یہ لوگ کون ہیں، کہاں رہتے ہیں؟ (مکمل کالم)
ہم روزانہ گھر سے باہر نکلتے ہیں، بازاروں میں جاتے ہیں، دفتروں میں حاضری لگاتے ہیں، بچوں کو اسکول چھوڑتے ہیں، کوئی بیماری ہو تو اسپتال میں داخل ہوتے ہیں، تفریح کا ارادہ ہو تو ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں۔ یہ تمام کام کرتے وقت ہمیں ارد گرد اپنے جیسے لوگ نظر آتے ہیں، جو بازاروں، دفتروں، اسکولوں، اسپتالوں اور ریستورانوں میں ہمیں ملتے ہیں، انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سب کی ایک ہی دنیا ہے، ایک ہی قسم کے مسائل ہیں اور ایک ہی قسم کی خوشیاں ہیں۔ نوکری، کاروبار، شادی، اولاد، بیماری۔ ہم سب لوگ بظاہر انہی پانچ باتوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں اور یہ مشاہدہ کافی حد تک درست بھی ہے۔ مگر جیسا کہ ٹالسٹائی نے کہا تھا کہ ”تمام سکھی گھرانے ایک سے ہوتے ہیں جبکہ ہر دکھی گھرانا اپنے ہی انداز میں دکھی ہوتا ہے“ تو یہ بات ہم دکھیاروں پر بھی صادق آتی ہے۔ سچ پوچھیں تو جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس میں ہر قسم کی دنیاؤں کے لوگ آباد ہیں اور یہ دنیائیں اس قدر مختلف ہیں کہ کبھی کبھار لگتا ہے جیسے ہم اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہیں، بولے تو، ہر شخص کی علیحدہ دنیا ہے جس کا ہمیں ادراک ہی نہیں۔ آج ان مختلف دنیاؤں کے کچھ لوگوں سے آپ کی ملاقات کرواتے ہیں۔
ان سے ملیے۔ گزشتہ تیس برس سے میں ان صاحب کو دیکھ رہا ہوں، یہ آٹھ بھائی تھے جن میں سے سوائے ایک آدھ کے کوئی بھی زندگی میں سیٹ نہیں ہو سکا، اب اس شخص کے اپنے دو بیٹے ہیں جو کالج جاتے ہیں، ان کی فیس کیسے ادا ہوتی ہے یہ میں نہیں جانتا کیونکہ جس گھر میں یہ رہتے ہیں اس کا کرایہ سترہ ہزار روپے ہے اور ان صاحب کی کوئی لگی بندھی آمدن نہیں۔ ایک آدھ مرتبہ انہوں نے اخوت سے قرض لے کر چھوٹا سا ’کاروبار‘ کرنے کی بھی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب اس عورت سے ملیے، بیس سال پہلے اس کے پاس سرکاری ملازمت تھی، اب ریٹائر ہو چکی ہے، ایک بیٹی ہے جو کالج جاتی ہے، وہی اس کی کل کائنات ہے، کسی بھی نجی کالج کی طرح اس کی فیس بھی لاکھوں میں ہے، اپنا پیٹ کاٹ کر، زکوٰة کے پیسوں سے یہ عورت جیسے تیسے کر کے اپنی بچی کو پڑھا رہی ہے تاکہ وہ زندگی میں کچھ بن جائے اور اس کی طرح محتاج نہ ہو۔ یہ لڑکا اس دکان میں کام کرتا ہے جہاں سے میں بال کٹواتا ہوں، اس کی عمر بیس اکیس سال ہے، ظاہر ہے کہ غریب ہے مگر گزشتہ ماہ اس نے ستر ہزار کا موبائل فون قسطوں پر خریدا، میں نے پوچھا اتنا مہنگا موبائل لینے کی کیا ضرورت تھی تو جواب میں فقط دانت نکال کر ہنستے ہوئے بولا کہ بس یونہی لے لیا۔ میں وہاں سے بال کٹوا کر نکلا تو باہر ایک چھوٹے سے بچے نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا کہ میری ماما کہہ رہی ہیں کچھ مدد کر دیں، میں نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک عورت دکان کے باہر تھڑے پر بیٹھی تھی، اس سے پوچھا تو بولی کہ مکان کا کرایہ دینا ہے، بجلی کا بل ادا کرنا ہے اور بچوں کو کھانا کھلانا ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ اس دکان کے مالک نے اس کا پانچ سو روپے مہینہ لگایا ہوا ہے۔ میرے پاس اس کی باتوں کی تصدیق کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، بہرحال میں نے حسب توفیق اس کی مدد کی اور چلا آیا۔ اب اس عورت ملیے جو ایک بیوٹی پارلر میں کام کرتی ہے، اس نے پہلی شادی کی، چھ بچے پیدا کیے، شوہر کو چھوڑ دیا کیونکہ اسے سچا پیار نہیں ملا تھا، دوسری شادی کی، ایک لڑکا اور لڑکی پیدا کیے، بڑا لڑکا بیس سال کاہے اور اب اس کی شادی کرنی ہے جس کے لیے پیسے چاہئیں۔ اور اب آخری ملاقات اس شخص سے کیجیے جو اپنے گھرکا سربراہ ہے، اس نے دھوم دھام سے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کی تھی مگر سود پر قرض لے کر، قرض بڑھتا گیا جوں جوں سود کی ادائیگی کی، اب اس قرض کو بمع سود اتارنے کے لیے مزید قرض چاہیے۔ یہ سب کہانیاں بظاہر ایک جیسی ہیں، مجبوری، بے بسی، غربت، بد نصیبی اور نا سمجھی، ان کہانیوں کے مشترک اجزا ہیں، لیکن ہر کہانی کی دنیا مختلف ہے۔ آسودہ حال لوگ ان دنیاؤں سے نا واقف ہیں، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ آدھی رات کو جو نوجوان انہیں پیزا پہنچاتا ہے وہ کہاں سے آتا ہے، کدھر سوتا ہے اور کیا کھاتا ہے۔ جو لڑکی پینٹ شرٹ پہن کر انٹر سٹی بس میں مسافروں کی میزبانی کرتی ہے، اس کی دنیا کیسی ہے، وہ کہاں سے اٹھ کر یہاں تک پہنچی ہے اور اس نے آگے کدھر کو جانا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ غربت ہمارے لیے کوئی نئی چیز ہے، معاشرہ پہلے بھی غریب تھا مگر گزشتہ چند برس میں یہ غربت نئی انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سماجی سطح پر اس کا کیا اثر ہو گا، یقین سے تو کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی مگر چند باتیں ضرور کہی جا سکتی ہیں۔
پہلی، ان کالجوں اور یونیورسٹیوں میں، جہاں ماضی میں صرف اشرافیہ کے بچے پڑھا کرتے تھے، اب غریبوں کے بچے پڑھتے ہیں اور یہ بالکل نئی بات ہے۔ جن دو لوگوں کی میں نے اوپر مثال دی، ان کی آمدن اتنی ہے کہ مشکل سے دو وقت کا کھانا پورا ہوتا ہے مگر وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ کالجوں میں پڑھا رہے ہیں اور یہ مثبت رجحان ہے۔ وہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا یہ کالج مفید شہری پیدا کر رہے ہیں یا نہیں مگراس کے مقابلے میں ان پڑھ رہنا بہرحال کوئی آپشن نہیں۔ اس معاشی بد حالی کا دوسرا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ لوگوں کی توجہ مذہب سے ہٹ کر اپنی ترقی کی جانب مرکوز ہو گئی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو (مجھ سمیت ) یہ بات ہضم کرنی مشکل ہو مگر حقیقت یہی ہے۔ مذہب، انسانی زندگی میں تین مراحل میں کردار ادا کرتا ہے۔ جب انسان مجبور ہوتا ہے تو وہ مذہب میں سہارا تلاش کرتا ہے، اگر کسی بھی ذریعے سے اس کی داد رسی ہو جائے، اس کی حالت بہتر ہو جائے، شنوائی ہو جائے، تو مذہب پر اس کا اعتقاد پختہ ہوجاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ وہ ہے جب انسان کو مذہب کی حاجت نہیں رہتی، اس کے مسائل کا حل انسانوں کے بنائے ہوئے سسٹم کرتے ہیں اور یوں انہیں لگتا ہے کہ جن مسائل کے لیے وہ خدا سے مدد مانگتے تھے وہ مسائل ضلع کا مئیر یا علاقے کا کونسلر حل کر سکتا ہے، اسی لیے ترقی یافتہ مغربی معاشروں میں، جہاں سسٹم کام کرتا ہے، مذہبی رجحان کم ہے۔ تیسرا مرحلہ وہ ہے جس سے اس وقت ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے، لوگوں کے مسائل نہ سسٹم نے حل کیے اور نہ ہی مذہبی وابستگی سے ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی (حالانکہ مذہب کا یہ وعدہ ہی نہیں ) ۔ عوام کو مذہب سے بیزار کرنے کے ذمہ دار وہ مبلغ ہیں جنہوں نے دین کو اپنے ذاتی مقاصد اور سستی شہرت کے لیے استعمال کیا، نتیجتاً عوام صرف ان سے ہی نہیں، مذہب سے بھی دور ہو گئے۔ اب حال یہ ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے خود ہی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ کوششیں بارآور ثابت ہوں گی یا نہیں، وہ علیحدہ بحث ہے۔ آخری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں کو احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ان کے مسائل کی اصل جڑ سیاسی ہے، مذہبی نہیں۔ اس ادراک کی جو بھی وجہ ہو، درست یا غلط، یہ ادراک ہونا کوئی معمولی بات نہیں، جلد یا بدیر معاشرے میں اس رجحان کے اثرات بھی ظاہر ہوں گے۔
ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، ممکن ہے یہ تبدیلی اس سمت میں نہ ہو جس کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے مگر یہ طے ہے کہ تبدیلی کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ لمحہ فکریہ البتہ یہ ہے کہ ہمیں اس تبدیلی کا اندازہ نہیں ہو پا رہا اور یہی ہماری بدحالی کی بنیادی وجہ ہے۔
- کیا فلسفہ پڑھنے کا فائدہ ہے؟ (مکمل کالم) - 11/12/2024
- مایوسی پھیلانے والے ہم لوگ – مکمل کالم - 08/12/2024
- برزخ کے داروغہ سے ایک مکالمہ - 04/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).