ٹرمپ اور خان کی سیاست : پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ


Loading

13 جولائی 2024 کو سابق امریکی صدر ٹرمپ یقینی موت سے بچے۔ گولی کان چھید کر نکل گئی، یہ حملہ پنسلوینیا میں ہوا جہاں ٹرمپ انتخابی ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔ ایک دن پہلے تک ٹرمپ کی مقبولیت میں 6 سے 7 فیصد تک کمی ہو چکی تھی اور وہ الیکشن ہارتے نظر آرہے تھے۔ عشق معاشقے کا سکینڈل سامنے آنے پران کی مقبولیت گر گئی تھی لیکن اس قاتلانہ حملے سے ان کی عوامی پسندیدگی میں اضافہ ہوا۔ اب ان کے حامی کہہ رہے ہیں کہ نومبر کے صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی جیت یقینی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اب بھی الیکشن جیت سکتی ہے اگر بائیڈن مقابلے سے دستبردار ہو جائیں۔ جو بائیڈن کی اسرائیل کی اندھی حمایت اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی حوصلہ افزائی نے بھی بائیڈن کی مقبولیت متاثر کی ہے۔

امریکا میں صدور پر حملوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قاتلانہ حملوں میں 4 صدور ہلاک اور 7 زخمی ہوچکے ہیں قتل ہونے والے امریکی صدور میں ابراہام لنکن، جیمز گارفیلڈ، ولیم مک کینلی اور جان ایف کینیڈی شامل ہیں۔ قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہنے والے سابق صدور میں باراک اوباما بھی شامل ہیں جن پر 2011 میں فائرنگ کی گئی تھی۔ اس سے قبل جن صدور پر حملے ہوئے ان کا مختصر تذکرہ یہ ہے۔

•امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن کو 14 اپریل 1865 کی شام واشنگٹن کے فورڈز تھیٹر میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کو سر میں گولی ماری گئی اور اگلے دن ان کی موت واقع ہو گئی۔

• 25 ویں صدر و یلیم میکنلی پر 6 ستمبر 1901 کو نیویارک میں قاتلانہ حملہ ہوا، جب وہ ایک تقریب سے خطاب کے بعد عوام میں گھل مل رہے تھے۔ ان کے سینے اور پیٹ میں دو گولیاں ماری گئیں۔ ایک ہفتے بعد وہ ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

• 1921 میں صدر تھیوڈر روزویلٹ دوسری مرتبہ منتخب ہونے کے لیے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ریاست وسکانسن میں ان کو گولی ماری گئی۔ یہ گولی عمر بھر کے لیے ان کے سینے میں ہی رہی۔

• 1933 میں نو منتخب صدر فرینکلن روزولیٹ پر فلوریڈا کے شہر میامی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ محفوظ رہے تاہم شکاگو کے میئر اینٹون سرماک گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔

• 1963 میں صدر جان ایف کینیڈی کو ٹیکساس میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا جب وہ گاڑی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سوار تھے۔ امریکیوں کے خیال میں جے ایف کینیڈی کی ہلاکت کے بعد ملک کی سیاست اور سوسائٹی میں پرتشدد دور کا آغاز ہوا۔

•سماجی حقوق کے مشہور رہنما مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے دو ماہ بعد ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار، رابرٹ کینیڈی کو 1968 میں لاس اینجلس کے ایمبیسیڈر ہوٹل میں گولی مار کر قتل کیا گیا۔

• 1972 میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جارج ویلس کو انتخابی مہم کے دوران ریاست میری لینڈ کے شہر لارل کے ایک شاپنگ مال میں، چار گولیاں ماری گئیں جس کے نتیجے میں وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔

•ستمبر 1975 میں دو خواتین نے صدرجیرالڈ فورڈ پر 17 دنوں میں دو حملے کیے تاہم وہ محفوظ رہے۔

• 1981 میں صدر رونلڈ ریگن پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ ایک تقریب میں شرکت کے بعد واشنگٹن کے ہلٹن ہوٹل سے باہر نکل رہے تھے۔ اس حملے میں رونلڈ ریگن شدید زخمی ہوئے اور 12 دن ہسپتال میں ہی رہے۔ علاج کے دوران ریگن ہنسی مذاق کرتے دکھائی دیتے جس سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ ریگن کے حملہ آور جان ہنکلی کو 2022 میں غیر مشروط رہائی دے دی گئی۔

امریکی معاشرے میں اندھی نفرت و عقیدت پر مبنی تقسیم بھڑکانے میں ٹرمپ کا کلیدی کردار رہا۔ 2020 ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج انہوں نے مسترد کرتے ہوئے اپنے جنونی حامیوں سے ”انتخابی دھاندلی“ کے نام پر 6 جنوری 2021 کو واشنگٹن میں پارلیمان پر حملہ کرایا۔ عمران خان پاکستانی معاشرے میں ٹرمپ کی طرح ایسی ہی نفرت و عقیدت کی تقسیم کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ اور خان کی سیاست کا انداز یکساں ہے۔ عمران خان کو ٹانگ پر گولی لگی اور ٹرمپ کو کان پر ۔ دیکھیں ٹرمپ، خان صاحب کی ٹانگ پر پلستر کا شش ماہی ریکارڈ توڑتے ہیں یا اس میں ناکام رہتے ہیں۔ مقدمات دونوں کے خلاف عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ ان دونوں کی قسمت میں اور کیا کیا یکساں لکھا ہوا ہے۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے :

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

ٹرمپ کو امریکہ کی سفید فام اکثریت پسند کرتی ہے تو خان کو نوجوانوں کی اکثریت۔ دونوں ”اکھڑ پن“ کو اپنے جذبات کی حقیقی ترجمانی سمجھتے ہیں۔ امریکہ کا عام (سفید فام) آدمی سمجھتا ہے کہ امریکی اشرافیہ اس کی مشکلات کی ذمہ دار ہے۔ امریکی کمپنیاں ملک میں صنعتیں لگانے کے بجائے چین، ویت نام، بھارت اور میکسیکو جیسے ممالک میں سستی اجرت پر میسر لیبر کو استعمال کرتے ہوئے سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ تارکین وطن جیسے سستے مزدوروں کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے بند ہیں۔ عمران کا نشانہ بھی بظاہر اشرافیہ ہی ہے۔ دونوں اس نفرت کو نہایت ہوشیاری سے استعمال کر رہے ہین۔ اور اشرافیہ کے خلاف نفرت بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ نے عوام کو Magaکا نعرہ دیا۔ (میک امریکہ گریٹ اگین ) اور خان نے تبدیلی اور نئے پاکستان کا ۔ دونوں خود کو ”ڈیپ اسٹیٹ“ کے نقاد کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ جس کی بدولت لوگ انہیں انقلابی لیڈر گردانتے ہیں۔ 6 جنوری 2021 ء کو ٹرمپ کے حامی امریکی کانگریس کی عمارت پر حملہ آور ہوئے تو عمران خان کے حامیوں نے 9 مئی بپا کر کے وہی رویہ اپنایا۔

ٹرمپ کاروباری آدمی ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین پر رکیک حملے کرنے سے نہیں چوکتے۔ اس تناظر میں ٹرمپ قاتلانہ حملے کے بعد اس بار بھی اپنے حامیوں کو اشتعال دلا سکتے تھے مگر انہوں نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ قاتلانہ حملے کے بعد سازشی تھیوریاں پھیلائی گئیں۔ کچھ لوگ ابھی بھی ایسی سازش کا کھرا ڈھونڈ رہے ہیں جو عوام میں یہ تاثر پھیلائے کہ ”ڈیپ اسٹیٹ“ کے ایک گروہ نے ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی مگر ٹرمپ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ رویہ اختیار نہ کرتے تو امریکہ خوفناک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جاتا۔ اندھی نفرت و عقیدت میں تقسیم معاشروں کو ذمہ دار قیادت ہی انتشار، ابتری اور خانہ جنگیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ کیا ٹرمپ کے اس رویے سے ہمارے خان صاحب بھی کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس کریں گے؟ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ دنیا بھر کی بڑی خبر بنا تو ہمارے اینکر پرسنز بھی پیچھے نہیں رہے انہوں نے پروگرام کر ڈالے کہ ٹرمپ بھی گریٹ خان کی طرح بہادر ہے۔ اس نے بھی قاتلانہ حملے کے بعد گریٹ خان کی طرح ہوا میں مکّہ لہرایا۔ ٹرمپ نے و اقعتاً بہادری کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ کسی جلسے یا انتخابی پروگرام کو منسوخ کرنے کے بجائے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ اینکرز بھول گئے کہ خان نے، مکہ ضرور لہرایا مگر کئی گھنٹوں بعد وہ بھی ہسپتال میں صحافیوں کے سامنے۔ اپنا مارچ بھی فوراً ملتوی کر دیا جو آج تک نہ ہو سکا۔ خان جی نے خود کو زمان پارک میں محصور کر لیا۔ وہ عشاق کو دیدار سے محروم رکھتے، عدالت میں پیشی کے موقع پر بالٹی کے ذریعے پردہ نشینی جاری رہی۔ یہ جادو 9 مئی کو اس وقت ٹوٹا جب خان صاحب اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے وقت وھیل چیئر پر بالٹی اوڑھے تشریف فرما تھے کہ گرفتار کرنے والے آ گئے۔ ایک اہلکار نے بالٹی اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ دوسرے نے وہیل چیئر سے اٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ یک دم کھڑے ہو گئے اور معجزاتی طور پر دوڑتے ہوئے گاڑی میں جا بیٹھے۔ اب وہ جیل سے آئے دن لفظی بہادری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ٹرمپ نے ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے متعارف ہونے کے بعد 2016 ء کا صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کی اکثریت نے آخری لمحات تک سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن وہ ہیلری کلنٹن جیسی کہنہ مشق سیاستدان کو شکست دے کر وائٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ جبکہ خان ایمپائر کی انگلی اور ڈیپ سٹیٹ کے الیکٹیبلز کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور اب بھی ”براہ راست“ مذاکرات کے خواہاں ہیں گویا:

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments