بھارتی انتخابات کا ایک ”آزادانہ“ جائزہ
ہمارے پڑوس میں بھارت نام کا ایک ملک موجود ہے۔ 1965 کی لڑائی ہونے تک دونوں ممالک جڑواں بچوں کی طرح رہا کرتے تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے لیکن اب ایسا ویسا کچھ نہیں رہا۔ بھارت نے گزشتہ سال 2023 میں پڑوسی ملک چین سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک کا اعزاز چھینا تھا اور اسی اعزاز کے ساتھ پہلے عام انتخابات 2024 منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کو 1951۔ 52 میں پہلے بھارتی انتخابات کے بعد سے سب سے طویل دورانئے کے انتخابات قرار دیا گیا ہے جس میں تقریباً 96 کروڑ بھارتی شہریوں نے اپنے سیکولر آئین کی بدولت بلا امتیاز مذہب و ذات پات ایک ہی ووٹر لسٹ کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
ان بھارتی ووٹرز کی تعداد پاکستان کی کل آبادی سے بھی تین گنا سے بھی زائد ہے لیکن اس کے باوجود برق رفتاری کا یہ عالم تھا کہ 19 اپریل کو انتخابات کا جو سلسلہ شروع ہوا تو یکم جون تک بغیر کسی رکاوٹ اور شور شرابے کے مکمل ہوا اور 9 جون کو منتخب پردھان منتری نے حلف بھی اٹھا لیا۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق یہ انتخابی پراسس 44 دنوں کے اندر مکمل ہوا۔ ہمارے ہاں ایسا سب کچھ نہیں ہوتا رہا نہ کبھی ممکن ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات کو کبھی گیارہ سال اور کبھی سات سال تک اور کبھی مہینوں تک روندا گیا۔
بھارتی انتخابات یکم جون کو انتخابات مکمل ہوئے تو تین دن کے بعد 4 جون کو انتخابات کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی بھارتی وزیر اعظم نے اپنا استعفی بھارتی صدر کو دیدیا اور بھارتی آئین کے مطابق قائم مقام وزیر اعظم بن گئے۔ یہ قائم مقامی محض چار دن تک رہی۔ 6 جون کو بھارتی الیکشن کمشنر راجیو کمار نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بھارتی صدر سے ملاقات کی اور انہیں بھارتی انتخابی کمیشن کے نوٹیفیکشن کی کاپی دی جس میں اٹھارہویں بھارتی لوک سبھا کے منتخب اراکین کی فہرست موجود تھی۔
9 جون کی شام بھارتی انتخابات کا پراسس اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچا جب نو منتخب وزیر اعظم نے باقاعدہ حلف اٹھایا۔ اس جمہوری کامیاب پراسس کی بنیاد بھارتی سیکولر آئین اور الیکشن کمیشن ہے جس پر عوام، حکومت اور اپوزیشن تینوں کا یکساں اعتماد ہے۔ جس دن یہ اعتماد ختم ہوا اسی دن یہ سیکولر جمہوریت زوال پذیر ہونا شروع ہو جائے گی۔ انتخابی نتائج کو حکومت اور اپوزیشن نے فراخدلی سے قبول کیا اور جمہوری نظام کو باہمی تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ایک ہی حکومت مسلسل تیسری بار جمہوری انداز پر برسراقتدار آئی ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس کو دنیا دیکھتی ہے اور سراہتی ہے اور اسی بنیاد پر بھارت کی معاشی برتری بھی انحصار کرتی ہے۔ اس پورے انتخابی سسٹم کا سب سے مثبت پہلو نتائج کی تیاری اور اعلان ہے جس کے لئے جدید ترین سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارتی انتخابات کے بعد یورپین یونین کے انتخابات کو دوسرا بڑا جمہوری پراسس تسلیم کیا جاتا ہے۔ جرمنی اور یورپین ممالک کے عام انتخابات بھی 6 اور 9 جون کے درمیان منعقد ہوئے اور اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں مکمل نتائج دنیا کے سامنے تھے۔
ماضی کی طرح یہ بھارتی انتخابات بھی متنازع نہ ہوئے تاہم اس بار کے نتائج نے تمام سیاسی پنڈتوں کو چونکا دیا ہے اور ایگزٹ پولز کے نتائج پر منوں مٹی پڑ گئی گویا الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں۔ 2014 سے مسلسل برسراقتدار حکومت کا ”اب کی بار 400 پار“ کا خواب چکنا چور ہوا۔ پردھان منتری کی اپنے آئینے میں بھگوان کی شکل دیکھنے کی تعبیر الٹ نکلی اور ایودھیا کے ہی ہندو ووٹرز اکثریت نے بی جے پی کے امیدوار کو شکست دے کر واضح کر دیا کہ اکیسویں صدی میں مذہب کارڈ کھیلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
گزشتہ انتخابات 2019 میں 353 سیٹیں رکھنے والا حکمران اتحاد اس بار بمشکل 293 سیٹیں حاصل کر سکا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے گزشتہ انتخابات کے برعکس ان انتخابات میں تین گنا زائد نشستیں حاصل کر کے خود کو ہی پریشان کر ڈالا جبکہ تجزیہ نگاروں کو حیرانی سے دوچار کر دیا۔ ملکی و عالمی تجزیہ نگاروں کو بھی ان کی نمایاں کامیابی پر کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں تھا لیکن اتنی بڑی تبدیلی کی امید ہرگز نہ تھی۔ یہ کایا کیسے اور کیوں پلٹی گئی؟
اس بارے متفرق آراء سامنے موجود ہیں لیکن قوی امکان یہی ہے کہ خود مودی کے وہ معنی خیز بیانات ان کی سیٹوں کی تعداد میں کمی کا سبب بنے ہیں جس میں انہوں بھارتی سیکولر آئین میں تبدیلیوں کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن بھارتی ووٹرز نے ان کی یہ خواہش ناکام کردی۔ ان نتائج سے بھارتی ووٹرز کے سیاسی بالغ نظری اور باشعور ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے سیکولر آئین کی حفاظت کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پر آگے بڑھتے ہوئے ایک جماعت کے سیاسی سفر کو روک کر منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔
حد سے زیادہ خود اعتمادی اور خوش فہمی ان کی ناکامی کا باعث بنی۔ ان کو نہیں بھولنا چاہیے تھا کہ کسی بھی جمہوری ملک، جو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر بھی ہو کے سربراہ کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے شہریوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہ ہونے دے اور سب کو مساوی شہری حقوق کی لڑی میں پروئے رکھے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ لڑی ٹوٹ جائے تو پھر قوم کے بکھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور زوال اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔
کشمیر کی حیثیت بدلنے میں کامیابی کے بعد وہ خود کو روایتی سیاست دان سے کچھ الگ تھلگ سمجھنے لگے تھے اور بھاری اکثریت کی امید رکھتے تھے جو پوری نہ ہوئی۔ بھارتی سیاست کا طویل تجربہ رکھنے والے نریندر مودی کو ان نتائج سے سبق سیکھنا ہو گا جس کا بظاہر کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اس کی ایک جھلک اس نومنتخب 71 رکنی کابینہ میں دکھائی دی گئی ہے جس میں کسی مسلمان وزیر نے حلف نہیں اٹھایا۔
- بھارتی انتخابات کا ایک ”آزادانہ“ جائزہ - 14/06/2024
- خود نوشت، ”ریاض نامہ“ پر ایک نظر - 24/05/2024
- آزادی صحافت کا عالمی دن - 06/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).