پیار کا پہلا شہر
ناول "پیار کا پہلا شہر” معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کی تحریر ہے۔ جو بیک وقت افسانہ نگار، مضمون نگار، کالم نگار اور ناول نگار ہیں۔ جنہوں نے نا صرف اردو ادب کی راہیں ہموار کیں بلکہ ادب کی دنیا میں نام کمایا۔ اس ناول کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں سیلیبس کا حصہ ہے۔
اس ناول کا موضوع انسان کی سوچ ہے کہ ہر انسان کس طرح اپنے اندر اور باہر کی دنیا کو دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ خاص طور پر حساس انسان ۔ جسے مصنف نے پاسکل جیسی بدقسمت لڑکی کے ذریعے ناول میں پیش کیاہے۔ اس ناول نے ایک طوائف کی زندگی کو بھی پیش کیا کہ معاشرہ طوائف کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔
انہوں نے پیرس کی خوبصورتی کا ذکر اس انداز میں کیا کہ قاری پڑھتے وقت خود کو پیرس جیسے شہر میں تصور کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس شہر کی خوبصورتی کا ثمر یہ ہے کہ مصنف نے "پیرس”کو پیار کا پہلا شہر قرار دیاہے۔
ناول کو پڑھتے وقت قاری کے ذہن میں یہ سوال آنا چاہیے کہ مصنف نے پیرس کو ہی پیار کا پہلا شہر کیوں کہا؟ لیکن قاری اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتا۔
یہ محض اتفاقیہ بات یا ایک عام شہری کا خیالی پلاؤ نہیں جسے شہری کے جذباتی کلمات کہہ کر مسترد کیا جائے۔ بلکہ مصنف نے ایک سنان جیسے سیاح کی زبانی پیرس کو یہ لقب دیا ہے۔ سنان اپنے مشاغل کے باعث سیرو سیاحت کے لیے مختلف ملکوں کا رخ کرتاہے۔ سنان نے سیرو سیاحت کے ذریعے اپنے مشاہدات اور تجربات کو وسیع کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قاری بھی سنان کی اس بات سے اتفاق کرتا کہ پیرس ہی پیار کا پہلا شہر ہے۔
یہ ناول پاسکل اور سنان کی ملاقات سے لے کر علیحدگی تک کاسفر کرنے میں کامیاب رہا۔ پاسکل اور سنان اس ناول کے مرکزی کردار کی حیثیت سے بھی رونما ہوتے ہیں۔ پاسکل خوبصورت دوشیزہ ہونے کے باوجود زمانے کی ہمدردیوں کا شکار ہے۔ وہ اپنی بدقسمتی کا اعتراف بھی کرتی ہے۔
جب سنان نے پاسکل کو دیکھا تو اس کے حسن کا قائل ہوا۔ لیکن جب اس نے پاسکل کو لنگڑاتے ہوئے دیکھا تو اسکی آنکھوں میں پاسکل کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرے۔ کہتے ہیں حسن تب تک حسن رہتا جب تک اس میں داغ نا ہو لیکن جب حسن میں داغ آجائے پھر وہ محض ہمدردی اور وقت گزاری کی نظر ہوجاتا ہے۔
پاسکل اس بات کو بخوبی جانتی ہے۔ اس کے باوجود وہ محبت کی خواہش دل میں بسائے کسی شہزادے کی منتظر ہے۔ شاید کہی سے ایک شہزادہ آئے اور اس کی تلخ زندگی میں مٹھاس بھر دے۔ اپاہج ہونے کے باوجود وہ محبت کی خواہش مند ہے۔ یہ بات پاسکل کی تحریر سے واضع ہوتی ہے جو وہ وکٹر ہیوگو کے ناول "ہنچ بیگ آف موٹر ڈیم” کے دوسرے صفحے پر لکھتی ہے۔
۔ "بد صورت لوگوں کو بھی محبت ایسے جذبے کی چاہت ہوتی ہے۔ مگر ان کا دل اس بات کو نہیں مانتا کہ وہ صرف اس وجہ سے محبت سے محروم کر دیے جائیں۔ "
اس اقتباس سے واضع ہوتا ہے کہ پاسکل بھی کسی کی چاہت کی طلبگار ہے۔ وہ اس چاہت کی جھلک سنان میں دیکھتی ہے۔ وہ سنان کو خوابوں کا شہزادہ سمجھ لیتی ہے۔ سنان بھی اس سے محبت کا اظہار کرتاہے۔ ناول کے آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ سنان بھی پاسکل کو ہمیشہ کے لیے تنہا چھوڑ جاتا ہے۔ اپنے غم میں ڈوبی پاسکل پھر سے اکیلی ہو جاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی پاسکل جیسی بہت سی حساس لڑکیاں موجود ہیں جن کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ ان کے ساتھ محبت کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن جب اپنانے کی بات آئے تو مرد کو خاندانی روایات یاد آجاتی ہیں۔ وہ اسے اپنی بدقسمتی سمجھ کر خودکشی کا شکار ہو جاتی ہیں یا اپنے اندر اس داغ کو لیے کوستی رہتی ہیں۔ جو قدرت کی طرف سے انکو ملتاہے۔ ہمارا معاشرہ ہی ان کو ایسا کرنے پر اکساتا ہے۔
ناول "پیار کا پہلا شہر” ایسے معاشرے پر تنقید کرتا ہے جہاں پاسکل جیسی خوبصورت، نازک، حساس اور بد قسمت لڑکی رہتی ہے۔
- ادب اور اخلاقیات - 11/08/2024
- پیار کا پہلا شہر - 02/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).