ریاست جاورہ


ریاست جاورہ ( Joara) ہندو مسلم دوستی کے لیے مشہور پختون نواب کی ریاست جہاں کئی سو سال پرانا تعزیہ بھی موجود ہے۔ جنوں اور بھوتوں سے نجات حاصل کرنے کی ایک درگاہ ہماری ٹرین رتلم سے روانہ ہوئی تو اس وقت رات کے بارہ بج چکے تھے۔ میرے سوا سب لوگ سو رہے تھے۔ میں بھی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ میں نے پڑھا کہ اس علاقہ میں ایک ریاست ایسی بھی تھی جس کے حکمران افغان تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر ایک بہت ہی قدیمی امام بارگاہ بھی ہے جہاں دو سو سال پرانا تعزیہ بھی نکالا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ شہر ہندو مسلم اتحاد کے حوالے سے بھی بے حد مشہور ہے۔ اس مسلمان ریاست کا ایک مختصر احوال پیش خدمت ہے۔
ہندوستان میں ریاستیں کیسے بنتی تھیں؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کے جواب کی تلاش میں مجھے ایک عرصہ لگ گیا۔ مختلف ریاستوں سے متعلق جاننے کے بعد مجھے اس کا جواب ملا۔ ہندوستان میں ایک مغل سلطنت تھی۔ جب یہ سلطنت کمزور ہوئی تو اسی کے مختلف علاقوں میں متعین گورنروں نے اپنے علاقے میں خود مختاری کا اعلان کر دیا اور یوں ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ ریاست حیدر آباد اسی کی ایک مثال ہے۔ جب یہ ریاست بھی کمزور ہوئی تو اس میں سے بھی ایک نئی ریاست نے جنم لیا۔ انگریزوں کے دور میں انھوں نے یہ کام شروع کیا کہ وہ ایک بڑی ریاست بناتے اور بعد میں کسی سے خوش ہو کر اس ریاست کا کچھ حصہ اسے دے دیتے۔ اس کی ایک مثال ریاست جاورہ ہے۔ اس ریاست کا راجہ اندور کے راجہ کا ایک ماتحت تھا۔ انگریزوں نے انھیں پندرہ سو مربع کلومیٹر کا ایک علاقہ دے کر نئی ریاست بنا دی۔ اندورکا راجہ مراٹھوں کا ایک جرنیل تھا اسے مراٹھوں سے الگ کر کے ایک ریاست بنا کر دی گئی۔ مراٹھوں اور نظام کے درمیان ایک معاہدہ کروا کر مراٹھا ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ اس طرح ہندوستان میں پانچ سو سے زائد ریاستیں وجود میں آئیں جو سب انگریزوں کی طفیلی ریاستیں تھیں۔ انھیں کسی حد تک داخلی خود مختاری تو تھی لیکن خارجی معاملات کے لیے وہ انگریزوں کی ہر بات ماننے کے پابند تھے اور جنگ کی صورت میں انگریزوں کی مالی اور افرادی امداد کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔


ہندوستان کی تاریخ جاننے کے لیے ایک بہت ہی مفید سلسلہ The Imperial Gazetteer of India کے نام سے انگریزوں نے شروع کیا اور اسے آکسفورڈ پریس سے چھاپا۔ اس کے کئی مجموعے ہیں۔ ان مجموعوں میں مختلف علاقوں اور ریاستوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اس کے ایک مجموعہ جس کا پورا نام کچھ یوں ہے The Imperial Gazetteer of India Jaisalmer to Kara Volume: XIVجو 1908 ء میں شائع ہوا میں بڑی تفصیل سے ریاست جاورہ کے متعلق لکھا ہوا ہے۔ اس کے مطابق ریاست جاورہ کی بنیاد عبدالغفور محمد خان نے رکھی۔ عبدالغفور محمد خان ایک مقامی سردار کی فوج میں کیولری افسر تھے۔ کسی دور میں وہ ہولکر مہاراجہ کی ملازمت بھی کرتے تھے۔ ان کی وفاداری سے خوش ہو کر برطانوی حکومت نے 1818 ء میں ایک معاہدے کے تحت نواب کو مالوا کے کچھ علا قے دے دیے اور ان علاقوں سے خراج وصول کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اس ریاست کے نواب کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب بھی انگریزوں کو ضرورت ہو گی یہ ریاست پانچ سو گھوڑوں، پانچ سو پیادہ سپاہی اور چار توپیں مہیا کرے گی۔ ایک وقت آیا جب نواب محمد اسماعیل خود ہی فوج میں بطور اعزازی میجر بھرتی ہو گیا۔ انگریزوں نے ایک مرتبہ پھر اس ریاست کی تقسیم کی اور 1924 ء میں ایک علیحدہ ریاست بنا دی لیکن جلد ہی انگریزوں نے اس نئی ریاست کی حیثیت ختم کر کے اسے برٹش انڈیا میں شامل کر لیا۔ نواب محمد عثمان علی خان تقسیم ہند کے وقت اس ریاست کے آخری حکمران تھے۔


یہ خاندان بنیادی طور پر تاجک خیل قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ انھوں نے یوسف زئی قبیلے میں شادیاں کیں اور ایک مدت تک وادی سوات میں آباد رہے۔ بہتر مستقبل کی خاطر اس قبیلے کا سردار عبد الماجد خان، محمد شاہ کے دور حکومت میں ہندوستان آ گیا۔ اس نے نواب زبیتا خان (جس کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے تھا) کے ہاں ملازمت کر لی اور وہ اس کا معتمد اور مشیر بن گیا۔ یہ لوگ بہادر بھی تھے اور سمجھدار بھی۔ انھوں نے علاقے میں موجود مختلف نوابوں اور راجاؤں کی ملازمتیں کیں۔ کچھ لوگ رام پور کے نوابوں کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ قسمت نے ساتھ دیا اور عبدالمجید خان کے پوتے نواب عبد الغفور خان، ٹونک کے روہیلہ نواب امیر خان کے کیولری کمانڈر بن گئے۔ اس طرح ترقی کے دروازے کھلنا شروع ہو گئے۔ ان کی بہادری کی وجہ سے انھیں اعلیٰ خطابات سے بھی نوازا گیا۔ آخر کار یہ خود نواب بن گئے۔ اس طرح وہ افغانستان سے آ کر اپنی بہادری، عقلمندی اور وفاداری کی بنیاد پے ہندوستان میں ایک ریاست کے حکمران بن گئے۔ انھوں نے پہلے مغل حکمرانوں کی وفاداری کا دم بھرا، پھر انگریزوں کا۔


محرم کے دنوں میں اس شہر میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا جاتا ہے اور لاتعداد مجالس کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے جن میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے ہزاروں افراد یہاں کے ایک مشہور بزرگ حسین ٹیکری کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ اس شہر میں جین مت کے ماننے والوں کی ایک اہم مذہبی عمارت بھی ہے۔ اس علاقے میں سب سے مشہور مقام حسین ٹیکری کا مزار ہے جو ڈیڑھ سو سال قبل جاورہ کے نواب محمد افتخار علی خان نے تعمیر کروایا۔ نواب محمد افتخار علی خان نے بھی اسی قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔ ماہِ محرم کے دوران، ہزاروں افراد یہاں امام حسین کے مزارات (جو عراق میں ہیں ) کی طرز پر بنائے گئے مزارات پر آتے ہیں۔ یہ مزار ذہنی بیماریوں کے علاج کے حوالے سے بے حد مشہور ہیں۔


یہاں پر ایک کہانی مشہور ہے کہ گھوڑوں پر کچھ لوگ اس علاقے میں آئے جن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ کربلا میں شہید ہونے والے افراد کی روحیں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں پر راتوں رات ان روحوں نے ایک تالاب بھی بنایا، جو پہلے کبھی موجود نہ تھا۔ اس مزار کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں بریلوی، شیعہ، سنی، حتیٰ کہ ہندو بھی جنات، بھوتوں اور بدروحوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ زائرین کا ایمان ہے کہ جنات اور بد روحیں مزار کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہیں اور مقبوضہ شخص کو چھوڑ دیتی ہیں۔


یہ ریاست بھی ان ریاستوں میں شامل ہے جہاں حکمران تو مسلمان تھے لیکن عوام کی اکثریت غیر مسلم تھی۔ اپنی جغرافیائی صورتِ حال کے سبب اس ریاست کے حکمران پاکستان کے ساتھ تو نہیں مل سکتے تھے لیکن آزاد ضرور رہنا چاہتے تھے۔ مگر وہ ایسا نہ کرسکے اور انھیں پاکستان کی بجائے اپنی مرضی کے خلاف چلتے ہوئے بھارت میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ اس ریاست کا پرچم پاکستان کے پرچم سے بہت حد تک ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments