پکاسو کی گارنیکا (Guernica)!


رائنا صوفیہ ہمارے سامنے تھا، سپین کا نیشنل میوزیم!

ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہمارے دوست احباب ہماری اس محبت پہ بہت حیران ہوتے ہیں جو ہم میوزیمز میں پہروں گھوم کر محسوس کرتے ہیں۔ پیسے خرچ کر کے پینٹنگز دیکھنا؟ کمال فضول خرچی ہے بھئی۔ اس سے اچھا ہے اس وقت میں کسی شاپنگ مال جا کر ان پیسوں کی شاپنگ کی جائے یا پھر اچھا سا کھانا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم یہ سن کر ہنس دیتے ہیں۔ منظور تھا پردہ تیرا!

میڈرڈ کے اس میوزیم کا نام سپین کی ملکہ صوفیہ کے تعلق سے رائنا صوفیہ رکھا گیا ہے اور اس میوزیم کی وجہ شہرت گارنیکا ہے جسے ہم دیکھنے کے اشتیاق میں صبح صبح رائنا صوفیہ کے دروازے پر کھڑے تھے۔

کیا ہے گارنیکا؟

بارہ بائی پچیس فٹ کے کینوس پر بنائی گئی آئل پینٹنگ گارنیکا جو شہرہ آفاق مصور پکاسو نے 1937 میں بنائی۔ پینٹنگ کئی وجوہات کی بنا پر دنیائے آرٹ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اینٹی وار پینٹنگ کہلاتی ہے یہ، اور سپین کی سول وار کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔

پکاسو انیس سو سینتیس میں پیرس میں مقیم تھا اور اس وقت اس کے تعلقات مشہور فرانسیسی فوٹوگرافر شاعرہ ڈورہ مار کے ساتھ تھے۔

سپین میں جنرل فرانکو کی حکومت تھی اور سپین میں خانہ جنگی چل رہی تھی۔ لوگ جنرل فرانکو کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جنرل فرانکو اور نیشنلسٹ ساتھیوں کی ایما پر جرمنی اور اٹلی کے بمبار طیاروں نے سپین کے ایک قصبے گارنیکا پر حملہ کیا۔ قصبے کے مرد خانہ جنگی کے نتیجے میں مختلف محاذوں پر لڑائی میں مصروف تھے اور قصبے میں صرف عورتیں اور بچے موجود تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں سب عورتیں، بچے اور جانور مارے گئے اور قصبہ کھنڈر بن گیا۔

ڈورا مار فوٹوگرافر ہونے کے ساتھ ساتھ اینٹی فاشسٹ سرگرمیوں میں بھی ملوث تھی سو گارنیکا کی تباہی کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر اسی نے کھینچیں جو فرانس کے روزنامے L ’Humanité میں چھپیں اور انہیں پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔

ان تصاویر کی مدد سے ہی اس نے پکاسو کو جنگ کے خلاف پینٹنگ بنانے پر راضی کیا اور پکاسو نے پیرس میں رہتے ہوئے چھتیس دنوں میں یہ پینٹنگ مکمل کی۔ اس سے پہلے پکاسو نے کبھی سیاسی منظر نامے کو پینٹ نہیں کیا تھا سو پکاسو کی پہلی سیاسی پینٹنگ کا سہرا بھی ڈورا مار کے سر بندھا۔

بلیک، گرے اینڈ وائٹ رنگوں سے مزین ”گارنیکا“ میں چار عورتیں، ایک بچہ، ایک سپاہی، بھینسا اور گھوڑا دیکھے جا سکتے ہیں۔ چار عورتیں سسکتی، روتی، فریاد کرتی۔ مردہ بچہ ایک عورت کی گود میں ہے جس نے فریاد کرتے ہوئے سر پیچھے کیا ہوا ہے۔

پینٹنگ کے مرکز میں ایک گھوڑا گرا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے بالکل نیچے ایک سپاہی کا مڑا تڑا جسم فرش پر پڑا ہے اس کے ایک ہاتھ میں ٹوٹا ہوا خنجر ہے۔

Picasso – Dora Marr

گھوڑے کی دائیں جانب ایک اور عورت نظر آتی ہے جو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے خوفزدہ ہے۔ پاس ہی تیسری عورت قریب بلب کی طرف بے تاثر چہرے کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ چوتھی عورت کا پھیلا ہوا بازو اور کھلا ہوا منہ عندیہ دیتا ہے کہ وہ بین کر رہی ہے۔ وہ چاروں طرف پھیلی آگ میں گھر چکی ہے۔ پینٹنگ کے وسط میں بنائے گئے بھینسا اور گھوڑا سپینش کلچر کا اہم حصہ ہیں۔

گارنیکا نے دنیا بھر میں سپین کی خانہ جنگی کی طرف توجہ مبذول کروائی اور یہ جنگوں کے خلاف ایک استعارے کی شہرت رکھتی ہے۔ کئی برس کے بعد جنرل فرانکو نے اسے سپین منتقل کرنے کی پیش کش کی مگر پکاسو نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک جمہوری حکومت قائم نہیں ہو گی، گارنیکا سپین منتقل نہیں ہو سکتی۔

گارنیکا 1981 میں سپین لائی گئی اور اسے میڈرڈ میں پراڈو میوزیم میں نمائش پر رکھا گیا۔ پہلے برس تقریباً دس لاکھ لوگوں نے اس دیکھا۔ 1992 میں اسے رائنا صوفیہ میوزیم میں منتقل کیا گیا جسے بیسویں صدی میں بننے والے آرٹ کے لیے بنایا گیا تھا۔

تیس برس تک رائنا صوفیہ میوزیم نے اس پینٹنگ کی تصویر کھینچنے پہ پابندی لگائے رکھی اور جناب یہ پابندی اٹھی ہماری سیاحت کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد ۔ ہمیں کچھ افسوس تھا کہ ہم پینٹنگ کی تصویر نہ لے سکے البتہ یہ خوشی بھی تھی کہ ہمارے وہاں پہنچنے کی تاریخوں میں کچھ تو ایسا ہوا کہ ہمارا وزٹ یادگار بن گیا۔

رائنا صوفیہ میں گارنیکا دیکھنے سے جی نہیں بھرتا تھا۔ معصومیت، بے بسی اور ظلم کا امتزاج مجسم تھا اور ان سب کے متعلق دل اداس ہوتا تھا جو ویران راہوں میں مارے گئے۔

اداسی کے ان لمحات میں ہمیں ایک لڑکی یاد آ گئی جو بچپن میں اندلس کی کہانی پڑھتی تھی اور سوچتی تھی کہ میں کب وہاں پہنچوں گی؟ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مستنصر کے سفرنامے ”اندلس میں اجنبی“ کا ہاتھ شامل تھا ہمارا شوق مہمیز کرنے میں جو جہاں گردی کا باعث بنا۔ گو کہ ”اندلس میں اجنبی“ میں رائنا صوفیہ کا ذکر نہیں ہے کہ یہ بنا ہی بہت بعد میں تھا مگر اٹھارہویں صدی میں بنے پراڈو میوزیم پر بھی توجہ نہیں دی گئی جس میں بارہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک کا آرٹ موجود ہے۔ مستنصر کو میڈرڈ انتہائی بورنگ لگا، پراڈو بھی وہ ایک خاتون سیاح کے اصرار پر گئے اور پراڈو کے ذکر کو انہوں نے آدھے صفحے میں انتہائی سرسری انداز میں نمٹا دیا۔

لکھتے ہیں،

”آج میڈرڈ میں قیام کا چوتھا روز تھا۔ پہلے دو روز تو ہوسٹل کی روایات کے مطابق گزرے یعنی دن بھر ہوسٹل میں اونگھنا اور پھر کاسادے کامپو کے وہرہ خانے میں رت جگا۔ تیسرے روز فہرست بنا کر میڈرڈ کے تمام قابل دید مقامات کو بھگتایا۔ میڈرڈ کے بارے میں ٹونی کے تاثرات سو فیصد درست ثابت ہوئے تھے، بے جان اور ڈل سا شہر۔ پچھلے چار روز سے میرے جیسے ٹرگر ہپی کے سامنے ایک بھی عمارت ایسی نہیں آئی تھی جسے دیکھ کر کیمرے کا بٹن دبانے کو جی چاہے ”

ہمارا تجربہ اس سے مختلف رہا۔ شاید ہر سیاح کی روح اور آنکھ اسے وہ دکھاتی ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ابھی تو بہت کچھ باقی ہے رائنا صوفیہ میں۔ اس سے پہلے کہ ہم گارنیکا ہال سے باہر نکلیں ایک دلچسپ واقعہ سنا دیتے ہیں۔ پکاسو کی رہائش گاہ پہ گارنیکا کی تصویر دیکھ کر ایک جرمن فوجی نے پوچھا کیا یہ تم نے بنائی ہے؟ پکاسو نے کہا ؛ نہیں تم نے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments