1944 میں جیونی کی ایک جھلک
جیونی کی اہمیت جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں بہت تھا۔ یہاں پر امریکن اور برٹش فورسز رہے۔ یہ بستی دفاعی لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔ آج سے 80 سال پہلے جیونی میں ائر پورٹ موجود تھا۔ جہاں ہوائی جہاز اڑتے اور اترتے تھے۔ اس زمانے میں پورے مکران میں ائر پورٹ اور جہاز کا تصور نہیں تھا۔ مکران پنجگور سے لے کر ایران کے بہت سارے سرحدی علاقوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ اس زمانے میں جیونی کو پورے علاقے پر فوقیت تھی۔ گوادر آج سے 80 سال پہلے جیونی کے مقابلے میں پسماندہ علاقہ تھا۔ جیونی میں لوگ دور دراز سے روزگار کے لئے آتے تھے۔ پورے مکران میں جیونی کا چرچا تھا۔ اس زمانے میں جیونی میں بہت سارے لوگ انگریزی میں نابلد تھے۔ آج بھی انگریزوں کے زمانے ائر پورٹ، اور اس میں انگریز کی بنائی ہوئی عمارتیں، جہاز اترنے کے رن وے، آپ پاشی کے لئے تالاب، موجود ہیں۔ بجلی جو اس زمانے میں مکران کے لئے ایک عجوبہ تھا، جیونی میں موجود تھا۔ جیونی میرین بیس اس وقت جنگ عظیم دوئم کے اتحادی افواج کا ایک اہم مرکز تھا۔ آج بھی جیونی ہور میں انگریز کے بنائے ہوئے عمارتیں بطور یادگار موجود ہیں۔ جیونی دفاعی نوعیت کا ایک اہم علاقہ تھا۔ جیونی اپنی جغرافیائی حوالے آج بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ اس کی ترقی کوئی پرسان حال نہیں۔ جیونی کے مقامی لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ ایک ایسا علاقہ جس کی دفاعی اور تجارتی اہمیت پورے علاقے سے زیادہ ہے۔ حکومتی اداروں کے بے حسی سے کربلا کا منظر پیش کرہاً ہے۔ جیونی جو اب شہری صورت اختیار کرہاً ہے، پانی کے لئے ترس رہا ہے۔ ایک انگریز ڈائری کے کچھ حصے تحریر ہیں۔ جو آج سے تقریباً لگ بھگ 80 سال پہلے کی یادداشتیں ہیں۔
اکتوبر کے مہینے میں مجھے ساحلی علاقوں کا دورہ کرنا تھا۔ میں اپنے اہل خانے کو لے جانے کا بھی قصد کرچکا تھا۔ آخری مقام جیونی جو پنجگور سے جنوب مغرب میں تین سو میل مسافت پر واقع ہے۔ جیونی میں رائل ائرفورس، امریکن ائر ڈروم، اس کے ساتھ برٹش اوورسیز ائرویز پروگرام ہی تھا۔ جیونی میں رائل ائر فورس اور یو ایس ائر فورس کے حکام سے دوستانہ مراسم رہے۔ وہاں کچھ مقامی کیس نمٹائے۔ جیونی میں ایک روز ایک ہوائی جہاز کے اترتے وقت ایک انجن جہاز سے الگ ہو کر مجھ سے کئی گز دور جا گرا۔ پائلٹ نے ایک انجن کے ساتھ جہاز کو اتارا خوش قسمتی سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔
جیونی میں ہمارا قیام بی او اے سی کمپنی کے ریسٹ ہاؤس میں رہا۔ یہ پولٹیکل بنگلے کے نسبت پرتعیش تھا۔ پولیٹیکل ریسٹ ہاؤس دو کمروں پر مشتمل سادہ ریسٹ ہاؤس تھا۔ جہاں میں اکثر قیام کرتا تھا۔ بچوں نے پہلی دفعہ کھلے سمندر کو دیکھا تھا۔ جیونی میں مجھے ہمیشہ امریکن اور مقامی لوگوں کو نپٹانے میں دقت ہوتی تھی۔ ہم نے تین روز جیونی میں قیام کیا۔ جیونی میں پولٹیکل ریسٹ ہاؤس ساحل کے ساتھ تھا، بچے ساحل پر کھیلتے تھے۔ اپنے فارغ اوقات میں بچوں کو کشتی سمندر لے جاتا تھا۔ بچے سفر سے لطف اندوز ہوئے۔ فروری 1945 میں پسنی، جیونی اور فارس کے سرحدی علاقوں کا تفصیلی دورہ کیا۔ جین اور بچے بھی ساتھ تھے۔ پہلی دفعہ اہل خانہ کو اونٹ پر سوار کیا۔
یہ تحریر ایک انگریز کے ایک نواسے نے اپنے دادا کے ایک ڈائری کے ایک پیچ کا نقل کیا ہوا ہے۔ اس تحریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے تقریباً پچھتر سال پہلے جیونی اپنے اردگرد کے علاقوں کے مقابلے میں ایک ترقی یافتہ علاقہ تھا۔ اپنی قدرتی حسن، خوبصورت پہاڑ، دلکش ساحل، اچھے پکنک پوائنٹ، جیونی کو آج بھی ایک ممتاز مقام دیتے ہیں۔ جیونی میں سن سیٹ کا جو منظر ہے، اس کی دلکشی کو ایک مصور، یا ایک گہری سوچ کے متحمل شخص بہتر اندازہ لگا سکتا ہے۔
- گوادر سے ایرانی بندرگاہ چابہار بہت آگے ہے - 21/07/2024
- یزد سے بندر چابہار - 17/07/2024
- تہران سے واپسی کا سفر - 24/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).