ارشد ندیم کو انعامات، لیکن دوسرے بھی امداد کے مستحق


گزشتہ دو چار دنوں سے سوشل میڈیا میں پاکستان کے لیے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کے مالی حالات کو لے کر مثبت اور منفی پوسٹوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف جیولن تھرو میں ارشد کے کارنامے کی گونج اب بھی پاک بھارت سمیت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ چلو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ارشد ندیم کے مالی حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنے بیان کیے گئے پھر بھی ارشد کی کہانی اس مقابلے کا قصہ بیان کرتی ہے جب ایک چھوٹے سے علاقے سے نکلنے والا غریب نوجوان محض اپنے جنون کی بدولت اپنے ان حریفوں سے بازی لینے میں کامیاب ہو گیا جنہیں اس کے مقابلے میں کھیلوں کی خصوصی سہولیات حاصل تھیں۔ ارشد کی اس بے مثال کامیابی کے سفر کی روداد محض چند سطروں کی محتاج نہیں کہ اس سفر میں اس کی برسوں کی جستجو اور ناکافی سہولیات سے نبرد آزما ہونے کی داستان پوشیدہ ہے۔

ماضی میں کئی کھلاڑی ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے برسوں پہلے ارشد ندیم کی طرح ہی اولمپک یا دیگر مقابلوں میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر پاکستان کا نام روشن کیا تھا لیکن انہیں کبھی ان کا حق نہیں مل سکا۔ وہ بے چارے کسمپرسی کی زندگی گزار کر گمنامی کے اندھیروں میں ایسے گم ہوئے کہ ان کی بھولی بسری داستانیں ہی رہ گئیں۔ شکر ارشد کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا، جہاں ارشد کی کامیابی پر پوری قوم نے ایک ہو کر اپنے ہیرو کی کارکردگی پر خوشیاں منائیں وہیں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی پچھلے تمام گلے شکووں کا ازالہ کرتے ہوئے ارشد کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسے قومی اعزازات سمیت خطیر رقم سے بھی نواز دیا گیا ہے۔ صرف حکومت ہی نہیں ملک کے دیگر صاحب حیثیت افراد کی جانب سے بھی ارشد ندیم کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات کا سلسلہ جاری ہے۔

یوں کل تک غریب کہلانے والے کھلاڑی ارشد ندیم کا موازنہ ماشا اللہ اب کسی صاحب حیثیت پاکستانی کرکٹر سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ کرکٹر کی مثال دینے کی وجہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ میں کتنا پیسہ اور گلیمر ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کی حالیہ بدترین کارکردگی پر چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی صاحب نے دعوے کیے تھے کہ کھلاڑیوں کے سینٹرل کنٹریکٹ کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا اور اس میں کمی بھی کی جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یاد رہے پی سی بی قومی ٹیم کے اے کیٹگری میں شامل کھلاڑیوں کو ماہانہ تقریباً چالیس لاکھ روپے تک معاوضہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی میچ فیس اور لیگ کرکٹ کے ذریعے بے تحاشا پیسہ کما لیتے ہیں پھر چاہے وہ جیتیں یا ہاریں۔

یہاں ایک چیز اور توجہ طلب ہے کہ حکومت نے ارشد ندیم پر تو انعامات کی برسات کر دی جس کا بلاشبہ وہ مستحق ہے لیکن ابھی اور بہت سے کھلاڑی بھی حکومت کی امداد کے منتظر ہیں۔ اولمپک گیمز کے علاوہ ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز، جونیئرز گیمز جیسے دیگر مقابلے بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان کھیلوں میں بھی پاکستان کی جانب سے بہت سے مرد و خواتین کھلاڑی وطن عزیز کی نمائندگی کر کے پاکستان کا نام روشن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان تمام کھلاڑیوں میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے کہ ناکافی سہولیات اور خراب مالی حالات۔ سوچیے جب ملک کے قومی کھیل ہاکی کے کھلاڑی اپنے معاشی حالات کے سبب پریشان رہتے ہیں تو انفرادی کھیلوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کا کیا حال ہو گا۔ بہت سے کھلاڑی ایسے بھی ہیں جنہوں نے ساری عمر کوشش تو کی لیکن ارشد ندیم جیسی کامیابی اور شہرت حاصل نہ کر پائے اور اب گمنام ہو کر غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

تو عرض یہ ہے کہ یہ تمام کھلاڑی انعامات کے نہیں لیکن امداد کے مستحق ضرور ہیں۔ اسی لیے حکومت سے گزارش ہے کہ پچھلی تمام نا انصافیوں کی تلافی محض ایک ارشد ندیم پر ہی پوری نہ کی جائے۔ انعامات میں اعتدال اور کسی منصوبہ بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا نظام بھی بنا دیا جائے جہاں دوسرے کھلاڑیوں کی دل آزاری نہ ہو۔ تمام صاحب حیثیت افراد سے بھی یہی عرض ہے کہ ارشد ندیم کو مزید اعزازات سے ضرور نوازیں لیکن کچھ غریب کھلاڑیوں کی امداد کو بھی مدنظر رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments