صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 10 : سسٹر میری


”اور وہاں کے بِیماروں کو اچھا کرو اور ان سے کہو کہ خُدا کی بادشاہی تُمہارے نزدِیک آ پہنچی ہے۔“ لُوقا 10 :‏ 9

پادری پال سے ملاقات ہوئے بغیر ایک ماہ سے زیادہ ہو گیا تھا۔ اس دوران پڑھائی کی مصروفیت خاصی تھی کیوں کہ امتحانات نزدیک تھے۔ تُوما رسول پر اُن کی دی ہوئی کتاب بھی واپس کرنی تھی۔ اسی لیے میں نے اپنی میز پر کتابوں کے اوپر ہی رکھ دی تھی۔ دل چسپ کتاب تھی۔

میں جیسے ہی پادری پال کی گلی میں مڑا تو دیکھا کہ سامنے ہی گلی کے سرے پر صدیقی صاحب بیٹھے حسب معمول اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ان کا چہرہ اخبار کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے اخبار اپنی گود میں رکھ کر سلام کا جواب دیا اور اپنے برابر خالی کرسی کی طرف اشارہ کر کے بولے، ”آؤ میاں، بیٹھ جاؤ۔“

”کیسے مزاج ہیں، صدیقی صاحب؟“ میں نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

”بس میاں، ہماری عمر میں جیسے مزاج ہونے چاہئیں ویسے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کھا پی لیتے ہیں اور ہنس بول لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟“

”معلوم ہوتا ہے کہ آپ اخبار شروع سے آخر تک پڑھتے ہیں،“ میں نے کہا۔

”بھئی یہ تو کچھ بھی نہیں۔ ایک زمانے میں میں روزانہ تین اخبار پڑھتا تھا۔ جنگ، انجام اور اِمروز۔ پھر انجام اور اِمروز بند ہو گئے تو حرّیت شروع ہو گیا۔ اب وہ بھی بند ہو گیا ہے۔ بس لے دے کے جنگ رہ گیا ہے۔ وہ بھی روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔“

”معلوم ہوتا ہے کہ پادری پال گھر پر نہیں ہیں،“ میں نے سامنے دروازے پر تالا لگا دیکھ کر کہا۔
”اپنے چرچ میں ہی ہوں گے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مُلّا کی دوڑ بس مسجد تک ہی ہوتی ہے۔“

”دونوں میاں بیوی بڑی محنت کرتے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ آنٹی بھی زیادہ تر وقت اپنے جاب پر گزارتی ہیں۔ میری تو ان سے ابھی تک ملاقات ہی نہیں ہوئی۔“

صدیقی صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا اور سامنے گلی کے سرے پر نظریں جمائے خاموش بیٹھے رہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ خاموش کیوں ہو گئے تھے اور سوچ رہا تھا کہ ان سے کیا بات کروں۔

”مجھے آنٹی سے ملنے کا بڑا اشتیاق ہے۔ پادری پال جس پیار سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں اس سے وہ کوئی فرشتہ صفت خاتون لگتی ہیں،“ میں نے خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔

انہوں نے اخبار تہہ کر کے میز پر رکھا اور گہری سانس لے کر بولے، ”میاں، تمہیں جن آنٹی کو دیکھنے کی خواہش ہے ان کا انتقال ہوئے دس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں۔“

”نہیں صدیقی صاحب، پادری پال تو ہمیشہ اُن کا تذکرہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں اپنے کام سے عشق ہے،“ میں نے کہا۔

”دراصل سسٹر میری اُن کے لیے زندہ ہیں اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کبھی نہیں مرنے دیں گے۔“

”اگر اُن کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اکیلے رہتے ہیں۔ پھر اُن کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟“

”تم دیکھ رہے ہو کہ اس گلی میں کُل آٹھ گھر ہیں جن میں سے سامنے والا اُن کا گھر ہے،“ اُنہوں نے انگلی کے اشارے سے سارے گھر گنتے ہوئے کہا، ”باقی سات گھروں نے متفقہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ریورنڈ کو اپنی بیوی کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے چناں چہ انہیں کھانا بھی پہنچتا ہے اور کپڑے بھی دُھل جاتے ہیں۔ ہم نے اُن سے کہہ دیا ہے کہ سسٹر میری نیک کام میں مصروف ہیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں لہٰذا ہم ان کا ہاتھ بٹائیں گے۔“

”اُس روز آپ نے سسٹر میری کے حلوے کی تعریف کی تھی جس پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ سُن کر خوش ہوں گی۔“

”دراصل یہ بھی ایک کھیل ہے جو ہم سب پڑوسی پچھلے دس سال سے اُن کے ساتھ کھیل رہے ہیں،“ صدیقی صاحب نے مسکرا کر کہا، ”ہم انہیں احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔“

”تو وہ حلوے والا واقعہ فرضی تھا؟“

”نہیں فرضی نہیں تھا۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ کبھی کبھار ان کے پاس ضرورت سے زیادہ کھانا پہنچ جاتا ہے تو وہ گلی میں ہی کسی پڑوسی کو یہ کہہ کر دے دیتے ہیں کہ اُن کی بیوی نے بڑے شوق سے پکایا ہے اس لیے وہ پڑوس میں بانٹ رہے ہیں۔ اکثر انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کون سی چیز کس گھر سے آئی تھی۔ اُس دن وہ حلوہ ہمارے گھر سے ہی گیا تھا اور ہمارے یہاں ہی واپس آ گیا۔“

”مگر کھانے پینے کے علاوہ اور بھی تو اخراجات ہوتے ہیں، وہ کہاں سے پورے کرتے ہیں؟“

”سسٹر میری کی پنشن کا کچھ حصہ اب بھی ملتا ہے، پھر انڈے بیچ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ غالباً چرچ سے بھی کچھ ملتا ہو گا۔“

”نہیں، ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ چرچ سے انہیں کچھ نہیں ملتا بلکہ الٹا وہ چرچ کے اخراجات میں مدد کرتے ہیں۔“

”ایسے لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں۔“

میں پادری پال کی تنہائی اور محرومی کے متعلق سوچنے لگا۔ اُن کی بیوی بھی انہیں اولاد سے محروم چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ جس خدا کی خدمت کے لیے انہوں نے زندگی وقف کر دی تھی اُس سے بھی کوئی گلہ نہیں کرتے تھے۔ عموماً جب بُرا وقت آتا ہے تو یہ سوچ کر امید بندھتی ہے کہ حالات تبدیل ہوں گے اور ایک بار پھر اچھا وقت آئے گا، مگر پادری پال کو حالات تبدیل ہونے کا انتظار نہیں تھا کیوں کہ وہ امید اور نا امیدی کی حدود سے باہر آچکے تھے۔

”سسٹر میری کے متعلق کچھ بتائیں، صدیقی صاحب،“ میں نے پوچھا۔

”بڑی نیک خاتون تھیں،“ انہوں نے چشمہ اتار کر رومال کے گلاب کے پھول والے کونے سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا، ”محلے میں اگر کوئی بیمار پڑ جاتا تو رات کے تین بجے بھی ان کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا تھا۔ وہ فوراً اس کے ساتھ ہو لیتیں۔ اُن کے پڑوسی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ سول اسپتال پہنچ کر دو آنے کی پرچی بنوانے کے بعد اگر اُن کا نام لے دیا جاتا تو فوراً ڈاکٹر تک رسائی ہوجاتی تھی۔“

”اُن کا انتقال کیسے ہوا؟“

”یہ بھی لمبی کہانی ہے۔ کچھ نہیں معلوم کہ اُن کا انتقال کب اور کیسے ہوا۔ ریورنڈ نے تو صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ بیمار ہیں اور بستر سے نہیں اٹھ سکتیں، چناں چہ ہم نے دونوں وقت کھانا پہنچانا شروع کر دیا۔ جب بھی ہم ان کی عیادت کے لیے جانے کی بات کرتے تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ وہ بول نہیں سکتیں۔ باہر جاتے تو دروازے میں تالا ڈال جاتے۔ سب پڑوسی بے حد پریشان تھے۔ آخر جب پوری گلی میں بدبو اٹھنا شروع ہوئی تو ہم دیوار پر چڑھ کر اندر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ کمرے میں سسٹر میری کی لاش سڑ رہی ہے۔ چارپائی کے نیچے پڑوسیوں کے پہنچائے ہوئے کھانوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور اس پر مکھیاں بِھنک رہی تھیں۔“

صدیقی صاحب کی آواز رندھ گئی۔ ان کی آواز سرگوشی سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی اور بار بار رومال سے آنسو پونچھ رہے تھے۔ میں خاموشی سے ان کی کہانی سنتا رہا۔ خود مجھے بھی تھوک نگلنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔

”ہم نے تالا توڑ کر دروازہ کھولا اور ان کی کمیونٹی کے دو ایک لوگوں کو اطلاع دی جنہیں ہم جانتے تھے۔ وہ بے چارے سنتے ہی دوڑے آئے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پولیس سے رجوع کیا جائے یا اسپتال کو اطلاع کی جائے۔ آخر ایک آدمی کو اسپتال دوڑایا اور وہاں سے ایمبولنس آ گئی۔ گلی میں لوگوں کا جمگھٹ لگ گیا تھا۔ اتنے میں ریورنڈ پال آ پہنچے اور جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ ان کے گھر میں جمع ہیں تو وہ غصے سے پاگل ہونے لگے۔

میں پچھلے پچیس سال سے ان کا پڑوسی ہوں مگر میں نے کبھی انہیں غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ بضد تھے کہ ان کی بیوی سو رہی ہیں اور خواہ مخواہ انہیں پریشان کیا جا رہا ہے۔ جب ایمبولنس والے لاش کو اسٹریچر پر ڈال کر دروازے سے نکلے تو ریورنڈ اس سے چمٹ کر چیخنے لگے کہ دیکھو یہ تمہیں تنگ کر رہے ہیں۔ انہیں ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنی بیوی کی لاش سے چمٹے ہوئے دیہاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور اُن کے ساتھ پورا محلہ رو رہا تھا۔ خدا خدا کر کے انہیں ہٹایا گیا اور ایمبولنس میں بٹھا کر اسپتال لے جایا گیا،“ صدیقی صاحب نے ایک گہرا سانس لیا اور خاموش ہو گئے۔

”سسٹر میری کی تدفین کہاں ہوئی؟“ میں نے پوچھا۔
”سی ایم ایچ کے سامنے پہاڑیوں کے نیچے مسیحیوں کا ایک پرانا قبرستان ہے۔ انہیں وہیں دفن کیا گیا۔“
”پادری پال کو صبر آتے آتے تو کافی وقت لگا ہو گا۔“

”وہ دو مہینے اسپتال میں رہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اُن کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ جب وہ اسپتال سے واپس آئے تو بالکل نارمل تھے مگر اپنی بیوی کی موت اُن کے حافظے سے نکل چکی تھی۔ اب اُن کی زندگی اُسی طرح گزر رہی ہے جیسے پہلے گزرتی تھی۔ اُن کی بیوی اب بھی زندہ ہیں، اب بھی سول اسپتال میں ہیڈ نرس ہیں اور دن رات مریضوں کی خدمت میں لگی رہتی ہیں۔ دوسری طرف خود انہوں نے اپنی زندگی چرچ کے لیے وقف کردی ہے۔ ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ انہیں نہ دنیا سے کوئی شکایت ہے اور نہ خدا سے،“ صدیقی صاحب نے ایک گہرا سانس لیا۔

”مجھے نہیں معلوم تھا کہ پادری پال اتنے دکھی ہیں کیوں کہ کبھی اظہار نہیں ہونے دیتے۔“

”میرا خیال نہیں کہ وہ دکھی ہیں۔ انہوں نے اپنے دکھ کا خود ہی مداوا کر لیا ہے بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اُن کے لیے خدا کا انعام ہے کہ اپنی بیوی کی موت اُن کے ذہن سے نکل گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ غم کسی واقعے کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ سارا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ ہمارے ذہن پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔“

”بے شک، آپ نے صحیح فرمایا۔ دکھ جھیلنے کی قوت ہر ایک میں یکساں نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ بڑی سے بڑی مصیبت بھی جھیل لیتے ہیں اور کچھ لوگ چھوٹی سی پریشانی سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں۔“

”تم صحیح کہتے ہو۔“

”اچھا صدیقی صاحب، مجھے اجازت دیں،“ میں نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا، ”دراصل میں پادری پال کو یہ کتاب واپس کرنے کے لیے آیا تھا۔“

انہوں نے کتاب میرے ہاتھ سے لی اور بولے، ”اچھا، یہ کتاب انہوں نے تم سے بھی پڑھوا لی۔ میں بھی پڑھ چکا ہوں۔“

”اچھی، دل چسپ کتاب ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے ایک شاگرد کو ہندوستان بھیجا تھا،“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور صدیقی صاحب کو خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).