۔
4۔ امتیازی سلوک یا تشدد کا نشانہ بننے والے احمدیوں کی سماجی، قانونی اور اخلاقی مدد کے لیے حکام کوئی ٹھوس طریقہ کار وضع کریں۔
(رازداری کو یقینی بنانے کے لئے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ بشکریہ جہد حق)
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).