کہ تم سوچ نہ سکو
ماں کے پیٹ سے نکلتے ساتھ ہی آپ کی چیخ و پکار آپ کی آزادی کی نشانی ہوتی ہے۔ آپ ایک آزاد ذہن کے ساتھ ایک غلام دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ اس دنیا میں آپ ایک قدرتی طاقت کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ طاقت آپ کو اللہ کی طرف سے عطاء کی ہوتی ہے۔ اور یہ طاقت سوچ کی طاقت ہے۔ اس کے برعکس آپ کو کمزور کرنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے وہ آپ کی سوچ و فکر کو مفلوج کرنے کا ہے۔
سوچ اور خیال ہی سے اس دنیا میں بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ غریب امیر کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ انقلاب رونما ہوتے ہیں۔ اسی لیے بغاوت کو انسانی سوچ کے رحم میں کچلنے کا موثر ترین ذریعہ انسان کو سوچنے نا دینا اور اس کے سوچ کو بہکانا اور بہلانا ہے۔ لہذا اسے غربت کے جال میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ اس کو نوکری کا لالچ دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ نوکری بھی اتنی مشکل بنا دی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اس انسان کا نوکری کی کوشش میں ضائع ہو جائے۔
پھر اگر نوکری کسی طرح مل بھی جائے تو طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ کام کا اتنا بوجھ ڈال دیا جائے کہ ملزم نما ملازم کے پاس وقت ہی نہ ہو کہ وہ اپنی ذات اور صلاحیتوں کو پہچان سکے اور سمجھ سکے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
جب کہیں مفکرین کا ذکر ہو تو یونان کے فلسفیوں کا نام نہ آئے ایسا ممکن ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی قبل مسیح میں یونان ایک سامراجی طاقت بن چکا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جس وقت یونان کی سرحدیں افریقہ سے لے کر ایشیاء تک پھیل چکی تھی۔ ایک دنیا کے وسائل اس کے تسلط میں تھے اور کام کاج کے لیے غلاموں کی ایک فوج میسر تھی۔ یوں قدیم یونان میں ایک ایسے طبقے کا ظہور ہوا جو روزمرہ کے کاموں سے آزاد ہو کے سوچ اور فکر کے میدان سر کرنے لگا۔ یعنی اس کے مطابق جب یونان میں لوگوں کو سوچ اور فکر کی مہلت ملی تو وہ غور و فکر اور تدبر و فلسفے کے میدان میں کامیابی کے زینے چڑھنے لگے۔
اگر آج دیکھا جائے تو سب سے زیادہ مفکرین، محققین اور فلسفی ہمیں مغربی دنیا میں ہی ملتے ہیں۔ آپ افریقہ جاکر دیکھ لیں، تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کی سیر کریں تو شاذونادر ہی کوئی بڑا مفکر ملے گا۔ مغرب سے پہلے جب دنیا پر حکمرانی مسلمانوں کی تھی تو ان کے پاس اتنا پیسا آ گیا تھا کہ وہ پیٹ اور بیوی بچوں کے مستقبل کی فکر سے آزاد ہو کر سوچنے لگ گئے۔ اور وہ یہی مسلمان تھے جن کا آج کوئی پرسان حال نہیں۔
جب ایک ملک کی فوج بنتی ہے تو اس کے سپاہیوں کو اتنا تھکا دیا جاتا ہیں کہ جیسے ہی وہ کام سے فارغ ہوں فوراً سو جائیں۔ دوسرا یہ کہ ان فوجیوں کو بس اتنا معاوضہ دیا جاتا ہے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ اسی طرح ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اگر نوکری نہیں ہوگی تو اس کے بال بچے بھوک اور افلاس سے سڑکوں پر مر جائیں گے۔ تو لہذا اس طریقے سے ان سے سوچ کی طاقت چھین لی جاتی ہے۔ کیونکہ اگر ان کو سوچنے دیا جائے تو وہ اپنے آپ کو پہچان لیں اور یہ جان لیں کہ جس کام کے لیے ان کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ ان کے لیے نہیں بنا۔
پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو ایک ایسی نوکری جس میں آپ کی اور آپ کے بیوی بچوں کی زندگی ٹھیک طریقے سے گزر جائے اس کے لیے کم از کم سولہ جماعت تک تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ تعلیم بھی ایسی کہ جس کا نصاب سرمایہ دار طبقے کے مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا ہے۔ یعنی کہ اگر آپ سوچتے بھی ہیں تو کم ازکم زاویہ وہ ہو جو سرمایہ دار چاہتے ہیں۔ اور جب آپ اسی زاویہ سے سوچتے ہیں تو اس سے یہ یقینی بنایا جا چکا ہوتا ہے کہ آپ کی سوچ سے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
پھر جب آپ سولہ سالہ تعلیم مکمل کر لیتے ہیں تو آپ کو مختلف اشتہارات سے، مختلف مقابلے کے امتحانات سے اس طرف لپکنے کا کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف آپ کی سماجی زندگی میں ایسی مالی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ پھر آپ کو ان نوکریوں کی خاطر محنت کرنا آخری حل نظر آتا ہے۔ یوں آپ پھر سے سرمایہ دار طبقے کا بنایا ہوا سلیبس اٹھاتے ہیں۔ موٹی موٹی کتابیں پڑھنا اور من و عن یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ کے مزید تین چار سال ضائع کر دیے جاتے ہیں۔
حالانکہ سولہ سالہ تعلیم کے بعد یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ اگر آپ انفرادی طور پر سوچنے اور کام کرنے لگ جائیں تو آپ دنیا کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ لیکن اس وقت آپ کو ”اچھے مستقبل“ کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ بننا ہوتا ہے۔ آپ CSS پاس کر کے PSP اور PAS افسر بننا چاہتے ہیں۔ آپ PSP افسر تو ظاہری طور پر بن جاتے ہیں لیکن یہ غلامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد جب آپ یہ غلامی تسلیم کر لیتے ہیں تو آپ نظام کا حصہ بن کر اس سارے عمل کو دہرا کر نئی نسل کو غلام بنانے کے دھندے میں لگ جاتے ہیں۔
سولہ سالہ تعلیم کے بعد جب آپ کے ذہن میں کوئی نیا خیال آتا ہے تو آپ اپنے اس ”روشن مستقبل“ کی خاطر اس خیال کو تقویت بخشنے کی بجائے روند ڈالتے ہیں۔ اس وقت جب آپ کوئی اپنی مرضی کی کتاب اٹھا کر پڑھنے لگتے ہیں تو سامنے پڑی کتابوں کا ڈھیر آپ کو یہ شدید احساس دلاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں جو کتاب ہے اس کو کوڑے دان میں پھینک دیجئے۔ اس کتاب پر آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ اپنے آنے والی نسل کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ آپ ان کی محتاجی کا سبب بن رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں اٹھائیں۔ ہم آپ کو بڑا افسر بنانے والی ہیں۔
جب آخر کار آپ افسر بن جاتے ہیں تو آپ کو اتنا پروٹوکول دیا جاتا ہے کہ آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید آپ اپنی زندگی کے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ آپ جو چاہتے تھے وہ بن گئے ہیں۔ اسی طرح آپ کے ہر حکم کی تعمیل کر دی جاتی ہے۔ اور پھر آپ کہتے ہیں کہ یہی تو زندگی تھی جس کے لیے میں نے اتنا سفر کیا۔ یوں آپ (لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا) میں شامل ہو جاتے ہیں۔
- کہ تم سوچ نہ سکو - 05/06/2024
- ناگزیر تشکیل نو - 15/05/2023
- ناول: فردوس بریں۔ مصنف: مولانا عبدالحلیم شرر لکھنوی۔ تبصرہ - 15/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).