اقلیتوں کے حقوق کے متعلق عدالتی فیصلہ کی دُہائی


Loading

آج سے دس سال قبل 19 جون 2014 کو سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تاریخی فیصلہ جاری کیا۔ عدالت فیصلہ میں قومی کونسل (کمیشن ) برائے حقوقِ اقلیت کے قیام، فروغ رواداری پر مبنی نصاب تیار کرنا، ملازمتوں میں کوٹے کا نفاذ، نفرت انگیز تقاریر کو روکنا، عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے پولیس کی تربیت، مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے پالیسی یا حکمت عملی مرتب کرنا، مذہبی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں پر ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا، جیسے اقدامات اُٹھانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومت کو احکامات جاری کیے گئے۔

اقلیتوں کے متعدد مسائل کا احاطہ کرنے والے اس عدالتی فیصلے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر تمام حلقوں میں سراہا گیا، اور حکومت پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق معاہدوں کی نگران کمیٹیوں کو پیش کردہ رپورٹوں میں اس عدالتی فیصلے کا مثبت اقدام کے طور پر تذکرہ کیا۔

سپریم کورٹ نے 2019 میں ڈاکٹر شعیب سڈل کی سر براہی میں یک رکنی کمیشن قائم کیا جس کے ذمہ عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے سر گرم کاوشیں کرنا تھا۔ اگرچہ یک رکنی کمیشن کے قیام کے بعد عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے معیار میں بہتری آئی ہے، تاہم اس کے باوجود عدالتی احکامات پر مجموعی تعمیل بہت پیچھے ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں تین حکومتوں کو اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا مگر کسی بھی حکومت نے اس تاریخی فیصلے کی تعمیل پر توجہ نہ دی۔ بدقسمتی سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس عدالتی فیصلے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں جس سے پاکستان میں حقوق کی مساوات اور تنوع کا احترام یقینی بنانے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ عدالتی احکامات کی عدم تعمیل کی وجوہات میں حکومتی مشینری کی عدم توجہی، اچھی حکمرانی کا فقدان، سیاسی یا ادارہ جاتی صلاحیت کا فقدان، سرکاری اہلکاروں کی انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل سے عدم واقفیت شامل ہے۔

سرکاری انتظام کے تحت قائم کیے گئے انسانی حقوق کے اداروں میں سے اقلیتی کمیشن وہ واحد ادارہ ہے جسے مخصوص طرز پر 2020 میں ایک بار پھر انتظامی حکم نامہ کے ذریعے قائم کیا گیا اس کے برعکس قومی کمیشن برائے انسانی حقوق، نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن اور قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی تشکیل پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے کی گئی۔ اقلیتی کمیشن کے قیام میں عدم توجہی کا عنصر واضح ہے۔ کسی وفاقی وزارت خصوصاً وزارت برائے مذہبی امور کے ماتحت قومی اقلیتی کمیشن 34 سالوں سے قانون سازی کے بغیر تشکیل دیے جاتے رہے مگر وہ اقلیتوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ کیونکہ اسے کمزور قانونی حیثیت، انتظامی و مالی وسائل میں کمی کا سامنا رہا نیز اس کے مینڈیٹ میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق تحقیقات اور ان کے ازالے کے اختیارات شامل نہیں تھے جو قانون سازی کے ذریعہ قائم کیے گئے دیگر کمیشنوں کو حاصل ہیں۔ لہذا اختیارات و وسائل سے خالی کمزور اقلیتی کمیشن کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا رہا۔ اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کی ہدایات کے بر خلاف قانون سازی کے بغیر اقلیتی کمیشن کا قیام عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے گزشتہ دہائی میں عدالتی احکامات پر مجموعی تعمیل بمشکل 25 فیصد کے قریب رہی۔ کیونکہ دس برسوں میں رواداری کے فروغ کے لیے حکمت عملی کا کچھ اتا پتا نہیں، رواداری پر مبنی نصاب ایک ادھورا خواب ہی رہا، اقلیتوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 5 % کوٹہ کا نفاذ غیر تسلی بخش رہا، قومی کمیشن (کونسل) برائے حقوق ِاقلیت کے قیام کے لیے مسودہ قانون سرکاری دفتروں کی دھول چاٹتا رہا، نفرت انگیزی کا کاروبار پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے، اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں پر روک تو دور، اقلیتی عبادت گاہوں پر حملوں کے پرانے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے 2014 میں منظور کیے گئے سات اصل احکامات پر عملدرآمد کے لئے مزید 90 احکامات جاری کیے، تاہم پالیسی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ حقیقی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ گورننس میں موجود خلاء کو دور کریں، اور عدالتی فیصلے کی حقیقی روح کے مطابق مجوزہ اقدامات پر عمل درآمد کریں، تاکہ پاکستان میں اقلیتوں کو درپیش سنگین مسائل کو حل کیا جا سکے۔ اس فیصلے پر اگر عمل درآمد ہوتا ہے تو اس میں مجموعی گورننس کو بہتر بنانے اور ادارہ جاتی خرابی کو دور کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

عدالتی فیصلے نے تمام شہریوں کے حقوق کی مساوات پر زور دیا، اس لیے مساویانہ پالیسیوں کے لیے فیصلے کی تعمیل کو ایک اہم مقصد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ عدالتِ عظمیٰ کے تاریخی فیصلے کے نتائج اور ہدایات سے حکومت کو رہنمائی لیتے ہوئے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور ایک روادار معاشرے کی تعمیر کے لیے درکار عملی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments