کربلا، فلسطین اور پاکستان


مشرق وسطی سمیت دنیا بھر کا سب سے بڑا ایک روزہ مذہبی اجتماع چہلم امام حسین (ع) آئندہ ہفتے میں عراق کے شہر کربلا میں منایا جائے گا جس میں پچیس ملین یعنی اڑھائی کروڑ سے زائد زائرین کی آمد متوقع ہوگی۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند سالوں سے زائرین کی اتنی تعداد ہر سال چہلم کے موقع پر کربلا میں موجود ہوتی ہے بیسویں صدی کے اوائل میں درپیش مشرق وسطی کے سیاسی و سماجی حالات اور مغربی دنیا کے مفادات کا شکار عرب و عجم اقوام میں مصر سے اخوان المسلمین کی صورت مسلم سیاسی فکر کا احیاء ہوا جس کی ابتدا پذیرائی مسلم اکثریتی گروہ اہل سنت کی جانب سے دیکھی گئی۔ 1950 کی دہائی میں ایران میں وزیر اعظم مصدق کی حکومت کا مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں خاتمہ اور شاہ ایران کی امریکہ نواز سیاست نے ایرانی عوام کو مغرب سے برگشتہ کر دیا تھا اور ایک مقبول اپوزیشن تحریک مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی ایرانی شیعہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی جسے امام خمینی کی قیادت نے محض کچھ ہی عرصے میں اس قدر طاقتور تحریک میں بدل دیا تھا کہ امریکہ سمیت مغربی دنیا کی حمایت کے باوجود شاہ ایران کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تھا۔ سرد جنگ کے زمانے میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایک ایسی مذہبی انقلابی ریاست قائم ہوئی تھی جس عوامی نعرہ سویت یونین اور امریکہ دونوں سے بے زاری تھا۔ اس تحریک کے دوران شیعہ مذہبی تاریخ کے سب سے بڑے واقعہ کربلا سے بہت سی تمثیلیں مستعار لی گئی ت

واقعہ کربلا اور قیام امام حسین کی ایک سیاسی تعبیر کا نام ایران کی انقلابی ریاست ہے جو خطے میں خود کو مظلوموں کے بڑے حامی و مددگار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ایران حمایت یافتہ مزاحمت کا محور عراق میں الحشد الشعبی یعنی پاپولر موبلائزیشن فورسز، یمن میں انصار اللہ یعنی حوثی، لبنان میں حزب اللہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول غزہ اور مغربی کنارے میں حماس اور اس کی حلیف گوریلا تحریکوں کا ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہے جس میں پرچموں سے لے کر نعروں تک سبھی استعارے کربلا سے لئے گئے ہیں ہل من ناصر ینصرنا
( کوئی ہے جو ہماری مدد کرے وہ نعرہ جو امام حسین نے سب ساتھیوں کے قتل کے بعد بلند کیا تھا)
لبیک یا حسین
(اے حسین، ہم حاضر ہیں )

جلسوں اور جلوسوں میں لہراتے ہوئے سُرخ اور سیاہ پرچم اور ور مزاحمت یا شہادت جیسے نعرے، یہ سب ایک ایسی مذہبی ثقافت میں سیاست کھیلنا ہے جہاں کارکن موت میں حیات دیکھتا ہے اور تباہی میں بقاء۔ آپ کربلا کا نعرہ لگا کر کروڑوں جنگجوؤں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں طلب کر سکتے ہیں اور آنے والے جیتنے اور جینے سے کہیں زیادہ مرنے کا شوق رکھتے ہوں گے۔

اسلام میں شیعہ مذہبی سے زیادہ ایک سیاسی اور ثقافتی تحریک کا نام ہے جس میں طاقتور سے نہتے ہو کر ٹکرا جانا اور پاش پاش ہوجانا ایک قسم کی ایسی اخلاقی جیت ہے جس کا اعتراف آئندہ نسلیں اپنے خون سے کرتی ہیں۔ غزہ کی حالیہ جنگ اور قتل عام سے آنے والی تفصیلات میں کربلا کی بہت سی تشبیہات موجود ہیں۔ مغربی کنارے کا فلسطینی غزہ کی مانند ہتھیار بند نہیں ہے لیکن چار روز پہلے ایک ادھیڑ عمر فلسطینی کا تل ابیب میں فدائی حملہ مغربی کنارے سے اٹھنے والے تیسرے انتفادہ کی خبر دے رہا ہے۔ خود اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار اور فوجی ماہرین اس جانب اشارہ کر چکے ہیں یاد رہے کہ مغربی کنارے کے پینتیس لاکھ، غزہ کے تئیس لاکھ اور خود اسرائیل کے اندر آباد بائیس لاکھ فلسطینی آج بھی تاریخی فلسطین میں موجود سب سے بڑا انسانی گروہ ہے اور یہ اسی لاکھ فلسطینی سیاسی طور پر بدترین نوآبادیاتی نظام سہ رہے ہیں۔ یہ آج بھی اسرائیلی یہود سے تعداد میں دس لاکھ زیادہ ہیں اور ابھی پچاس لاکھ مزید فلسطینی مشرق وسطی اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی صیہونی ریاست میں اپارتھائیڈ کا خاتمہ اور جمہوریت کا اجراء صیہونی سیاست کے لئے زہر ِقاتل ثابت ہو گا

25 اگست کو امام حسین (ع) اور 10 ستمبر کو اسماعیل ہانیہ کے چہلم کے بعد ایران اور اس کی حلیف شیعہ و غیر شیعہ جنگجو تنظیموں کے ایامِ عزا ختم ہوجائیں گے اور پھر ممکنہ طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم صیہون اور سُرخ شیعت کوئی بڑا تنازع وقوع پذیر ہوتا ہوا دیکھیں یا کیا خبر امام حسین (ع) کے چہلم کا دن ہی ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو۔ بہرحال ابھی تک یہی بڑی خبر ہے کہ اڑھائی کروڑ سے زائد عزادار چہلم پہ اکٹھے ہوں گے جس میں ستر فیصد عراق سے باہر ایران، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں 20 لاکھ ایسے ہیں جو نجف تا کربلا پیدل چلنے کو اپنے لئے سعادت سمجھ کر یہ سفر پیدل طے کریں گے vi۔

25 جولائی کو ڈان میں شائع ہونے والی ایک غیرمعمولی خبر یہ تھی کہ پاکستانی پارلیمان میں ایک اعلی سطحی عہدیدار نے ایوان کو بتایا کہ رواں سال عراق میں پچاس ہزار پاکستانی نوجوانوں کے غائب ہو جانے کی اطلاعات ہیں viiاور ابھی مزید کئی ہزار ایسے ہیں جو چہلم کی خاطر عراق کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستانی وزارت ِداخلہ نے رواں سال اپریل میں ایران اسرائیل جھڑپ کے بعد پاکستانی شیعہ جنگجوؤں پر مشتمل ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم زینبیون بریگیڈ پر پابندی عائد کر دی تھی

انہی دنوں حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے یہ دعوی کیا تھا کہ لاکھوں کی تعداد عراقی، ایرانی، افغان اور پاکستانی جنگ کی صورت میں ہمارے شانہ بشانہ ہوں گے ix۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وطن عزیز ایک ایسی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے جسے ہمارے عہد کے کربلا کا نام دیا جا رہا ہو اور اس کے اثرات صرف عالمی معیشت اور مشرق وسطی کو ہی متاثر نہ کرتے ہوں بلکہ پاکستان جو پہلے ہی مذہبی نوعیت کی متشدد انتہاء پسندی شکار ہے اس کے اطراف بظاہر یہود و اسلام کی جنگ چھڑ جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).