پنڈی جو اک شہر ہے
اپنے پنڈی وال دوستوں میں راجہ رجب کی ایک نمایاں حیثیت ہے۔ ہم تمام دوست دوسری جگہوں سے آ کر راولپنڈی میں مقیم ہوئے۔ لیکن ہم سب میں بڑے پنڈی وال راجہ رجب ہی ہیں کیونکہ آپ کا آبائی تعلق بھی ضلع راولپنڈی سے ہے۔ والد راجہ لہرا سب 1965 کی جنگ کے تقریباً چھ ماہ بعد تحصیل کہوٹہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے اور ایک رشتہ دار کی مدد سے بوہڑ بازار میں پرانی کتابوں کی ایک دکان کھولی۔ کچھ عرصہ بعد قریب ہی کرائے کا ایک مکان لے کر بیوی بچوں کو بھی لے آئے۔ راجہ رجب کو ٹرنک بازار میں فیض الاسلام سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ میٹرک کے بعد بی اے تک تعلیم انہوں نے گورڈن کالج سے حاصل کی اور پھر کلکتہ دفتر میں کلرک بھرتی ہو گئے۔ یہیں سے کلاس ون افسر کے طور پر چند سال قبل پنشن یاب ہوئے۔
راولپنڈی، اردو ادب اور فلم آپ کے تین عشق ہیں۔ پرانی پنڈی کی باتیں کرنے جب بیٹھتے ہیں تو ادب اور فلم کا ذکر بھی آ جاتا ہے اور
ع۔ کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تیری آئی۔ کا سماں ہوتا ہے۔
ہم پرانے شہر کے باسی تھے۔ مرکزِ شہر راجہ بازار ہم سے ایک آدھ کوس دور تھا۔ دوپہر کے بعد شہر میں سینماؤں کی وجہ سے رونق شروع ہو جاتی تھی۔ سوائے خورشید اور تاج محل سینما کے باقی سارے سینما تقریباً قریب قریب واقع تھے۔ ان سینماؤں میں نئی فلمیں لگنے پر بلیک کی ٹکٹوں کا کاروبار چمک اٹھتا تھا۔ تاج محل سینما کو چھوڑ کر یہ کام ہر سینما کے باہر دھڑلے سے ہوتا تھا۔ تاج محل سینما میں وہاں کے ایک ملازم جس کا نام خواجہ تھا اور جثے سے بدمعاش دکھتا تھا، کا ایسا دبدبہ تھا کہ کھڑکی کے سامنے سیدھی تیر قطار بنی ہوتی تھی اور ہر کوئی کھڑکی سے ٹکٹ حاصل کرتا تھا۔ بعد کی زندگی میں بھی اکثر اپنے ارد گرد کوئی بدمعاش چاہے خواجہ جیسا ہوا ہو یا عہدے اور حیثیت کی برکت سے طاقتور ٹھہرا ہو، ہر جا اسی کا سکہ چلتا دیکھا۔ سب سے کم قیمت والا ٹکٹ بارہ آنے کا ہوتا تھا۔ میں جو لڑکپن سے فلم بینی کی لت میں مبتلا تھا، اسی درجے کے ٹکٹ کے ساتھ فلم دیکھا کرتا تھا۔
مری روڈ اور لیاقت روڈ کے ملاپ والے مقام پر لیاقت باغ واقع تھا۔ اس کے تین نمایاں حصے تھے۔ ایک جلسہ گاہ، ایک لاری اڈہ اور ایک وہ حصہ جہاں مداریوں اور تماشا گروں کا دن بھر راج رہتا تھا۔ اسی حصے میں چھوٹی عید کے موقع پر ایک میلہ لگتا تھا۔ اسی میلے کے تھیٹروں میں، میں نے پہلے پہل عنایت حسین بھٹی، سائیں اختر اور عالم لوہار کو دیکھا تھا۔ بہت بعد میں عید پہ ایک میلہ سینٹرل ہسپتال سے ملحقہ گراؤنڈ میں بھی لگنے لگا تھا جہاں کی تماشا گاہوں میں سب سے مشہور و مقبول لکی ایرانی سرکس تھی۔
لیاقت باغ کے ایک حصے میں لیاقت میموریل ہال واقع تھا جس سے میری دو یادیں وابستہ ہیں۔ ایک تو بھٹو صاحب کے اقتدار کے ابتدائی دور کی ہے جب ایک چینی طائفے نے یہاں فن کا مظاہرہ کیا تھا اور آخر میں پورے طائفے نے اس دور کا مقبول ترین قومی گیت۔ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد، گا کر سب کو حیران اور پر جوش کر دیا تھا۔ بہت سالوں بعد دوبارہ وہاں تب جانا ہوا جب خواجہ معین الدین کے انوکھے خیال پر مبنی ڈرامہ، غالب بندر روڈ پر، یہاں پیش ہوا۔ ڈرامے میں سبحانی بایونس کے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ قاضی واجد نے مداری کا کردار بہت مہارت سے نبھایا۔
والد صاحب کی پرانی کتابوں کی دکان اور کافی تعداد میں سینماؤں کے قرب و جوار میں واقع ہونے کی وجہ سے ادب اور فلم سے لڑکپن میں ہی لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ کالج میں داخلے تک میں نے اردو کے تمام بڑے لکھاریوں کو کافی حد تک پڑھ لیا تھا۔ ان میں مجھے سب سے زیادہ کرشن چندر نے متاثر کیا تھا۔
راجہ بازار کے سینماؤں میں زیادہ تر پنجابی فلمیں لگتی تھیں اور میں انہیں بڑی چاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ امپیریل سینما جس کی جگہ اب آپ امپیریل مارکیٹ دیکھتے ہیں پہ لگنے والی فلم ضدی نے کھڑکی توڑ رش کھینچا تھا۔ مجھے یہ فلم اس قدر پسند آئی تھی کہ میں نے اسے دو بار دیکھا۔ اب بھی جب اس کے گیت سنتا ہوں تو ماسٹر عبداللہ کی رسیلی دھنوں پہ جھوم جھوم جاتا ہوں۔ یاد آیا فلم کا پہلا گیت، چھڈ میری وینڑیں نہ مروڑ، کوٹھے کا گیت تھا۔ ایسے ہر گیت کی دھن میں ماسٹر عبداللہ صرف کوٹھے کے روایتی ساز ہارمونیم طبلہ اور سارنگی کا استعمال کرتے ہوئے کمال کا آہنگ تخلیق کرتے تھے۔
مری روڈ پہ واقع سارے سینما ماسوائے ناز سینما کے میری یاد میں تعمیر ہوئے۔ کالج کے دور سے قبل مری روڈ کی طرف کم کم ہی جانا ہوتا تھا۔ ہاں من چاہے گیت سننے کے لیے راجہ بازار کے مقبول ہوٹل کے ساتھ ساتھ تیلی محلہ سے مکھا سنگھ سٹیٹ کو جاتی سڑک پہ واقع ممتاز کیفے کا بھی کبھی کبھی چکر لگتا تھا۔ وہاں ایک کپ چائے کے آرڈر کے ساتھ چٹ پر اپنی پسند کا گیت لکھ کر بیرے کے ہاتھ کاؤنٹر پر بھیجتے تھے۔
ریستورانوں میں کھانا کھانے کا رواج عام نہیں تھا البتہ سردیوں میں کمیٹی چوک میں قائم مچھلی فروشوں کا کاروبار خوب چمکا ہوتا تھا۔
ہماری میٹرک کے طالب علمی کے زمانے میں تیلی محلہ کو میٹھے کی دو دکانوں کے قیام سے بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ ان میں ایک مٹھائی کی دکان قصرِ شیریں تھی جو کچھ پہلے قائم ہوئی اور دوسری گراٹو جلیبی کی دکان۔ یہ اس قدر مشہور ہوئی کہ بعد میں اس کے دائیں بائیں اسی نام سے دو چار دکانیں اور کھل گئیں۔ ہم دوست اردو بازار اور صرافہ بازار سے ہوتے ہوئے گراٹو جلیبی کھانے پیدل جایا کرتے تھے اور واپسی پہ سرکلر روڈ، بنی اور جامع مسجد روڈ کا راستہ اختیار کرتے تھے۔
تاج محل سینما جو شہر کو کینٹ سے ملانے والے مشہور پوہڑی پل سے تھوڑا ادھر لئی نالہ کے بائیں کنارے سے ذرا ہٹ کے واقع تھا وہاں اور کوتوالی سے ملحق کشمیری بازار کے آخر میں واقع ناولٹی سینما پہ کم کم ہی جایا جاتا تھا۔ ناولٹی سینما کے بعد رتہ امرال کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا جس کے بدمعاشوں کا پوری پنڈی میں شہرہ تھا۔
۔ جاری ہے۔
- پنڈی جو اک شہر ہے (5) - 11/09/2024
- پنڈی جو اک شہر ہے۔ 4۔ - 03/09/2024
- 3: پنڈی جو اک شہر ہے - 22/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).