گوادر سے ایرانی بندرگاہ چابہار بہت آگے ہے


Loading

muhammad taqi kuldan

ماضی میں جب گوادر کی بندرگاہ میں تجارتی، اور ماہی گیری کی سرگرمیاں عروج پا رہی تھیں، اس زمانے میں چابہار کسی شمار و قطار میں نہیں تھا، لیکن جب ہم شہر گوادر، اور شہر چابہار کا تقابلی جائزہ لیں، آپ کو حیرت انگیز حقائق کا سامنا ہو گا، گوادر اپنی قدرتی افادیت کی باوجود چابہار سے ترقی کے دوڑ میں سالوں پیچھے رہ گیا ہے۔ وہ ہی گوادر جو کسی زمانے چابہار کے مقابلے میں ایک ترقی یافتہ بندر گاہ ہوا کرتا تھا ۔

پچھلے پچھتر سالوں میں پاکستان ہر شعبہ زندگی میں مقابلتاً آگے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف گامزن ہے، چابہار جو کبھی ایک چھوٹی سی مچھیروں کی بستی ہوا کرتا تھا، ایرانی حکومت کی بھر پور توجہ سے ایک جدید شہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے مزید جدیدیت اختیار کر رہا ہے۔ سی پیک کا جھومر کہلانے والا گوادر ہر لحاظ سے چابہار سے پیچھے ہے۔ چابہار میں پراپرٹی کی قیمت کراچی جیسے شہر کے مقابلے میں کھڑی ہے۔

چابہار میں جس طرف آپ جائیں آپ کو تیزی سے بننے والی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ ہر طرف کنسٹریکشن کا کام تیزی سے جاری ہے۔ زمین کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر بڑے بڑے پروجیکٹس کے تحت ہر طرف فلیٹ بن رہے ہیں۔ گوادر میں آپ کو کوئی ایسا پروجیکٹ نظر نہیں آتا۔ گوادر میں چابہار کے مقابلے میں کنسٹریکشن کا کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے کو مدنظر رکھا جائے، چابہار گوادر کے مقابلے میں بہت آگے نظر آتا ہے۔

گوادر میں گھنٹوں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، چابہار میں لوڈشیڈنگ کا تصور نہیں۔ گوادر میں جب بارشیں ہوتی ہیں، تو ہرطرف سیلاب کا سماں ہوتا ہے، لیکن چابہار میں کوئی ایسی صورتحال نہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ ٹریفک اور ٹریفک قوانین سے بھی لگایا جاتا ہے ۔ چابہار میں ہر چوراہے پر ٹریفک کے سگنل آپ کو ملیں گے، چلتے ہوئے گاڑیوں کی مانیٹرنگ کے لئے ہر سگنل پر جدید طرز کے کیمرے نصب ہیں، لیکن گوادر میں ٹریفک کی حالت دگرگوں ہے۔ اگرچہ گوادر میں حالیہ دنوں میں ایک دو چوراہوں پر ٹریفک کے سگنل نصب کیے گئے ہیں، لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بند رہتے ہیں۔

چابہار میں بڑے بڑے سپر اسٹور ہیں، لیکن گوادر میں شائد ایک آدھ سپر اسٹور ہو۔ گوادر کے مقابلے میں چابہار میں بہت بڑی تعداد میں مختلف بینک ہیں، چابہار کو ملک کے دوسرے حصوں سے منسلک کرنے کے لئے ریلوے ٹریک پر تیزی سے کام جاری ہے، گوادر میں ریلوے ٹریک کا نام و نشان نہیں۔ آپ چابہار کی بندرگاہ میں لنگر انداز جہازوں کو دیکھ سکتے ہیں، بندرگاہ میں سیاحتی مراکز بنائے گئے ہیں، ایران کے دور دراز علاقوں سے لوگ چابہار میں سیاحتی مقام دیکھنے آتے ہیں، غیر ملکی سیاح بھی چابہار میں آپ کو نظر آتے ہیں، چابہار شہر کی صفائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، گوادر چابہار کے مقابلے میں صفائی سے عاری شہر لگتا ہے۔

چابہار میں ان گنت تعلیمی درسگاہیں ہیں، جدید طرز کی عمارتوں میں یہ درسگاہیں قائم ہیں۔ یہاں حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں، لیکن ان پرائیویٹ اداروں میں فیس اور دوسرے معاملات کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے ۔ آپ کو ہر ادارہ گوادر شہر کے مقابلے میں فعال ملتا ہے۔ پیٹرول پمپ سے لے کر ڈاکخانہ جیسے ادارے جدیدیت کی طرف گامزن ہیں۔ کھیل کے میدانوں کا بھی اگر جائزہ لیا جائے چابہار بہت ہی آگے ہے۔

ایرانی حکومت نے چابہار میں ایک بڑے قطعہ زمین پر ، جو ایک زمانے میں غیر آباد علاقہ تھا، وہاں بڑی بڑی شاپنگ مارکٹیں بنائیں، یہاں اس کو بندر آزاد کے نام سے جانا جاتا ہے ، آپ کو بندر آزاد میں دنیا کی تمام پروڈکٹس مل سکتی ہیں۔ بندر آزاد میں تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ رہائشی بلاک بھی بنائے گئے ہیں، جہاں پر خوبصورت چھوٹے بنگلے نما گھر بنائے گئے ہیں، یہاں کی زبان میں ان بنگلہ نما گھروں کو ولا کے نام سے جانا جاتا ہے ، یہ ولا پہاڑی کے اوپر بنائے گئے ہیں، ان میں عصر حاضر کی تمام سہولتیں ہیں، یہ ولا پہاڑوں پر ہیں ان سے اردگرد کے مناظر دلکش لگتے ہیں۔

گوادر میں یہ تمام ترقیاں صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ اگر ان دو شہروں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو گوادر چابہار کے مقابلے میں ہر شعبہ زندگی میں بہت پیچھے ہے۔ اگرچہ قدرتی لحاظ سے دیکھا جائے تو گوادر کو چابہار کے مقابلے میں قدرت نے بہت زیادہ نوازا ہے، گوادر کا جغرافیہ اور اس کا ڈیپ سی ہونا قدرت کا انمول تحفہ ہے، سیاحت کے لئے گوادر بیچ چابہار سے زیادہ دلکش ہے، لیکن قدرت کی اس دین کو سنبھالا نہیں گیا ہے۔ گوادر اور چابہار کا موازنہ کرتے ہوئے ایک بات بار بار ذہن میں آتی ہے کہ دو دلہنوں میں ایک قدرتی طور پر خوبصورت تھی وہ مختلف بیماریوں کا شکارہے، ان بیماریوں کی وجہ سے اپنا قدرتی حسن تیزی سے کھو رہی ہے، اور دوسری دلہن جس کی واجبی سی شکل و صورت تھی، اس کے گھر والوں کی توجہ سے بے حد حسین دکھائی دے رہی ہے۔ گوادر، چابہار کے مقابلے میں قدرتی لحاظ سے بہت آگے ہے، لیکن عدم توجہی، سیاسی ناہمواریوں، سماجی نا انصافی، تعلیمی اداروں کے فقدان کی وجہ سے چابہار کے مقابلے میں ترقی کے ہر شعبے میں بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے۔

گوادر اور چابہار کے سیاسی حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، چابہار میں کوئی سیاسی بے چینی نہیں ہے، لیکن گوادر میں سیاسی عدم استحکام ہے، لوگوں میں انسانی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بے چینی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ گوادر پر بھرپور توجہ سے اس بے چینی کو ختم کیا جائے، اس وقت چابہار اور گوادر کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ترقی کے لحاظ سے چابہار گوادر سے سالوں آگے ہے۔ گوادر اور چابہار میں بسنے والے لوگ زیادہ تر بلوچ ہیں، اور ان میں آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں، ان دونوں شہروں میں رہنے والے بلوچوں کے طرز زندگی میں زمین و آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ الغرض چابہار اور گوادر کا تقابلی جائزہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ گوادر اب چابہار کے مقابلے میں ترقی کی شاہراہ پر بہت پیچھے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments