بختاور اور آصفہ بھٹو نے پاکستان کی لاج رکھ لی


استاد محترم فرمایا کرتے ہیں کہ ستر برس سے پاکستان کا سیاسی مکالمہ ایک ہی نقطے کا اسیر ہے ۔ ہمیں عورتوں کے حقوق اور آزادی سے خوف آتا ہے۔ استاد محترم سے اختلاف کی جسارت ممکن نہیں لیکن یہ قصہ اگست 1947 ءمیں شروع نہیں ہوا ۔ امتیاز علی تاج کے والد محترم مولوی ممتاز علی سرسید احمد خان کے شاگرد تھے۔ ممتاز علی ایک مسودہ لے کر سرسید کے پاس حاضر ہوئے۔ تحریر پڑھ کر سرسید اس قدر برافروختہ ہوئے کہ انہوں نے مسودہ چاک کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ مولوی ممتاز علی دم بخود رہ گئے۔ سید صاحب گھر کے اندر تشریف لے گئے تو مولوی ممتاز علی نے چاک شدہ مسودہ اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ یہ مسودہ ’حقوق نسواں‘ کے نام سے 1902 ءمیں شائع ہوا۔ پنجاب بک ڈپو کے نام سے مولوی ممتاز علی کا اشاعتی ادارہ پنجاب میں تعلیم کے فروغ کا سنگ بنیاد ثابت ہوا۔ مشفق استاد سی ایم نعیم فرماتے ہیں کہ سرسید احمد خان کی رائے تھی کہ مردوں کو تعلیم دیے بغیر عورتوں کی تعلیم سے معاشرتی انتشار پیدا ہو گا۔ ایک روایت کے مطابق سرسید احمد خان نے مولوی چراغ علی سے کہا تھا کہ ’ہماری حکومت چھن گئی ۔ کیا اب ہماری عورتیں بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گی‘۔ سرسید کے رفقا ¿ میں ڈپٹی نذیر احمد تعلیم نسواں کے حامی تھے۔ اگر کسی پاکستانی گریجوایٹ کو اعتراض نہ ہو تو عرض ہے کہ مولوی اشرف علی تھانوی کی تصنیف ’بہشتی زیور‘ دراصل برصغیر پاک و ہند میں مسلم خواتین کی اصلاح کا منشور تھا۔ ہر زمانے میں انسانی شعور اقتصادی اور سیاسی تناظر سے متعین ہوتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی پردہ ، عورتوں کی تعلیم اور ملازمت کے بارے میں مخصوص خیالات رکھتے تھے۔ تو ان کے ہم عصر سجاد حیدر یلدرم اور علی گڑھ کے شیخ عبداللہ کی مساعی کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے علامہ اقبال کے کچھ اردو اشعار کو حرز جاں بنا رکھا ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ جرمن گورنس صرف جاوید اقبال کو پڑھانے نہیں آئی تھیں ، منیرہ اقبال بھی ان سے تعلیم پاتی تھیں۔ عورتوں کے حقوق اور قومی ترقی میں تعلق پر مسلم معاشرے میں اختلاف رائے رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح ہمارے پہلے رہنما تھے جنہوں نے دو ٹوک انداز میں عورتوں کے حقوق کا پرچم بلند کیا۔
1929 ءمیں کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون قائداعظم کی پارلیمانی مساعی کا نتیجہ تھا۔ ساردا ایکٹ کی منظوری پر قدامت پسند حلقوں نے محمد علی جناح کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ 1934 ءمیں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے بعد قائداعظم نے مسلمان عورتوں پر مسلم لیگ کے دروازے کھول دیے۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں بتایا کہ انہوں نے پنجاب میں مسلم لیگ کا ایک خواتین ونگ قائم کیا ہے۔ قائداعظم نے فوراً مداخلت کی اور فرمایا کہ میں مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ تنظیمی ڈھانچوں کا حامی نہیں ہوں۔ دلی سے لاہور تک اور لکھنو¿ سے پٹنہ تک قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر عورتوں کے حقوق کی دو ٹوک ترجمانی کی۔ قائداعظم سے کوئی ایک جملہ ایسا روایت نہیں کیا جا سکتا جس میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی حمایت کی گئی ہو۔بلوچستان اور قبائلی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے بھی وہ محترمہ فاطمہ جناح کو ہمراہ رکھتے تھے ۔ 10 مارچ 1944 ءکو علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا ۔’کوئی قوم عظمت کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتی اگر اس کی عورتیں اور مرد شانہ بشانہ کام نہ کریں۔ ہم مکروہ رسم و رواج کے اسیر ہیں۔ عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھر کی چار دیواری میں بند کرنا انسانیت کے خلاف جرم ہے ‘۔
پاکستان جمہوریت کے اصولوں پر حاصل کیا گیا تھا۔ جمہوریت کی بنیاد انسانی مساوات ہے۔ انسانی مساوات کا اہم ترین زاویہ عورت اور مرد کی مساوات سے تعلق رکھتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد جمہوریت دشمن قوتوں نے عورتوں کی مساوات ، آزادی اور حقوق کو نشانے پر رکھ لیا۔ سیاسی جلسوں اور پارلیمنٹ میں عورتوں پر رکیک حملے کیے گئے۔چنانچہ 3 اپریل 1948 ءکو لاہور میں عورتوں نے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں عورت دشمن رویوں کی مذمت کرتے ہوئے عورتوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا۔ بیگم لیاقت علی نے اس موقع پر فرمایا کہ ’تحریک پاکستان کے دوران یہ لوگ ہمیں کہتے تھے کہ باہر نکلو ، مظاہرے کرو اور جیلوں میں جاﺅ اور اب کہا جاتا ہے کہ برقع میں واپس چلی جاﺅ‘۔ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اور قدامت پسند اجتماعات میں قائداعظم اور لیاقت علی خان کو اینگلو محمڈن مسلمان کا خطاب دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم لیاقت علی خان دونوں پردہ نہیں کرتی تھیں لیکن اخبارات اور تقریروں میں صرف رعنا لیاقت علی خان کو نشانہ بنایا جاتا تھا۔بیگم لیاقت علی کے بارے میں ایسے شرم ناک الفاظ استعمال کیے گئے جنہیں دہرایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں جمہوریت کا المیہ عورتوں کی پسماندگی کے ساتھ ساتھ چلا ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پاکستان میں جب غیرت مند مرد آمریتوں کے سامنے پسپا ہو جاتے تھے تو ایک عورت سامنے آتی تھی۔ جنوری 1965 ءمیں فاطمہ جناح نے ایوب خان کا مقابلہ کیا۔ یحییٰ آمریت کے خلاف اٹھارہ سالہ عاصمہ جیلانی نے آئینی جنگ لڑی تھی۔ بھٹو صاحب کی اسیری کے دوران بیگم نصرت بھٹونے لاٹھیاں کھائیں۔ ضیاالحق کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا اعلان آنسہ بینظیر بھٹو نے کیا تھا۔ضیاءآمریت نے قانون شہادت تبدیل کیا تو لاہور کی سڑکوں پر عورتوں نے لاٹھیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ ہماری جمہوری جدوجہد نگار احمد ، خاور ممتاز ،بشریٰ اعتزاز ، تسنیم منٹو ، حنا جیلانی اور مہناز رفیع جیسی ان گنت ماﺅں اور بیٹیوں کی احسان مند ہے۔ آمریت انسانی جسم اور ذہن میں تفریق کرنے کا نام ہے ۔ جسم پر تشدد کر کے شعور کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عورت کے حقوق کی لڑائی جسمانی خصوصیات کے سوال کی کشمکش ہے۔ ریپ انسانیت کے خلاف بدترین جرم ہے۔ جسم کی توہین کر کے شعور انسانی کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ نومبر 1991 ءمیں محترمہ بینظیر بھٹو کی قریبی رفیق وینا حیات کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی تفصیلات قومی شرمندگی کا باب ہیں۔ تب غلام اسحاق خان ، نواز شریف اور جام صادق علی اقتدار میں تھے۔ حزب اختلاف کی قائد بینظیر بھٹو کو بدترین پیغام دیا گیا تھا۔ عرفان اللہ مروت کے ملوث ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر الطاف گوہر کی روایت پر غور کرنا چاہیے۔ غلام اسحاق خان انہیں آکسفورڈ کی ڈکشنری نکال کر بتاتے تھے کہ مظلوم خاتون نے ریپ کا الزام نہیں لگایا، زیادتی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ وینا حیات سے ڈاکٹر شازیہ خالد تک جمہوریت دشمنوں نے عورت کے جسم کو سیاسی ہتھیار بنا رکھا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی مخالفت اور جمہوریت کی جدوجہد کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جسمانی خصوصیات کی بنیاد پر عورت اور مرد کی غیر مساوی درجہ بندی کرنے والے بیک وقت جمہوریت کے دشمن اور دہشت گردی کے حامی ہیں۔ عرفان اللہ مروت کی پیپلز پارٹی میں مبینہ شرکت کی مخالفت کر کے محترمہ بختاور بھٹو اور محترمہ آصفہ بھٹو نے پاکستان کی لاج رکھ لی ہے۔ بینظیر بھٹو شہید کے احترام کی قیمت پر سیاست قبول نہیں۔ بختاور اور آصفہ بھٹو نے اپنے والد سے جمہوری اختلاف کا مظاہرہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف بینظیر بھٹو کی بیٹیاں نہیں، فاطمہ جناح، رعنا لیاقت علی ، نصرت بھٹو اور عاصمہ جہانگیر کی روایت سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان نوجوان بچیوں نے سبین محمود، شیما کرمانی اور شہلا رضا کا پرچم اٹھایا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی قوت اس ملک کی عورتیں ہیں۔ پاکستانی عورتوں کی اخلاقی توانائی اس ملک کی حقیقی محافظ ہے۔ پاکستان کی عورتیں اپنے احترام اور حقوق کے لئے ہر قیمت پرغیر جمہوری رویوں کی مزاحمت کریں گی اور دہشت گردوں کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).