مظہر کلیم کی عمران سیریز کی فضیلت کا بیان


ابن صفی نے عمران کا کردار تخلیق کیا۔ آپ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کے دور میں واپس جائیے۔ ذرائع ابلاغ موجود نہیں تھے۔ دوسرے ممالک کے حال کا لوگوں کو علم نہیں تھا اسی لئے اس زمانے میں سفرناموں کے نام پر خوب افسانے لکھے گئے۔ حالات حاضرہ سے واقفیت عام نہیں تھی۔ ایسے میں عمران کے ناولوں میں برجستہ مزاح بھی ملتا تھا، دیس دیس کی سیر بھی اور سائنس فکشن بھی آ جاتا تھا۔ زمانے کے رواج کے مطابق ہیرو پر مرنے والی بہت سی لڑکیاں بھی۔

ابن صفی نہ رہے۔ بہت سے مصنفین نے عمران پر طبع آزمائی کی۔ سب سے زیادہ مظہر کلیم چلے۔ مظہر کلیم بچوں کے بہترین رائٹر تھے۔ چلوسک ملوسک، زباٹا دیو، عمرو عیار اور عیار جادوگر، چھن چھنگلو وغیرہ جیسے بہترین کرداروں کے خالق مظہر کلیم۔ ان کا ماسٹر پیس آنگلو بانگو نامی دو مفکر جڑواں بھائی تھے جو ہمیں آج بھی بہت پسند ہیں۔

مظہر کلیم نے دسمبر 2015 میں روزنامہ ایکسپریس کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے چھہ سو سے زائد عمران سیریز کے ناول لکھے ہیں اور پانچ ہزار سے زیادہ بچوں کی کہانیاں۔ مظہر کلیم صاحب نے دعوی کیا کہ ان کے ہر ناول کی پچاس ساٹھ ہزار کاپیاں بکتی ہیں۔ اس حساب سے تو ان کی عمران سیریز ہی کے ناولوں سے اربوں روپے کی کمائی بنتی ہے لیکن پھر بھی لوگ گلہ کرتے ہیں کہ اردو ادب سے پیسہ کمانا ممکن نہیں ہے۔

بہرحال مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں دلچسپی کا عنصر موجود ہے اور اسے پڑھنے والا نئی نئی چیزیں سیکھتا ہے۔ خاص طور پر انہیں پڑھ کر ہماری انگریزی زبان پر دسترس ایسی ہو گئی ہے کہ انگریز بھی ہم سے بات کرتے ہوئے ہکے بکے رہ جاتے ہیں۔ مثلاً یہ ناول پڑھ کر آدمی کو یہ سلیقہ ہو جاتا ہے کہ کسی اچھی جگہ پر کافی کا آرڈر کیسے دینا ہے۔ ہم جیسے جہلا پہلے منہ اٹھا کر ایسپریسو، موکا، کپاچینو، نیسکیفے وغیرہ کا آرڈر دے دیا کرتے تھے۔ اب ہم ہمیشہ ہاٹ کافی مانگتے ہیں۔ اگر ہاٹ کہے بغیر محض کافی کہہ دیا جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کبھی پی آئی اے کے جہاز پر مانگ کر دیکھ لیں۔ نیم گرم سا سیاہ محلول کافی کے نام پر دے دیتے ہیں۔

مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز سے پہلے ہمارا گمان تھا کہ نان سینس کا مطلب ہوتا ہے لایعنی یا بے وقوفانہ بات یا خیال۔ ڈکشنری میں اس کا مطلب لکھا ہے کہ بولے یا لکھے جانے والے اناپ شناپ الفاظ۔ خرافات۔ لیکن اب ہم نہایت اعتماد سے کسی بھی شخص کو احمق کہنا چاہیں تو اسے ’یو نان سینس‘ کہہ دیتے ہیں اور وہ ہکا بکا ہماری صورت دیکھتا رہتا ہے۔

مظہر کلیم صاحب نے عمران کے کردار کو استعمال کرتے ہوئے جاسوسی ادب کو نہایت اعلی و ارفع کر دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے خیال میں، میں نے ابن صفی کے بعد جاسوسی ادب کو مزید ترفع اور تنوع دیا ہے۔ ابن صفی صاحب کے موضوعات جو تھے انہیں آپ نچلی سطح کے جرائم کہہ سکتے ہیں لیکن میرے ناولوں کے موضوعات بین الاقوامی سطح کے ہیں وہ لوگوں میں زیادہ پسند کیے جاتے ہیں ابن صفی صاحب نے جس دور میں لکھا بہت اچھا لکھا لیکن ان کے موضوعات اس سطح کو نہیں چھوتے جہاں تک میرے موضوعات کا پھیلاؤ ہے‘۔ انہوں نے عمران کے کردار کو بھی تبدیل کیا اور وہ جانی لیور جیسے مسخرے کی بجائے سلمان خان جیسا ایکشن ہیرو بن کر ابھرا۔ مظہر کلیم صاحب بتاتے ہیں ’کہ ابن صفی کے ہاں عمران کا کردار ایک مسخرے کا تھا جو اپنی الٹی سیدھی حرکتوں سے مزاح پیدا کرتا ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کیا، میں نے عمران کے کردار کو اس کے ایک معیار تک پہنچایا اور معیار بھی ایسا جو لوگوں نے پسند کیا، یوں میں لکھتا چلا گیا‘۔

ابن صفی کے ناولوں میں ان کے کردار لڑتے جھگڑتے کم ہیں اور بھاگ دوڑ اور سوچ بچار زیادہ کرتے ہیں۔ ایسے سستی کے مارے کردار ہیں کہ ہل کر کچھ کرنے کی بجائے دماغ استعمال کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ جبکہ مظہر کلیم کے ناولوں میں یہ خامی نہیں ہے۔ ان کے کردار دماغ استعمال کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ دیسی مزاج کے ہیں اور اس فلسفے پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ ڈنڈا بگڑے تگڑوں کا پیر ہوتا ہے اس لئے جہاں مار پیٹ کی ضرورت پڑے وہاں بے دھڑک مار پیٹ کر دیتے ہیں اور جہاں دماغ استعمال کرنے کی ضرورت پڑے وہاں بھی بے دھڑک مار پیٹ کر دیتے ہیں۔

مظہر کلیم صاحب نے ہماری اس بارے میں بھی راہنمائی کی ہے کہ اگر کسی ملک کے اعلی ترین انتظامی عہدوں پر پہنچنا ہو یا دنیا کی کامیاب ترین مجرم تنظیم کا سربراہ بننا ہو تو اس کے لئے ہماری شخصیت کیسی ہونی چاہیے۔ ترقی پانے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ معمولی سی بات پر شدید غصے میں آ جائے، معمولی سی خوشامد پر خوشی سے پھول جائے اور غصہ بھول جائے، اور اتنی زیادہ مقدار میں شراب پیتا ہو جتنی مقدار میں ہما شما طبعی مجبوریوں کی وجہ سے پانی بھی نہیں پی سکتے ہیں۔ لیکن ان خصائل سے بھی زیادہ اہم ہے کہ باس اپنے ماتحتوں کو ’یو نان سینس‘ کہنے کا عادی ہو۔ ان ناولوں میں اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے کہ باس ہمیشہ احمق ہوتے ہیں اور ان کے نائبین نہایت دانشمند ہوتے ہیں۔

مظہر کلیم صاحب بتاتے ہیں کہ ’جب میں نے عمران سیریز لکھنا شروع کی تو میں نے اپنے کچھ کردار بھی متعارف کرائے۔ جیسے ٹائیگر، جوزف، جولیانہ، کیپٹن شکیل، صالحہ اور تنویر وغیرہ‘۔ اب خود سوچیں کہ اگر عمران سیریز میں مظہر کلیم صاحب جولیانا فٹز واٹر اور تنویر کے کردار تخلیق نہ کرتے تو بھلا عمران کس سے عشق و رقابت کیا کرتا؟ اگر جوزف نہ ہوتا تو پھر کیا ہوتا؟

ہمارے عام آدمیوں کو جرائم کی اصل دنیا کا علم نہیں ہوتا ہے۔ وہ تو اپنے محلے سے جگا ٹیکس اکٹھا کرنے والے شیدے، ماجھے گامے وغیرہ کو ہی بدمعاش سمجھتا ہے۔ یہ تو مظہر کلیم کے ناول پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ اصلی بدمعاش وطن عزیز میں دستیاب نہیں ہیں بلکہ دساور سے منگائے جاتے ہیں۔ سارے مائیکل، ڈیوڈ، جانسن وغیرہ دنیا بھر سے پاکیشیا کھنچے چلے آتے ہیں۔ ملکی رواج کے مطابق یہاں بدمعاشی کا لائسنس پانے کے لئے کلب کا لائسنس بھی ضروری ہوتا ہے۔ بدمعاش صرف کلبوں میں بیٹھا کرتے ہیں۔ اور تقریباً ہر محلے میں غیر ملکی بدمعاشوں کا یہ کلب قائم کیا جا چکا ہے۔ یہی چیز ابن صفی سے مظہر کلیم کو ممتاز کرتی ہے۔ ابن صفی کے بدمعاش اتنے بے اثر سے ہوتے تھے کہ اپنا بدمعاشی کا کلب بھی نہیں کھول سکتے تھے اور دیسی ہوا کرتے تھے۔ اسی طرف مظہر کلیم نے اشارہ کیا ہے کہ ابن صفی کے موضوعات، یعنی بدمعاش، نچلی سطح کے جرائم کرتے تھے جبکہ مظہر کلیم کے موضوعات، یعنی بدمعاش، بین الاقوامی سطح کے ہیں۔

ابن صفی کا عمران تو بس نام کا ڈی ایس سی ہے۔ اسے اصل عالم فاضل تو مظہر کلیم صاحب نے بنایا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی بڑے سے بڑا مسئلہ دے دیں، عمران زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ میں اس کا حل پیش کر سکتا ہے۔ بلکہ سائنس ہی کیا، مظہر کلیم صاحب بتاتے ہیں کہ ’آثار قدیمہ، سائنس، تاریخ، آرٹ اور دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو عمران اس پر بات کرتا ہے اور بات کرنے کا طریقہ کار یہ ہے جیسے میرے ایک ناول میں مصر کے کسی قدیم مخطوطہ کے چوری ہونے کا معاملہ تھا، اب اس کی واپسی کے لئے عمران کو ٹاسک دیا گیا عمران جب مصر کے لوگوں کے ساتھ مل کر گفتگو کرتا تھا تو وہ بھی حیران ہوتے تھے مثلاً اس نے بتایا کہ یہ مخطوطہ خط کوفی میں لکھا ہوا ہے اس کے بعد خط کوفی کی ایجاد اس کی روایت اور بڑے بڑے اساتذہ کا بھی ذکر کیا گیا‘۔ اب اندازہ لگائیں کہ عربی بولنے والے مصری تک خطِ کوفی سے بے خبر تھے کہ کون سا طرز تحریر ہے، مگر مظہر کلیم صاحب کا عمران اس سے بخوبی واقف ہے۔ ہم نے یہ ناول پڑھا تو نہیں ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ آثار قدیمہ کے ماہر کہلانے والے مصریوں نے جب پانچ ہزار سال پرانے فرعون کے مقبرے کی دیوار پر خط کوفی میں فرعونوں کی قدیم مصری زبان لکھی دیکھی ہو گی تو وہ حیران پریشان رہ گئے ہوں گے کہ یہ کیا ہے، مگر عمران نے اس کا نہ صرف عربی میں ترجمہ کر دیا ہو گا بلکہ بتایا بھی ہو گا کہ کس فرعون کے زمانے میں اس کا رواج ہوا تھا۔

ایسی ہی دوسری بے شمار ایجادات ہیں۔ مثلاً ایسے میزائل اور کیسپول جن کو کسی گھر کے صحن میں پھینکا جائے تو ان کی گیس نہ صرف وہ بند دروازوں اور کھڑکیوں سے گذر کر تہ خانے تک میں چھپے ہوئے افراد کو بے ہوش کر دیتی ہے، بلکہ محلے کے دوسرے گھروں یا سڑک پر چلنے پھرنے والے افراد پر اس کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ یعنی یہ اتنے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے حامل کیمیکل ہوتے ہیں کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ ٹارگیٹ کون ہے اور صرف اسی پر اثر کرتے ہیں، پورے محلے پر نہیں۔

اپنی اس حیرت انگیز صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے مظہر کلیم صاحب بتاتے ہیں کہ ’میرے اکثر دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ 10 سال پہلے کیسے معلوم کر لیتے ہیں کہ دنیا میں ایسی ایجادات ہونے جا رہی ہیں یا یہ سازش ہونے والی ہے یا یہ ہتھیار یا آلہ ایجاد ہونے والا ہے، جیسے ماسٹر کمپیوٹر کا لفظ میری کہانیوں میں بہت پہلے ہی آگیا تھا اور ایسی بے شمار چیزیں ہیں جو میں نے 10، 8 سال پہلے اپنی کہانیوں میں لکھیں جس پر قاری حیران بھی ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے لیکن پھر 10 سال بعد انہی قارئین کے خط آئے کہ ایسا ممکن ہو گیا ہے اور ہم باقاعدہ اس ایجاد کو دیکھ چکے ہیں۔ دیکھیں یہ آگہی قدرت کی دین ہے میرا اس میں کوئی کمال نہیں نہ میں سائنس دان ہوں نہ میرا ایسا کوئی دعویٰ ہے بس یہ وقت سے پہلے سوچنے والا ذہن قدرت کی دین ہے۔ میرے ذہن میں اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی صلاحیت رکھ دی ہے جو چیزوں کو وقت سے بہت پہلے ان کی ارتقائی شکل میں دیکھ لیتی ہے، دیکھیں! میں نے اپنے قاری کے لئے جو بہتر سمجھا وہ اسے بتایا بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو میں نے اپنے ناولوں کی ضرورت کے لئے اپنے ذہن میں ایجاد کیں لیکن بعد میں وہ دنیا میں ایجاد ہو گئیں۔ ایسا کرتے ہوئے میں نے بس ایک بات کا خیال رکھا کہ اس کو پڑھ کر کوئی یہ نہ کہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ کہے ایسا ہو سکتا ہے۔ اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ جن خطوط پر میں سوچ رہا تھا دنیا کے سائنس دان بھی ایسا ہی سوچ رہے تھے لیکن ایک بات طے ہے کہ میں جیسے سوچ رہا تھا ویسے ہی دنیا سوچ رہی تھی یا قدرت اس کا اہتمام کر رہی تھی بس اس نے مجھے یہ صلاحیت دے دی ہے کہ دنیا میں آئندہ ایسے ہونے جا رہا ہے میں نے لکھ دیا اور پھر ویسا ہو بھی گیا‘۔

مظہر کلیم صاحب کی یہ صلاحیت واقعی حیرت انگیز ہے۔ بھلا کون ذی شعور شخص 1990 کی دہائی میں یہ گمان بھی کر سکتا تھا کہ کمپیوٹر آپس میں رابطہ کر سکتے ہیں اور ایک کمپیوٹر دوسرے کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ یہ آئیڈیا ولایت کے سائنسدانوں کو مظہر کلیم صاحب کے ماسٹر کمپیوٹر کے بارے میں پڑھ کر ہی آیا ہو گا۔ بسا اوقات ہمیں لگتا ہے کہ مظہر کلیم صاحب کائناتی قوانین کو توڑ رہے ہیں۔ مثلاً ان کی لڑائیوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ چھلانگ لگا کر اڑتا ہوا شخص دوران پرواز ہی اچانک بغیر کسی ظاہری سبب کے اپنی سمت تبدیل کر کے کسی بھی سمت اڑ سکتا ہے، ہمیں آج اس بات پر یقین نہیں آتا کہ فزکس کے موجودہ قوانین کے تحت یہ بات ممکن ہے، مگر جیسا کہ ماسٹر کمپیوٹر والی مثال سے مظہر کلیم صاحب ثابت کر چکے ہیں کہ ان کی بات پر سائنسدان اپنی اصلاح کر لیتے ہیں، تو امید ہے کہ فزکس کے قوانین بھی تبدیل کر دیے جائیں گے۔

ابن صفی کی اندھی حمایت کرنے والے کہیں گے کہ وہ بھی تو سائنس فکشن لکھا کرتے تھے۔ آخر یہ زیرو لینڈ کیا ہے؟ جو بغیر پروں کا گیند جیسا فے گراز اڑاتا تھا، مصنوعی بادل بنانے پر قادر تھا، ہالوگرام بنا لیتا تھا۔ زیبرا مین یا پتھر کا آدمی بنانے کی کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ بھلا ابن صفی کے کسی کردار نے بے ہوش کر دینے والا کیپسول اپنی میزائل گن میں رکھ کر فائر کیا ہے؟ یا کسی شخص کو ’یو نان سینس‘ کہہ کر اس کی اوقات یاد دلائی ہے؟ ابن صفی کا سائنس فکشن پڑھ کر یہ گمان تو ہوتا تھا کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے، مگر کبھی اسے ممکن ہوتے تو آپ نے نہیں دیکھا ہو گا۔ جبکہ مظہر کلیم صاحب کے سائنسی خیالات پر ہمیں یقین نہیں آتا مگر سائنسدان ناول سے آئیڈیا لے کر فوراً ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔

ابن صفی کے ناولوں میں روحانیت اور جادو ٹونے کی بھی شدید کمی تھی۔ مظہر کلیم صاحب کے ناولوں میں نہ صرف صوفیا کا ذکر ہے بلکہ بدروحیں، جادوگر حتی کہ خود شیطان بھی عمران کے مقابلے میں آتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں۔

پھر زبان اور محاورے کا بھی فرق ہے۔ ابن صفی خاندانی اثرت کی وجہ سے پرانے زمانے کی درست اردو لکھا کرتے تھے اور شاعر ہونے کی وجہ سے ان کی نثر میں بھی شاعرانہ نازک خیالی در آتی تھی۔ جبکہ مظہر کلیم صاحب کی نازک خیالی سے پاک اردو آج کے انگلش میڈیم زمانے کے چلن کے عین مطابق ہے۔

دونوں مصنفین کا تقابل کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ واقعی دونوں کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ابن صفی ایک نارمل انسان کے ذہن کے مطابق لکھا کرتے تھے کہ جو لکھ رہے ہیں وہ اسے کسی حد تک قابل یقین لگے۔ مظہر کلیم ایک مختلف لیول پر لکھتے ہیں۔

نوٹ: اس مضمون میں مظہر کلیم صاحب کے اقوال ان کے ایکسپریس اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو سے لئے گئے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar