کرہ ارض کی پہلی و قدیم یونیورسٹی
آج آپ کوایک ایسی قدیم درسگاہ بارے بتاتے ہیں۔ جسے پہلی و قدیم یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مراکش کے تاریخی شہر فیض کو کرہ ارض کی پہلی یونیورسٹی قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس شہر کی ایک مسجد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 859 ء میں یہ ترقی کرتے کرتے ایک درسگاہ بن کر دنیا کے نقشے پر ابھری۔ یہ اسلامی سنہری دور کی درسگاہ جو نہ صرف تصوف میں یگانہ، بل کہ تعلیم کے میدان میں بھی قیادت کرنے والی درسگاہ بن کر ابھری۔
یہ درس گاہ جو اپنے قیام سے لے کر آج تک طلباء کو مسلسل تعلیم دینے کی وجہ سے یونیسکو اور گینیز ورلڈ ریکارڈ میں اپنا مقام رکھتی ہے۔ اس درسگاہ کو 1963 ء میں دنیا کے جدید تعلیمی سسٹم سے منسلک کر دیا گیا۔ اس درسگاہ کو قائم کرنے کا اعزاز ایک مسلمان خاتون فاطمہ بنت محمد الفہریہ القریشیہ کو حاصل ہے۔ یہ خاتون فاطمہ الفہری کے نام سے مشہور ہیں۔ اس وقت مراکش ادریسی سلطنت کے زیر حکومت تھا۔ جس کی بنیاد ادریس اول نے 788 ء میں رکھی۔
اسی حکومت کو مراکش کی اول اسلامی سلطنت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ادریس دوم ( 793۔ 828 عیسوی) نے فیض شہر کی بنیاد رکھی اور اسے دارالحکومت بنایا۔ فاطمہ الفہری کے دور میں ادریسی خاندان کی حکمرانی تھی اور فیض ایک علمی و ثقافتی مرکز کے طور پر ترقی کر رہا تھا۔ یوں الجامعۃ القرویین کی بنیاد ادریسی دور میں رکھی گئی جب مراکش میں ابتدائی اسلامی سلطنتیں قائم ہو رہی تھیں اور فیض شہر علمی اور ثقافتی لحاظ سے ترقی کر رہا تھا۔
اس قدیم شہر میں علمی تبادلۂ خیالات کے مواقع میسر تھے جہاں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے علماء آ کر اپنی تحقیقات پیش کرتے تھے۔ فیض شہر اور اس کے ادارے اسلامی سنہری دور کی علمی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ یہاں کے علماء نے اسلامی اور عالمی علم میں اضافے کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔ جامعہ القرویین نے اسلامی سنہری دور کی علمی و ثقافتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ فیض شہر اس دور کے علمی مراکز میں سے ایک تھا اور اس کی خدمات نے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی سطح پر بھی علم و تحقیق میں اضافہ کیا۔ اس شہر نے اسلامی تہذیب کی ثقافتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جس میں فنون، تعمیرات، اور دیگر ثقافتی سرگرمیاں شامل ہیں۔
فیض شہر اور اسلامی سنہری دور کے آپس میں گہرے تعلقات ہیں۔ اسلامی سنہری دور، جو تقریباً 8 ویں صدی سے 14 ویں صدی تک جاری رہا، علم و تحقیق، ثقافتی ترقی، اور سائنسی ایجادات کا دور تھا۔ اس دور میں مختلف اسلامی شہروں نے علمی اور ثقافتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ جن میں فیض شہر بھی شامل تھا۔
جب فاطمہ الفہری اور ان کی بہن کو اپنی وراثت ملی تو انہوں نے اس وراثتی دولت کو ایک درسگاہ بنانے میں صرف کر دیا جو القرویین درسگاہ کہلائی جانے لگی۔ بنیادی طور یہ ایک بڑی مسجد و مدرسہ کے طور نمایاں ہوئی لیکن پھر ترقی کرتے کرتے کرہ ارض پر اسے پہلی یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ درسگاہ پہلے دن سے طلباء کو درس و تدریس دینے میں جڑ گئی اور آج کے جدید دور میں بھی انہیں تعلیم مہیا کر رہی ہے۔ جو ایک ریکارڈ ہے۔
سب سے پہلے اسی درسگاہ نے طلباء کو مختلف ڈگریوں سے نوازنا شروع کیا۔ جن میں اسلامی کورسز کی مختلف ڈگریوں کے علاوہ ریاضی، فقہ، گرامر، فلکیات اور میڈیسن کی ڈگریاں شامل تھیں۔ اب تو یہ درسگاہ مختلف شعبوں میں طلباء کو ڈگریوں سے نوازتی ہے۔ اس درسگاہ کا خاصہ اس کے تعلیم دینے کا سسٹم ہے۔ یہ اپنے طلباء کو اسی طرز پر تعلیم مہیا کر رہی ہے جو اس کے ابتدائی تعلیمی نظام کا حصہ تھی یعنی انہیں نیم دائرے کی شکل میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا۔ استاد طلباء میں سے کسی ایک کو کوئی بھی عبارت پڑھنے کا کہہ کر اس کی گرامر، قانون اور تعارف پر سوال کرتا اور پھر ان کو اس کی تشریح سمجھاتا۔ یہ ایک پرانا تعلیمی طریقہ کار ہے جو اب درسگاہوں میں متروک ہوتا جا رہا ہے۔
الجامعۃ القرویین کی لائبریری بھی دنیا کی قدیم ترین اور اہم ترین لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ اس میں نادر و نایاب نسخے موجود ہیں جو کئی صدیوں کی علمی تحقیق کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہاں کی لائبریری میں قرآن کے قدیم نسخے، فقہ اور سائنس کی کتب، اور اسلامی تاریخ کے اہم دستاویزات شامل ہیں۔ الجامعۃ القرویین کی لائبریری کی دوبارہ تزئین 2012 میں شروع ہوئی اور 2016 میں مکمل ہوئی۔ اس تزئین کے کام کو کینیڈین۔ مراکشی آرکیٹیکٹ عازہ یونسف نے سرانجام دیا۔
انہوں نے اس تاریخی لائبریری کی بحالی کے دوران اس کی اصل معمارانہ خصوصیات کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ضروریات کے مطابق بھی اس میں تبدیلیاں کیں۔ تزئین کی کوششوں میں لائبریری کی قدیم مخطوطات اور نایاب کتب کی حفاظت اور بحالی، جدید لائبریری سسٹمز کی تنصیب، اور عوامی رسائی کے لئے نئی سہولیات کی فراہمی شامل تھی۔ اس عمل نے نہ صرف لائبریری کی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھا بلکہ اس کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کو بھی جدید تقاضوں کے مطابق بنایا۔ الجامعۃ القرویین کی لائبریری اب بھی اپنی نایاب مخطوطات اور علمی ذخائر کے لئے مشہور ہے۔ اس کی حالیہ تزئین نے اس کی اہمیت اور بھی بڑھا دی ہے۔
الجامعۃ القرویین آج بھی اپنے تاریخی اور تعلیمی حیثیت سے نمایاں ہے۔ یہ یونیورسٹی جدید تعلیمی ادارے کے طور پر فعال ہے اور اسے مراکش کی حکومت اور عالمی تعلیمی برادری میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اب جدید دور میں یہ درسگاہ اسلامی علوم، فقہ، عربی زبان و ادب، اور دیگر روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید مضامین جیسے سائنس، انجینئرنگ، اور سوشل سائنسز کی تعلیم بھی مہیا کرتی ہے۔ اسے نہ صرف مراکش بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ممتاز علمی و ثقافتی مرکز کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
اس یونیورسٹی کی تاریخی عمارت اور اس کے اندر موجود علمی خزانے مراکش کے ثقافتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ درسگاہ دنیا بھر سے طلباء، محققین، اور سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ فیض شہر کے علمی اداروں، خاص طور پر جامعہ القرویین نے یورپی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) پر بھی اثرات مرتب کیے، کیونکہ یورپی طلباء یہاں سے تعلیم حاصل کر کے اپنے ممالک میں علمی و ثقافتی ترقی کے لئے کام کرتے تھے۔
- اسلاموفوبیا اور اس کی تاریخ - 13/01/2025
- پلاؤ اور بریانی کا تاریخی ملاپ - 31/12/2024
- ملک شام کا المیہ - 22/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).