حویلی کے راز- منیر مانک کا سندھی افسانہ
گزشتہ سے پیوستہ
سندھی سے ترجمہ:احمد علی کورار
واقعے کے بعد ، جنت بی بی کو دورے پڑنے لگے۔
لوگوں کا قیاس تھا کہ ایسا پاک کلام سے شادی کی وجہ سے ہوا ہے، ان کا خیال تھا کہ کوئی پاکیزہ روح اس کے جسم میں داخل ہوئی ہے۔
مگر گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب کا خیال تھا کہ اب کسی بھی پاکیزہ روح کا اس دنیا میں وجود نہیں، ممکن ہے بی بی کو کسی بڑے ”دیو جن“ نے قابو کیا ہے، یہ ایک ایسا جن ہے جو تمام جنات کا سردار ہے اور وہ شرف والے اور معتبر خاندان کا مہمان بنتا ہے۔
چنانچہ جب بھی جن جنت بی بی کو قابو کرتا تو اس کے چہرے کی کیفیت بدل جاتی اور رنگ سرخ ہو جاتا، وہ اپنے بالوں کو کھول دیتی اور دیوانگی سے اپنے سر کو گول گول گھوماتی اور اس کا پورا بدن گرم ہوجاتا اور وہ قریب بیٹھے ہوئے مرد کو داروگیر کر لیتی اور اسے بھنبھوڑتی، اس عمل کے بعد وہ تھک جاتی اور بے ہوش ہوجاتی تھی۔
جنت بی بی کو ایسی حالت میں دیکھ کر، مائی ساراں حیرت سے اپنی انگلی ہونٹوں پہ رکھتی اور کہتی تھی، یہ خدا کی قدرت ہے کہ یہ ایک شرف والی بچی ہے اور اس پر خدا کی رحمت ہے۔
وہ پھر آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتی کہ خدا ہی اس رمز سے واقف ہے اور کسی انسان کی حاجت نہیں کہ وہ ایسے بھید کو جان سکے۔
مجھے جنت بی بی سے بہت ڈر لگتا تھا کی ایسے نہ جنت بی بی کا جن مجھے نہ کبھی اپنی گرفت میں لے لے۔ مولوی صاحب کے الفاظ میرے ذہن میں رقصاں تھے کہ جن ایک خطرناک مخلوق ہے۔
جب یہ جن عورت کے پاس آتا ہے، اس وقت اگر کوئی اور مرد اس عورت کے قریب آئے تو جن اس شخص کی گردن توڑ دیتا ہے۔
حالانکہ اتنی سے بات کو سوچ کر اور سچ سمجھ کر مجھے رعشہ ہوتا، میں ہمہ وقت آیت الکرسی پڑھتا تھا اور شف شف کرتا رہتا تھا۔
اور اللہ سے دعا کرتا تھا کہ اے میرے رب اپنے حبیب اور پیران پیر کے صدقے مجھے جنت بی بی کے جن سے محفوظ رکھو، آمین۔
خیالوں کی دنیا سے گزرتے ہوئے ہر وہ چیز جو حویلی سے جڑی ہوئی تھی، تسلسل کے ساتھ ایک ایک کر کے میرے ذہن کے بند دریچوں کو کھول رہی تھی۔ وہ میرے لیے ایک عجیب و غریب دن تھا، میں حسب معمول حویلی سے لسی لینے گیا، لسی کا باسن مائی ساراں کے سامنے رکھا اور میں قریب ہی پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا، اس وقت کوئی اور بچہ بھی نہیں آیا تھا، مائی ساراں برامدے میں بیٹھی لسی متھنے میں مشغول تھی، بڑی بی بی سبز رنگ کی شال اوڑھے سوئی ہوئی تھی اور شاہو بھی اپنی دنیا میں مگن اپنے کمرے میں کھیل رہی تھی۔
بالکل خاموش سماں تھا، حویلی میں ہو کا عالم تھا، پوری حویلی میں جو آواز سنائی دے رہی تھی وہ لسی کے متھنے کی آواز تھی۔
لسی کے بلونے کی آواز ایسے پرسکون ماحول میں اضطرابی اور بے چینی کی سی کیفیت کا سبب بنی ہوئی تھی۔
میں بالکل اپنی دنیا میں گم سم تھا، ساتھ میں لسی کے متھنے کی آواز سنائی دیتی تھی، اس اثنا میں جنت بی بی اپنے کمرے سے نکلی اس کی آنکھوں میں خمار تھا، ایسا لگتا تھا کہ وہ نیند سے ابھی اٹھی ہے اور شاید کسی بے قراری کی وجہ سے رات بھر سوئی نہیں۔
ایسی صورتحال کے باوجود بھی اس کا چہرہ چمک رہا تھا اس کی خماری آنکھوں میں کشش برقرار تھی، اس کی چال میں چستی تھی۔
تب وہ میرے قریب آئی اور مجھے اپنی بانہوں میں لیا اور مجھے کہا کہ ”تمھیں کچھ کھانے کی چیزیں چاہیے؟
میں وہاں چپ چاپ سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا، وہ اپنی انگلیوں سے میرے شرٹ کے بٹن کو گھمانے لگی
مجھے پتہ تھا کہ جنت بی بی کو جب جن اپنی گرفت میں لے لیتا ہے تو وہ سرخ ہوجاتی ہے اور اس کی سانس تیزی سے چلنی لگتی ہے، اس وقت میں نے کچھ ایسا ہی محسوس کیا اور جیسے اس نے میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ گھمایا خوف سے میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
میں نے معصومیت اور خوف سے اس کی طرف دیکھا، ”ڈرو مت، بچے، آؤ میں تمہیں ٹافیاں دیتی ہوں، اس نے پیار بھرے انداز سے اپنی گردن ہلاتے ہوئے کہا۔ تب اس نے میرے دائیں بازو کو پکڑا اور مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔ میرا بدن خوف سے بے جان ہو چکا تھا ایک دم ایسا لگا کہ آج میری خیر نہیں، جن مجھے نہیں چھوڑے گا۔
جیسے ہی ہم کمرے میں داخل ہوئے جنت بی بی مجھ سے زور سے ہم آغوش ہوئی اور میرے چہرے کو چومنے لگی۔ ”گھبراؤ مت، میری جان، اس نے کہا“
اس کا بدن تازہ کٹے ہوئے گوشت کی طرح تھر تھرا رہا تھا، وہ نتھنوں سے تیز تیز سانسیں لے رہی تھا ایسا لگتا تھا کہ اس کے پورے جسم کا خون چہرے میں جمع ہو چکا ہے اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور جسم سے ایک شدید قسم کی حرارت محسوس ہو رہی تھی، میں اس وقت ایک عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہا تھا۔
ماضی کی ایسی یادوں نے مجھے ایک دم بے سدھ کر دیا، میں نے ایک نظر حکیم صاحب کو دیکھا وہ حسب معمول ہاون دستے میں دوائی کوٹنے میں مصروف تھا اور فارسی میں ایک نظم کہے جا رہا تھا۔ اس دوران وہ کبھی کبھی خود سے بھی ہم کلام ہوتا۔
خدا کی ان پر پھٹکار ہو! آج کوئی بھی مریض نہیں آیا ہے۔ گاؤں کے لوگ عموماً ہر چیز میں بخیل ہوتے ہیں اب تو وہ بیمار ہونے میں بھی شوم ہو چکے ہیں۔
میں نے ان اضطرابی خیالات سے چھٹکارا پانے کی کوشش کی اور خود حکیم صاحب کی مضحکہ خیز بات پہ ہنسنے کی بھی کوشش کی۔
میں ان یادوں کو خیر باد کہنے کی کوشش کرتا رہا، مگر یادیں میرے لاشعور کے گہرے سمندر میں لوٹ رہی تھیں، ایک تیز بہتی ندی کی طرح میرے ذہن میں بہے جا رہی تھیں اور ان یادوں نے ماضی کے واقعات کو ایک زنجیر کی طرح پرویا ہوا تھا۔
مجھے جنت بی بی والا وہ سارا منظر یاد آنے لگا، اس دوران وہ مجھ سے جنسی قربت چاہتی تھی لیکن میں کم عمر ہونے کی وجہ سے خوفزدہ تھا۔
مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ اگلے ہی لمحے میں جن کے ہاتھوں مارا جاؤں گا۔ میں خدا سے دعائیں کرتا رہا کہ مجھ پر رحم کریں۔
تھوڑے ”لمحے کے بعد جنت بی بی کا بدن ڈھیلا پڑ چکا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے ہوئے زیر لب مسکرائی، اس دوران میں نے سوچا کے چھلانگ لگا کر فرار ہو جاؤں پھر خیال آیا ایسے نہ جن میرا پیچھا کرے اور میری گردن توڑ دے۔
تھوڑی دیر کے بعد جنت بی بی بیدار ہوئی، اس نے میرے گال کو تھپکی دی اور کہا: دیکھو یہ بات کسی کو بتانا نہیں۔ ”میں نے ہاں میں سر ہلایا۔
پھر مجھے مٹی کے برتن سے کچھ خشک عناب اور خشک کھجوریں دیں جو کھڑکی کے نیچے رکھے ہوئے تھے، پھر اس نے پانچ پیسی سکہ میرے جیب میں ڈالا ”اور کہا جاؤ دکان سے کچھ چیز لو مگر سنو اس بات کا ذکر کسی سے مت کرنا۔“ اب جاؤ!
میں لسی لے کر گھر واپس آیا اور اس بات کا ذکر کبھی بھی کسی سے نہیں کیا کیونکہ میں خوفزدہ تھا کہ اگر میں نے اس بات کا ذکر کسی سے کیا تو جنت بی بی کا جن میری گردن توڑ دے گا۔
حسب معمول، میں لسی لینے حویلی جاتا تھا اور اکثر جنت بی بی کے کمرے میں جاتا تھا اور ہمارے درمیان جنسی قربت کا سلسلہ چلتا تھا۔ اس کے بعد میرا خوف ختم ہوا اور حتیٰ کہ جن کا خوف بھی ختم ہو گیا۔ ہماری قربت کا یہ سلسلہ دو سال تک چلتا رہا۔
بالآخر، ایک دن میں حویلی لسی لینے گیا اور لسی کا برتن مائی ساراں کے قریب رکھنے کے بعد وہاں چار پائی پر بیٹھ گیا، بڑی بی بی نے مجھے بلایا اور میرے چہرے کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اس نے کہا:بیٹا! تم اب بڑے ہو چکے ہو، تمھاری تو مونچھیں بھی نکل آئی ہیں، آج سے تمھارا حویلی آنا بند ہے، لسی لینے کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کو بھیجو یا خود آؤ تو باہر ٹھہرنا۔
آخری دن جنت بی بی سے ملاقات ہوئی اس دن اس نے مجھے زور سے ہم آغوش کیا اور کہا مجھے یہاں سے کہیں دور لے جاؤ، میں یہ ان کی باتیں سن کر پتھر کا مجسمہ بن چکا تھا۔
نہیں، کبھی نہیں۔ میں تمہیں کہاں لے جاؤں، تمھاری قرآن کے ساتھ حق بخشش ہوئی ہے، میں نے کہا۔
اگر میں تمہیں بھگا کر لے جاؤں تو قرآن کی مجھ پر گرفت ہو گی۔
”تم۔ ابھی تک بچے ہو“ دیکھو! میری جان تم مجھ سے وعدہ کرو تم مجھ سے حویلی کے پیچھے عناب کے گھنے درخت کے نیچے چھپ کر ملنے آؤ گے۔
وہ ایک مرتبہ پھر مجھ سے زور سے ہم آغوش ہوئی۔
میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔
میں ابھی تک شفا خانے میں موجود تھا، دریائے سندھ کی لہروں کی طرح میرے ذہن میں خیالات کی روانی تھی۔
پھر میرا ذہن جنت بی بی کی چھوٹی بہن شہر بانو کی طرف گیا جو جمعو شیدی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ پھر میں جمعو شیدی کے خد و خال کا سوچنے لگا جمعو شیدی جو گہرے سانولے رنگ کا تھا اور خوبصورت بھی نہیں تھا، شاہو تو بڑی خوبصورت تھی اور پھول کی مانند تھی، وہ جمعو شیدی کے ساتھ بھاگ گئی۔
میں خود کو کوسنے لگا، میں ڈرپوک ہوں، شرمیلا ہوں، اگر میں بھی جمعو شیدی کی طرح جنت بی بی کو بھگا کر لے جاتا، یہ میری زندگی کی بڑی مہم ہوتی۔ مگر جنت بی بی ایک معتبر انسان کی بیٹی تھی، سائیں دانیال کے لاکھوں چاہنے والے تھے جن میں بیوروکریٹس، سیاستدان اور بہت سے بڑے نام تھے جو ان کی چوکھٹ پر سلامی دینے آتے تھے۔
میں ماضی کی یادوں میں کھویا ہوا تھا، اچانک مجھے سائیں دانیال کے چہرے کے خدو خال ذہن میں آئے، سرخ آنکھیں لمبی مونچھیں، سیاہ ہونٹ بھرا ہوا چہرہ اور موٹی گردن۔ وہ آسمانی بجلی کی گرج چمک کی طرح قہقہے لگاتا تھا۔ جب میں اس کے چہرے کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے کپکپی طاری ہوتی ہے۔ جمعو نہیں بچ پائے گا، وہ ایک معتبر شخص کی بیٹی کو بھگا کر لے گیا ہے۔
سائیں دانیال سندھ کی معزز شخصیت ہیں وہ جمعو شیدی کے جسم کے ان گنت ٹکڑے کرے گا۔ میں بے ساختہ بڑبڑایا، ایسا نہ ہو کہ سائیں دانیال کو میرے اور جنت بی بی کی خفیہ ملاقات کی بھنک لگ جائے۔ جب میں اس خیال کا سوچتا تو جیسے میرے جسم میں بجلی کا کرنٹ لگ جاتا۔
میاں تم کیا بڑبڑا رہے ہو، ایک تو آج کوئی گاہک نہیں آیا، خدا بہتر جانتا ہے، نا جانے تم کون سی دنیا میں کھوئے ہوئے ہو، حکیم صاحب نے افسردہ لہجے میں کہا۔
میں جمعو شیدی کا سوچ رہا ہوں، سائیں دانیال اس کے ساتھ کیا حشر کرے گا، میں نے جواب دیا۔
”کچھ نہیں ہو گا“ یہ ایسے نام نہاد پیر اور میر سندھ میں شیر ہوتے ہیں، جب کہ یہ باہر کی دنیا میں بھیگی بلی بن جاتے ہیں، حکیم صاحب نے جواب دیا۔
چھوڑیں اس بات کو، سندھ کے کم بخت لوگ سادہ لوح ہیں، میاں! باقی دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔
مگر حکیم صاحب، شہر بانو کی پاک کلام سے شادی ہوئی تھی، ایسا نہ ہو کہ جمعو شیدی کی گرفت ہو، خدا کا قہر نازل ہو۔
یہ سن کر حکیم صاحب نے قہقہہ لگایا اور طنزیہ کہا:بہتر ہو گا کہ ہم اپنا منہ بند رکھیں۔
وہ بھاگ جانے والی لڑکی جمعو شیدی سے خوش ہے۔ سلام ہے جعمو شیدی کو، وہ بہادر باپ کا بیٹا ہے اور مجھے یقین ہے کچھ تو ایسی خاصیت ہے اس میں، جو ایسا قدم اٹھایا ہے، حکیم صاحب کے یہ الفاظ میرے لیے کسی تیر سے کم نہ تھے، ایک دم ایسا لگا وہ مجھے ہی کہہ رہا تھا کہ تم بڑے بزدل ہو، ڈرپوک ہو۔
- شمالی علاقہ جات کی سیر ( 5 ) - 06/08/2024
- شمالی علاقہ جات کی سیر۔( 2 ) - 03/08/2024
- شمالی علاقہ جات کی سیر (1) - 31/07/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).