پنڈی جو اک شہر ہےـ 2-
راجہ رجب عمرِ رفتہ کا ذکر جاری رکھے ہوئے تھے۔
میرے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں شہر میں بھکاری ڈھونڈنے پہ بھی نہیں ملتے تھے۔ ہمارے محلے میں مہینے دو مہینے بعد باری باری دو فقیر آیا کرتے تھے۔ ایک تو بڑے کرو فر سے گھوڑے پہ سوار آتے تھے۔ داڑھی مونچھ ندارد۔ بس اپنی دھن میں گلی گلی چکر لگاتے۔ کوئی علیک سلیک کرے تو جواب دیتے مگر مزید بات چیت نہیں کرتے تھے۔ دوسرے سفید ریش تھے۔ اک تارہ بجاتے ہوئے واقعہ کربلا کے اشعار گاتے پھرتے تھے۔ ان میں سے ایک مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب مدینے سے حسینی قافلہ جاتا رہا۔
ان دونوں کو لوگ اپنی خوشی سے کچھ دے دیں تو ٹھیک، وہ مانگتے نہیں تھے۔
گشتی سودہ فروش بھی بڑے مقبول ہوتے تھے۔ جب گھر سے ملے ہوئے جیب خرچی کے پیسے پاس ہوں تو بچوں کو کھوئے ملائی والے اور سر پر ٹین کا بکسہ رکھے بیکری کا سامان بیچنے والوں کا عید کے چاند کی طرح انتظار ہوتا تھا۔
میرے کالج کے دور میں جب پی این اے کی تحریک چلی تو اس میں پنڈی کے دو مولانا حضرات، مولانا غلام اللہ خان اور عارف اللہ شاہ قادری پیش پیش تھے۔ یہ دونوں دیو بندی اور بریلوی فرقوں کے مہان مانے جاتے تھے اور مشہور تھا کہ ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن تحریک کے دنوں میں شاید دکھاوے اور پیروکاروں کے اطمینان کے لیے انہوں نے خال خال ایسا کرنا شروع کر دیا تھا۔
پنڈی میں اس تحریک کی مرکزی قیادت کے جلسے کمیٹی چوک پہ منعقد ہوا کرتے تھے۔ شہر کی اصل جلسہ گاہ لیاقت باغ کو اکثر نظر انداز کر کے اس جگہ کا انتخاب جلسے کے بڑا اور بھرپور ہونے کے تاثر کی خاطر کیا جاتا تھا۔
کالج کے زمانے میں مجھے کسی نے بتایا کہ بوہڑ بازار کے قریب ہی ایک محلہ میں بلراج ساہنی کا وہ گھر واقع ہے جہاں وہ، ان کے بھائی اور باقی خاندان تقسیم تک مقیم رہے۔ میں ان کے کام سے کچھ ایسا واقف نہیں تھا لیکن بعد میں جب فلم گرم ہوا میں ان کام دیکھا تو ان کا گرویدہ ہو گیا۔ فلم کے اختتامی حصے میں جب حالات سے تنگ آ کر تانگے پر سوار وہ بیوی اور بیٹے کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرنے کی غرض سے آگرہ ریلوے سٹیشن کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں تو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ایک جلوس میں گھر جاتے ہیں۔ اور یوں ارادہ بدل دیتے ہیں۔ اس موقع پر پس منظر سے کیفی اعظمی کی آواز ابھرتی ہے۔
جو دور سے کرتے ہیں طوفاں کا نظارہ
ان کے لیے طوفان وہاں بھی ہے یہاں بھی
دھارے میں جو مل جاؤ گے بن جاؤ گے دھارا
یہ وقت کا اعلان وہاں بھی ہے یہاں بھی
یہ بات کہنے والے کیفی اعظمی اکیلے نہیں تھے بلکہ ابوالکلام آزاد، خسین احمد مدنی اور کئی اور مسلم زعما بھی اس نظریے کے پرچارک تھے۔ افسوس کہ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار کے سنگھاسن تک رسائی کے لیے تفریق کو نمایاں کرنے کا ایسا چلن ڈالا کہ۔
ع۔ کسی بتکدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔
بات کہیں اور نکل گئی، میرا تو یہ ماننا ہے کہ گرم ہوا میں بلراج ساہنی اور کرتار سنگھ میں علا الدین کے پائے کی اداکاری بڑے بڑے ناموں کے ہاں بھی کبھی دیکھنے کو نہ ملی۔
جامع مسجد کے علاقہ میں اہلِ حدیث کی مسجد کے ارد گرد لنڈے کی دکانیں اگرچہ سارا سال ہی آباد رہتی تھیں لیکن سردیوں میں دکانداروں کا کاروبار خوب چمک اٹھتا تھا۔ پاس ہی پرانا قلعہ تھا جہاں بہار کی آمد پہ پتنگیں اور ڈور خریدنے پنڈی بھر سے شائقین آتے رہتے تھے۔ جامع مسجد سے پرانے قلعے کی چڑھائی کی طرف مڑتے ہی چھوٹی بڑی رنگ برنگی بے شمار پتنگیں اور تکل دکانوں اور کھوکھوں کے باہر لٹکی بڑی دلکش دکھتی تھیں۔ بہار کی آمد پہ پنڈی میں خوب خوب پتنگ بازی ہوتی تھی لیکن اسے تہوار کے طور پر بسنت کے نام سے نہیں پکارا جاتا تھا۔ یہاں ایک بات یاد آئی۔ عوامی تہواروں کو ہمارے شعراء نے اپنے گیتوں میں ایسے ایسے سمویا اور پرویا ہے کہ داد نہ دیں تو بہ تنگیِ چشم حسود کا طعنہ سننا پڑے۔ ایسی ہی ایک مثال فریحہ پرویز کی آواز میں پی ٹی وی کی پیشکش وہ گیت یاد کیجیئے جس کا مکھڑا تھا۔
پتنگ باز سجناں سے۔
بی اے کے بعد مجھے جلد ہی نوکری مل گئی، راجہ جی نے بات جاری رکھی۔ مجھے یہ نوکری ملٹری اکاؤنٹس کے آفس میں ملی جو عرف ِعام میں کلکتہ دفتر کہلاتا تھا۔ یہ دفتر صدر مارکیٹ میں واقع تھا اور یہاں ایف اے، بی اے پاس نوجوانوں کو کلرکی وغیرہ کی نوکری تقریباً آسانی سے ہی مل جاتی تھی۔
اپنی کتاب ”راول دیس“ میں عزیز ملک نے اس دفتر کا تعارف بڑے دلچسپ انداز سے کرایا ہے۔
” انیسویں صدی کے ربع آخر میں اس عمارت کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ دیواریں اٹھیں تو دفتر کے مکیں بھی آ گئے۔ میرا اشارہ ہندو بنگالی بابوؤں کی طرف ہے۔ اصل میں وہ بنگالی بابو ہی کا دور تھا۔ بیڑی تمباکو کے رسیا اپنے دھواں دھواں سے چہروں کے ساتھ عشق پیچاں کی مانند سرکارِ برطانیہ کے تمام دفتروں پر چھا چکے تھے۔ اتر، پچھم، دکن اور پورب کا ہر قریہ ان کی سیر گاہ بنا ہوا تھا۔ ہگلی کی گود سے اٹھ کر یہ سوکھے ساکھے بابو لوگ اقصائے ملک تک ہر اس جگہ پہنچ جاتے جہاں ریل گاڑی انہیں لے جا سکتی۔ چنانچہ حساباتِ فوج کے دفتر کی پہلی کھیپ بھی بنگال ہی سے آئی۔ یہ لوگ اتنی تعداد میں آئے کہ ان کی وجہ سے ملٹری اکاؤنٹس آفس کا نام کلکتہ دفتر پڑ گیا۔ ان کلرکوں کی بڑی تعداد دفتر کے سامنے واقع محلہ میں آباد ہوئی تو یہ بابو محلہ کہلانے لگا جو اب بھی اسی نام سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔“
کلکتہ دفتر میں بابو کی نوکری پانے والے بہت سے نوجوان بعد میں ذرا بہتر نوکری ملنے پر یہاں سے چلے جاتے تھے لیکن میرے ساتھ ایسا اتفاق نہ ہو پایا۔ میں نے یہاں تیس سال نوکری کی زیادہ عرصہ پنڈی میں رہا۔ ایک بار اٹک اور دو بار جہلم میں تعیناتی ہوئی۔ اس نوکری کے خوشگوار تجربوں میں سے ایک شاعر عبدالحمید عدم کو قریب سے دیکھنا بھی تھا۔ وہ ہمارے سینئر افسر تھے۔ دارو سے ان کے دیوانہ وار لگاؤ کے قصے کلکتہ دفتر کا فسانہِ عام تھے۔ عدم کی شہرت اگرچہ شاعرِ خرابات کے طور پر تھی لیکن معرفت کا یہ مضمون جیسے انہوں نے باندھا، مانیے کہ اخیر کر دی۔
بس اقرارِ سجدہ میری کائنات
جبینیں تیری آستانے تیرے
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ خرابات کے بعض شعرا کے ہاں نعت کا کبھی ایسا اجلا شعر ملتا ہے کہ بے مثل و یکتا۔
سراج الدین ظفر کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
ریاضِ مدحِ رسالت میں راہوارِ غزل
چلا ہے رقص کناں آہوئے صبا کی طرح۔
(جاری ہے۔)
- پنڈی جو اک شہر ہے (5) - 11/09/2024
- پنڈی جو اک شہر ہے۔ 4۔ - 03/09/2024
- 3: پنڈی جو اک شہر ہے - 22/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).