الیٹ گروہوں کا گٹھ جوڑ اور امکانات


Loading

پاکستان اس وقت الیٹ گروہوں کے آہنی شکنجے کی گرفت (Elite capture) میں ہے۔ آج کا پاکستان اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں معاشی اور سیاسی اداروں کے غیر فعال ہونے کی ایک ’ٹیکسٹ بک‘ مثال ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مالی بدعنوانی کا عنصر نیا ہے۔ سیاست بھی روزِاول سے ہمارے ہاں سیاسی خانوادوں کے گھروں کی ہی لونڈی رہی ہے۔ پنجاب میں یہی وہ جاگیردار یونینسٹ تھے، ہندؤں کے کاروباری غلبے اور نہرو کی زرعی اصلاحات کے امکانی خدشات سے گھبرا کر آخری لمحوں کے اندر جو مسلم لیگ کی گاڑی میں سوار ہو گئے تھے۔

صرف پنجاب ہی نہیں، قائدِ اعظم نے تاسف کے ساتھ ایک دوسرے مسلم اکثریتی صوبے کے گورنر سے کہا، ’پوری اسمبلی پانچ لاکھ میں خریدی جا سکتی ہے‘ ۔ انگریز گورنر نے جواب دیا، ’نہیں، یہ کام اس سے بہت کم داموں میں ہو سکتا ہے‘ ۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قائدِ اعظم کے خطاب کا حوالہ اکثر دیا جاتا ہے۔ مگر صرف مذہبی آزادیوں کے حوالے سے دیا جاتا ہے۔ ابتدائی چند جملوں کے بعد نوزائیدہ مملکت کو درپیش جن خطرات کی نشاندہی قائد نے فرمائی، سرِ فہرست اُن میں مالی بدعنوانی اور اقرباء پروری کی لعنتیں تھیں۔ پہلے ہی برس قائدِ اعظم نے پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کو نا اہلی اور کرپشن کی بناء پر ہٹانے کا حکم دیا تو اسی قبیل کے دوسرے سیاستدان آڑے آنے لگے۔ قائد کی وفات کے بعد انہی جاگیردار سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کو سولین اور فوجی بیوروکریسی کی شکل میں اتحادی مل گئے۔

سب خرابیوں کے باوجود ابتدائی تیس برسوں کے حکمران فوجی ہوں یا سویلین، ان سے جڑی لاکھ خرابیوں کے باوجود مالی بدعنوانیوں کے معاملات پلاٹ پرمٹ کی الاٹمنٹ یا پٹ سن کی اسمگلنگ تک محدود رہے۔ چنانچہ اُس دور کے فوجی آمروں سمیت بھٹو جیسے جمہوری حکمرانوں کی بیرونِ ملک جائیدادوں کا سراغ اب بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ اسّی کی دہائی میں مالی بدعنوانی کو نئی جہت اس وقت ملی جب اقتدار اور کاروبار کے خاندانی اشتراک کو سرکاری افسروں اور دیگر طاقتوروں کی سرپرستی دستیاب ہو گئی۔

بی بی کو بھی شوہر نامدار نے سمجھایا کہ سیاست کے اسلوب بدل گئے ہیں۔ سال 1992 ء میں قانون پاس ہوا کہ پاکستانی جس قدر چاہیں سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر سکتے ہیں۔ دو چار برس پہلے ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے ایک مضمون میں پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی غیر معمولی معاشی نمو کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بنگلہ دیش میں کرپشن ہم سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ وہاں حکمران طبقے کی جانب سے کرپشن کے ذریعے کمائے گئے مال کو بیرونِ ملک منتقل کیے جانے کی روش نا ہونے کے برابر ہے۔

کچھ یہی طرزِ عمل بھارتی سیاستدانوں کا بھی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دبئی لیکس جیسے سکینڈلز میں جہاں بہت سے بھارتیوں اور بنگلہ دیشیوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں، وہیں بیرونِ ملک اثاثوں کے باب میں وہاں کے حکمرانوں کا کبھی کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں کے حکمران اور ان کے چشم و چراغ ایسے ہونہار ہیں کہ بیرون ملک جائیدادوں کی کوئی فہرست ان کے ناموں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

دبئی لیکس پر ایک غلغلہ اُٹھا تھا۔ چند روز گزرے، اخباروں کی سرخیوں اور ٹی وی کی سکرینوں پر اب دوسرے اہم معاملات غالب ہیں۔ بالکل جیسے گندم سکینڈل چند ہی روز کے شور شرابے کے بعد پسِ پشت چلا گیا ہے۔ گندم سکینڈل کہ بتایا گیا کہ جہاں ایک ارب ڈالرز (لگ بھگ تین سو ارب روپے ) کی ہیرا پھیری ہوئی ہے۔ اب مگر کسے یاد ہے کہ پنجاب کے ہزاروں کسان سال بھر کی محنت خاک میں مل جانے پر سراپا احتجاج ہیں۔ ہر روز کسی نئے گیٹ اَپ میں دکھائی دینے والی پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مگر کہتی ہیں، ’ملک میں گندم کا کوئی بحران نہیں!

بظاہر، مل ملا کر سارا معاملہ ایک سرکاری افسر کے سر تھوپ دیا گیا ہے۔ دارالحکومت کے ایک فائیو سٹار ہوٹل کے جم میں ورزش سے فارغ ہو کر سابق نگران وزیرِاعظم کو موجودہ حکومتی بندوبست کے ایک رکن نے گندم سکینڈل پر ٹہوکا دیا تو کاکڑ صاحب پلٹ کر کڑکے، ’فارم 47 کا سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دوں گا۔‘ ہم نہیں جانتے اس گفتگو میں کس حد تک صداقت ہے کہ عباسی صاحب تو اب تک اس مکالمے کی اصابت سے مُکر چکے ہیں۔ کاکڑ صاحب الیٹ گروہوں کے اندر نئی نئی ’اینٹری‘ ہیں، اُمید ہے کچھ ہی عرصے میں وہ بھی جذبات پر قابو پانا سیکھ جائیں گے۔

بھولنے کو تو لوگ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ صرف ایک شعبہ کہ جس نے پاکستانی معیشت کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، وہ ’اقتدار اور کاروبار‘ کے گٹھ جوڑ کی زندہ مثال کی شکل میں بجلی پیدا کرنے والے نوے پرائیویٹ کارخانوں کا نیٹ ورک ہے۔ مبینہ طور پر یہ بجلی گھر پاکستان کی کل ضرورت کا 125 فیصد پیدا کرنے کی صلاحیت سے لگائے گئے تھے۔ اوسطاً دیتے صرف 48 فیصد ہیں مگر قیمت 125 فیصد کی ہی وصول کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق محض پچھلے پانچ سال کے اندر 6000 ارب روپوں کی ادائیگی کے باوجود پاکستان اِن آئی پی پیز کا 2900 ارب روپے کا مقروض ہے۔ ایک صائب الرائے دوست کا خیال ہے کہ صرف ایک بار ان کارخانوں کے مالکان کے ناموں اور اُن ناموں کے سیاسی پس منظر اور انہی سے جڑے دیگر کاروباری اداروں کی فہرست پر نظر دوڑا لی جائے تو ہمارے ہاں الیٹ گٹھ جوڑ پر کچھ مزید کہنے سننے کی ضرورت باقی نہیں بچے گی۔

حقیقت احوال یہ ہے کہ موجودہ سسٹم الیٹ گروہوں کی دولت اور جائیدادوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافے میں مددگار ہے۔ چنانچہ سٹیٹس کو کے حامی یہ الیٹ گروہ ’پرامن بقائے باہمی‘ کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اور سیاسی ہلچل کا ماحول انہیں قطعاً پسند نہیں۔ موجودہ حکمران گٹھ جوڑ اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ اگر نچلے طبقات کی معاشی ضروریات کا کچھ ازالہ ہو جائے، مثلاً پٹرول، بجلی، گیس سمیت اشیائے تصرف کی قیمتوں میں کسی حد تک کمی آ جائے تو رومان پرست متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ غربت کے گہرے سمندر میں ڈبکیاں کھانے والے کروڑوں مفلس پاکستانیوں کو بھی قرار آ جائے گا۔

ملک پر مسلط الیٹ گروہوں کو یہ بھی امید ہے کہ ریاستی طاقت کے بہیمانہ استعمال سے جہاں فی الوقت وہ نظام کے خلاف مزاحمت پر آمادہ پاکستانیوں کو دبانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو وہیں آئندہ چند ماہ کے اندر بیرونی مدد امداد کے بل بوتے پر وہ بے چین طبقات کو معاشی طور پر بھی رام کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہی الیٹ گروہوں کے کارندے زندگی کے ہر شعبے میں موجود، اسی بیانئے کے فروغ میں شد و مد سے مصروف ہیں۔ طاقتور گروہوں کے اندازے کس حد تک درست ثابت ہوتے ہیں، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بے بس عوام کی شہ رگ پر کسے الیٹ گروہوں کے شکنجے میں کسی نرمی کا کوئی امکان ہمیں تو فی الحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments