دوسا کی چینو سے پیار کی کہانی


پچھلے چند دن سے فاختاؤں کا ایک جوڑا ہمارے لان میں اکثر نظر آنے لگا ہے۔ لان سے گھاس کاٹتے ہوئے مجھے سیب کے درخت میں ان دونوں کا نیا بنایا ہوا گھونسلا نظر آیا۔ فاختاؤں کا یہ جوڑا اب اکثر لان میں ایک دوسرے سے چہلیں کرتا نظر آ تا ہے۔ یہ موسم ان کا انڈے دینے اور ان سے بچے نکالنے کا ہے۔ برطانیہ کا موسم گرما جولائی میں بھی کافی سرد ہے۔ بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے جس دن دھوپ نکلتی ہے اس میں بیٹھنے کو جی کرتا ہے۔ آج لان میں کرسی ڈال کر بیٹھے تو خاتون خانہ نے فاختاؤں کے لیے تھوڑی دور گھاس پر دانہ ڈالا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے دانہ چگنے میں مصروف ہو گئے۔ ان کو دیکھ کر مجھے چند سال پہلے اپنے ایک کبوتر دوسا کی یاد آ گئی جو شہید ِمحبت ہو گیا تھا۔

مجھے جانور یا پرندے پالنے کا کبھی بھی شوق نہیں رہا۔ ہاں البتہ بچوں نے دو تین دفعہ توتے ضرور پالے جو کچھ عرصہ بعد اُڑ جاتے رہے۔ دس سال پہلے ہم نے میرپور شہر میں اپنا نیا گھر بنایا جو آبادی سے تھوڑا ہٹ کے تھا۔ گھر کی حفاظت کے لیے ہم نے ایک ملازم لڑکا رکھا۔ غلام احمد انیس بیس سال کا نوجوان تھا۔ اس کے والدین ہمارے پرانے مرید تھے۔ ہمیں اپنے نئے تعمیر شدہ گھر میں منتقل ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا تھا۔ ایک شام کو غلام محمد میرے پاس آیا اور التجا کرنے لگا۔

” سرکار! اگر آپ اجازت دیں تو گھر کی چھت پر میں تین چار کبوتر رکھ لوں۔“

پتہ چلا اسے کبوتر پالنے کا بہت شوق ہے۔ میں نے کہا کہ اڑوس پڑوس کے لوگ تنگ ہوں گے اور شکایتیں کریں گے۔

” سرکار! میں کوئی شکایت نہیں آنے دوں گا۔“

اس نے جواب دیا۔ خاتون ِخانہ نے بھی سفارش کی تو میں نے ہاں کر دی۔ اگلے دو تین دن میں اس نے چھت پر چھوٹا سا جنگلا نما پنجرہ بنایا اور دو جوڑی کبوتر لے آیا۔ چند دن بعد اس پنجرے کے ساتھ اس نے کبوتروں کے رہنے کی صحیح جگہ بنا لی۔ ان دنوں بینک میں میری مصروفیات میں اضافہ ہو گیا، میں دفتر جلدی چلا جاتا جہاں سے میری واپس اکثر شام ڈھلے ہوتی۔ چار پانچ ماہ بعد میں شام سے کچھ پہلے گھر آیا تو پرندوں کی آوازیں سن کر میں چھت پر چلا گیا۔ چھت پر سفید، نیلے، سرمئی اور ہلکے سیاہ رنگ کے درجن سے زیادہ کبوتر دانہ چگتے ہوئے ایک دوسرے سے غٹر غوں کر رہے تھے۔ مجھے یہ منظر دیکھ کر بہت اچھا لگا۔

اگلے دن ہفتہ وار چھٹی تھی۔ ہماری چھت سے منگلا ڈیم کا خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔ شام سے کچھ پہلے میں ڈیم کا نظارہ کرنے چھت پر گیا۔ غلام محمد کبوتروں کو دانا ڈال رہا تھا۔ کبوتر ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے دانہ چگنے میں مصروف تھے۔ ڈیم کا نظارہ چھوڑ کر میں انھیں دیکھنے میں محو ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ہی مجھے ایسے لگا جیسے وہ آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور میں ان کی بولی سمجھنے لگا ہوں۔ اتنے بہت سارے کبوتروں میں سفید رنگ کے تین چار کبوتر سب سے الگ نظر آتے تھے۔ ایک کبوتر بہت ہی نرم و نازک تھا۔ اس کے پاؤں میں چھوٹی چھوٹی مرکیاں پڑی ہوئی تھیں۔

میں نے اس سفید کبوتر کے بارے میں پوچھا تو غلام محمد نے بتایا ”سرکار! یہ کبوتری ہے، اس کا نام چینو رکھا ہوا ہے۔“

چینو کے سارے پر انتہائی سفید اور نازک سے تھے۔ صراحی دار گردن اور چہرے پر سرمئی رنگ کی خوبصورت آنکھیں تھیں۔ وہ بار بار مور کی طرح اپنی دم کے پروں کو پھیلاتی اور اور گھوم گھوم کر دانہ چگنے لگتی تھی۔

میں نے قریب پڑے دانوں کے ڈبے میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر دانے نکالے اور مٹھی کھول کر ہاتھ پھیلا دیا۔ تین چار کبوتر میری طرف آئے اور میری ہتھیلی پر بیٹھ کر دانا چگنے کی کوشش کرنے لگے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ میرا دل چاہا کہ چینو بھی میرے ہاتھ پر بیٹھ کر دانہ چُگے لیکن وہ تو اپنی ذات میں مگن تھی۔ میں تھوڑی دیر کبوتروں کے ساتھ کھیل کر نیچے آ گیا۔

کبوتروں سے کھیلنا مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ اب میں ہفتے میں دو تین دن شام کو چھت پر جانے لگا۔ غلام محمد نے سب کبوتروں کے نام رکھے ہوئے تھے۔ وہ پیار سے نام لے کر ان کو اپنے پاس بلاتا رہتا تھا۔ دانہ ڈالتے ہوئے بہت سے کبوتر مجھ سے مانوس ہو گئے۔ جیسے ہی میں شام کو چھت پر جاتا دو تین کبوتر میرے پاس آ جاتے۔ میں کبوتروں کو دانہ چگتے بڑے غور سے دیکھتا رہتا۔

میرے مشاہدے میں آیا کہ چینو کے آگے پیچھے دو تین کبوتر غٹرغوں کرتے ہوئے گھومتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک کبوتر بہت ہی خوبصورت تھا۔ اس کے پروں کا رنگ سفید اور دم اور گردن کے پر گہرے سرمئی رنگ کے تھے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی بڑی روشن آنکھیں تھیں۔ غلام محمد نے اس کا نام دوسا رکھا ہوا تھا۔ دوسا اکثر غٹرغوں کرتا ہوا چینو کے گرد پھیرے لگاتا تھا۔ غلام محمد نے بتایا کہ دوسا اکثر چینو کبوتری کے گرد گھومتا رہتا ہے لیکن چینو اسے گھاس نہیں ڈالتی۔ میں ان دونوں کی چھیڑ چھاڑ دیکھتا رہتا تھا۔

ایک دن شام کو دانا ڈالتے ہوئے دوسا میرے ہاتھ پر آ بیٹھا۔ اپنی روشن آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں میری نظروں سے ملیں تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ چینو کو کیوں تنگ کرتا ہے۔ مجھے ایسا لگا میری بات سن کراس کے پر ایک دم کھڑے ہو گئے ہیں۔ مجھے لگا جیسے اس نے میری بات کا جواب دیا ہو۔

” سرکار! میں تو چینو سے پیار کرتا ہوں۔ سچا والا پیار۔ اسے اپنانا چاہتا ہوں۔ لیکن وہ میری کسی بات کا جواب نہیں دیتی۔ نہ ہی مجھ سے بات کرتی ہے۔ پتہ نہیں اسے کس شہزادے کی تلاش ہے۔“

میں نے اسے جواب دیا کہ اگر اس کا پیار سچا ہے تو وہ چینو کے دل میں ضرور جگہ بنا لے گا۔ لیکن مجھے محسوس ہوا جیسے دوسا کا پیار یک طرفہ ہے ِ۔

اسی اثنا میں کچھ دنوں کے لیے میں بیرون ملک چلا گیا۔ واپس آ کر بینک میں مصروف کی وجہ سے میں تین چار ہفتے چھت پر نہیں جا سکا۔ ان دنوں موسم بہار کی آمد آمد تھی۔ فرصت پا کر ایک دن مغرب سے پہلے میں چھت پر گیا تو غلام محمد کبوتروں کو دانا ڈالنے میں مصروف تھا۔ میں نے دیکھا کہ چینو کے ساتھ ایک بڑی جسامت اور گہرے رنگوں کے مضبوط پروں والا کبوتر دانا چگنے میں مصروف تھا۔ اس کی گردن کے سرمئی مائل نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے ملائم پروں کے ساتھ بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں تھیں۔ اس کے سرخ رنگ کے مضبوط پاؤں میں چھوٹی چھوٹی دیدہ زیب مرکیاں پڑی ہوئی تھیں جو اس کے مالک کے ذوق کا پتہ دے رہی تھیں۔ اکثر مالک کبوتروں کی پہچان کے لیے ان کے پاؤں میں مرکیاں ڈال دیتے ہیں۔

میں نے غلام محمد سے پوچھا کہ کیا یہ کبوتر کسی سے نیا لیا ہے، تو اس نے جواب دیا۔
” سرکار! یہ کبوتر دو ہفتے پہلے بھٹک کر کہیں سے آ گیا ہے۔ دو تین دفعہ اڑانے کے باوجود یہ نہیں گیا۔
اب یہ دوسرے کبوتروں سے ہل مل گیا ہے۔ ”

تین چار دن بعد میں چھت پر گیا تو دیکھا کہ چینو اس نئے کبوتر کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہی تھی۔ کبوتر غٹرغوں کرتا ہوا اس کے گرد چکر لگاتا تو جواب میں چینو بھی دم کے پروں کو پھیلا کر اس کا جواب دیتی تھی۔ میں نے اِدھر اُدھر نظریں گھما کر دوسا کو ڈھونڈا تو وہ چھت کی دیوار پر ایک کونے میں خاموش بیٹھا اپنے پروں کو کھجانے میں مصروف تھا۔ کبھی کبھی وہ چینو اور نئے کبوتر کی طرف دیکھتا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگتا۔

مجھے لگا جیسے چینو کو نیا آنے والا کبوتر پسند آ گیا ہے۔ جبھی وہ ہر وقت اس کے ساتھ کھیلتی رہتی ہے۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے لڑکیوں کو اپنے خاندان میں کوئی بھی کزن پسند نہیں آتا لیکن یہی لڑکیاں دور کہیں سے پڑوس میں آ کر بسنے والے کسی انجان لڑکے کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ دوسا اب مجھے اداس اداس نظر آتا تھا۔ دو تین کبوتریوں نے اس کا پیچھا کیا لیکن دوسا نے ان میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔

دو ہفتوں بعد غلام محمد نے دوپہر کے وقت سب کبوتروں کو اُڑایا۔ شام سے کچھ پہلے سب کبوتر واپس آ گئے سوائے چینو اور اُس چینے کبوتر کے۔

شاید دونوں نے اپنے لیے نئی راہیں ڈھونڈ لی تھیں۔ وہ چینا کبوتر ہماری چینو کو ساتھ لے گیا تھا۔

غلام محمد کو چینو بہت پسند تھی، اس نے اسے اپنے ہاتھوں سے پالا تھا۔ تین چار دن تک غلام محمد شہر میں مختلف ڈیروں پر جا کر چینو کا پتہ کرتا رہا لیکن وہ اور چینا کبوتر کہیں نظر نہیں آئے۔ دوسا بھی چار پانچ دن بہت متحرک رہا۔ وہ صبح اُڑتا اور شام کو کہیں سے واپس آتا۔ گھر میں وہ ایک طرف بیٹھ کر دانا چگتا اور خاموشی سے دڑبے کے اندر چلا جاتا۔ اُس کی حرکات و سکنات سے لگتا تھا کہ وہ بہت مضطرب ہے۔ سارا دن گھر سے غائب رہ کر وہ شاید چینو کو ڈھونڈتا رہتا تھا۔

ایک ہفتہ تک اس کی یہی روٹین رہی۔ اب وہ کم کم نظر آتا تھا۔ غلام محمد کے پاس پینتیس چالیس کبوتر تھے۔ وہ سب مل کر شام کو خوب دھماچوکڑی مچاتے تھے۔ ہماری چھت کبوتروں کی غٹرغوں سے گونجتی رہتی تھی۔ لیکن اس غٹرغوں میں دوسا کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی تھی۔ بہت سی کبوتریاں اور بھی تھیں لیکن وہ انھیں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔

ایک دن غلام محمد نے بتایا کہ دوسا نے دانا چگنا کم کر دیا ہے اور وہ بیمار بھی رہنے لگا ہے۔ میرے کہنے پر وہ ایک دن اسے ویٹنری ہسپتال میں لے گیا۔ جہاں ڈاکٹر نے اسے ایک انجکشن لگایا لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوا۔

اُس دن میں صبح بینک جانے کے لیے تیار ہو کر ناشتہ کر رہا تھا تو غلام محمد نے بتایا۔ ”سرکار! وہ دوسا آج مر گیا ہے۔ “

میں نے پوچھا۔ ”اسے کیا ہوا ہے۔ ؟ تم تو اسے ویٹنری ہسپتال سے انجکشن لگوا کر لائے تھے۔“
”سرکار! کل رات کو میں نے سب کبوتروں کے ساتھ اسے بھی دڑبے میں بند کیا تھا۔ صبح دڑبہ کھولا تو سب کبوتر باہر آ گئے۔ دوسا نہیں آیا تو میں نے اندر جا کر دیکھا تو یہ مرا پڑا تھا۔ ”

میں ناشتہ ختم کیے بغیر چھت پر گیا تو دڑبے کے باہر بڑی بڑی لمبی اڑانیں بھرنے والا دوسا خاموش پڑا ہوا تھا۔ یقین کریں خاندان کے فرد کی طرح اس کی موت پر میرے آنسو نکل آئے۔ مجھے لگا کہ جیسے چینو کی جدائی نے دوسا جیسے مضبوط کبوتر کو مار دیا۔ میں نے غلام محمد سے کہا۔ اس شہید محبت کو اچھے طریقہ سے کسی محفوظ جگہ پر دفن کر دو ۔ وہ میری بات میں چھپی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ اس نے اچھا کہہ کر دوسا کی لاش کو اٹھایا اور ایک چھوٹے سے کپڑے میں لپیٹ کر قریبی جنگل میں دفن کر آیا۔ مجھے دوسا کی موت کا بہت دکھ ہوا۔ غلام محمد بعد میں بھی چینو کو ڈھونڈتا رہا لیکن وہ اسے نہیں ملی۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا پرندوں کو بھی ایک دوسرے سے پیار ہو جاتا ہے او ر وہ بھی اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے بعد زندہ نہیں رہ سکتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments