راشن ڈپو سے یوٹیلٹی سٹور تک


 

گزشتہ روز وفاقی حکومت نے پاکستان بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو موجودہ حکومت کا یہ پہلا اقدام ہے جو اچھا لگا ہے کیونکہ یہ سٹور کسی بھی لحاظ سے غریبوں کی کوئی مدد نہیں کر پا رہے تھے۔ حکومتی سبسڈی اور پیکجز کے باوجود عام آدمی تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تھا۔ اشیاء کے معیار اور مقدار کے مسائل بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ دوسری جانب ان کی بندش کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہزاروں لوگوں کی بے روزگاری کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان اسٹورز سے عوام کو کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہو رہا تھا۔ جب بھی اس طرح کے فیصلے ہوتے ہیں لوگوں کا ملا جلا رد عمل ضرور سامنے آتا ہے۔ میرا اپنا خیال ہے کہ اس کی بندش کی بجائے اس کی کارکردگی پر توجہ دینے اور اس میں ہونے والی کرپشن روکنے کی ضرورت تھی کیونکہ ادارے بنانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کارپوریشن کے اتنے بڑے سسٹم کو غریبوں اور عام آدمی کے لیے درست اور فعال بنانے کے لیے دور حاضر کے مطابق از سر نو نئی انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت تھی۔ کیونکہ یوٹیلٹی اسٹورز سے غریبوں کو بہت کم اور ذخیرہ اندوزوں کو زیادہ فائدہ ہو رہا تھا۔ جن مسائل کے حل کے لیے یہ اسٹورز قائم کیے گئے تھے وہ مثبت ریلیف عوام تک پہنچانے میں کامیابی نہیں ہو پائی جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

میرے گھر کے سامنے ہی ایک یوٹیلٹی سٹور ہے مجھے ایک مرتبہ چینی اور آٹے کا سستا ریٹ وہاں کھنچ کر لے گیا طویل لائن میں لگ کر کاؤنٹر تک پہنچا تو پتہ چلا کہ آٹا تو ختم ہو چکا ہے البتہ چینی مل جائے گی مگر وہ بھی صرف دو کلو کا ایک پیکٹ اور شرط یہ ہے کہ آپ کو کچھ نہ کچھ دوسری اشیاء بھی ساتھ میں خریدنی پڑیں گی۔ میں اس پر بھی راضی ہو گیا تو انہوں نے شناختی کارڈ مانگا جو بدقسمتی سے ساتھ نہ تھا۔ میں نے کہا کہ شناختی کارڈ نمبر لکھ لو لیکن وہ تو اصل دیکھنا چاہتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہر ایک سے شناختی کارڈ لے کر اندراج کرتے اور چینی کا ایک پیکٹ پکڑا دیتے۔ سٹور میں باقی اشیاء لینا چاہی تو تقریباً یا تو غیر معیاری تھیں یا پھر ان کے ریٹ بازار سے بھی زیادہ لگ رہے تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم ایک چینی کے پیکٹ کے لیے طویل قطار میں شدید گرمی میں کھڑا تھا جہاں سایہ تو دور کی بات ہے پینے کا پانی تک میسر نہ تھا۔ واپسی پر بیوی اور بچوں نے پوچھا کہ آپ خالی ہاتھ کیوں آ گئے ہیں؟ تو انہیں بتایا کہ شناختی کارڈ میرے ساتھ نہیں تھا۔

میرے ایک بچے نے پوچھا ہماری پہچان آج کل تو شناختی کارڈ ہوتا ہے لیکن دادا جان! جب یہ شناختی کارڈ نہیں ہوتا تھا تو کیا ہوتا تھا؟ تو میں نے انہیں بتایا کہ ساٹھ کی دہائی میں جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ہر گھر میں ایک راشن کارڈ ہوا کرتا تھا جو حکومت کی جانب سے جاری کیا جاتا تھا۔ جو شناخت ہی نہیں دیگر سرکاری امور میں بھی بہت کارآمد ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جنگی تباہ کاریوں اور بمباری سے فصلیں اگانے والی زمینیں بانجھ ہو گئی اور کھیت کھلیان راکھ میں بدل گئے۔ تو پوری دنیا غذائی اجناس کی قلت کی وجہ سے قحط کا شکار ہو گئی۔ تو تاج برطانیہ نے ہندوستانی زرعی اجناس سے لدے جہازوں کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔ جس سے برصغیر میں اشیاء خورد و نوش کی قلت پیدا ہو گئی۔ اب خوراک کی اس قلیل مقدار کو ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ سے بچانے اور پورے ہندوستان کی رعایا تک پہنچانے کے لئے برطانوی حکومت نے یہاں ”راشننگ“ کا نظام رائج کیا۔ شہروں میں وارڈ کی سطح پر راشن ڈپو قائم کر کے ہر خاندان کے سربراہ کے نام ایک راشن کارڈ جاری کیا گیا۔ جس میں بالغ، نابالغ افراد اور شیر خوار بچوں کا اندراج ہوتا، اس کارڈ کے ذریعے وہ خاندان اپنے علاقے کے مخصوص راشن ڈپو سے قلت شدہ اشیاء نقد رقم کے عوض ماہانہ کوٹے کے حساب سے ہی خرید سکتا تھا۔ آٹا، چاول، گھی، تیل اور چینی اس فہرست میں شامل تھیں بعد میں کپڑے کی قلت کے باعث اسے بھی اس فہرست میں شامل کر دیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے 1945ء میں اختتام کے بعد حالات اپنی نارمل روٹین کی طرف واپس لوٹنے لگے۔ دھرتی پھر شفیق ماں کی طرح اپنے بچوں کی خطاؤں کو معاف کرتے ہوئے اپنی محبت نچھاور کرنے لگی۔ لہلہاتے کھیتوں کا منظر دوبارہ لوٹ آیا اور غذائی اجناس کی قلت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ اب صرف آٹا اور چینی ہی راشن کارڈ پر رہ گئے۔ آزادی کے بعد بھی پاکستان میں چینی کی طلب کے مطابق شوگر ملیں نہیں لگ سکیں۔ چند ملوں کی پیداوار اور محدود پیمانے پر درآمد شدہ چینی کی راشننگ جاری رکھی گئی۔ 1965 ء میں بھی چینی راشن کارڈ کے ذریعے راشن ڈپو سے ماہانہ کوٹے کے حساب سے ملتی تھی۔ ہر بالغ فرد کے لئے تین پاؤ ( 750 گرام) اور ہر شیر خوار بچے کے لئے آدھا سیر ( 450 گرام) کا ماہانہ کوٹہ مقرر تھا۔ یوں بھی برصغیر کا معاشرہ چینی کے منظر عام پر آنے سے قبل کھانے پینے کی اشیاء میں میٹھے ذائقے کے لئے گڑ کے استعمال کا عادی تھا۔ محدود پیمانے پر چینی کی دستیابی اور گڑ کے مقابلے میں مہنگی ہونے کے باعث بیشتر گھروں میں چائے گڑ ہی کی بنتی تھی۔

چینی بنانے کی کچھ چھوٹی ملیں پاکستان میں قائم ہوئیں لیکن ابتداء میں چینی مکمل سفید نہیں تھی، بلکہ ہلکی بھوری تھی، اور اس میں گڑ کا تھوڑا ذائقہ بھی موجود تھا۔ یہ براؤن شوگر کھلی مارکیٹ میں ”پاکستانی چینی“ کے نام سے وافر مقدار میں دستیاب تھی۔ جسے شکر یا کھانڈ کہا جاتا تھا۔ اس چینی اور آٹے کی فراہمی کے لیے ساٹھ کی دہائی میں راشن ڈپو قائم کیے گئے جو صرف منظور نظر لوگوں کو ملتے تھے۔ عوام کو راشن کارڈ جاری کیے گئے جس میں بالغ نابالغ افراد اور شیر خوار بچوں کا اندراج ہوتا تھا، اس کارڈ سے وہ اپنے علاقے کے مخصوص راشن ڈپو سے قلت شدہ اشیاء نقد رعائتی قیمت میں ایک محدود تعداد اور مدت کے لیے حاصل کرتے تھے۔ یہی راشن کارڈ ہر خاندان کا اجتماعی شناختی کارڈ بھی سمجھا جاتا تھا یہی کارڈ علاقے کی سکونت کا ثبوت بھی ہوتا تھا۔ ان راشن ڈپو کے باہر گرمی اور سردی میں طویل قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ میں خود کئی مرتبہ ان قطاروں میں کھڑا ہو کر جب اشیاء خریداری کی جگہ تک پہنچتا تو بے حال ہو جاتا پھر وہ ڈپو ہولڈر ہمارا راشن کارڈ چیک کرتا اس پر انٹری کرتا تھا۔ اس زمانے میں ترازو ہوا کرتے تھے جن پر ہمیشہ کم ہی تولا جاتا تھا لیکن مجبوراً خاموشی سے چینی یا آٹا لے کر گھر آتے تو بڑی بوڑھیاں چیختی رہتیں کہ یہ تو وزن پورا نہیں لگ رہا ہے۔

بچوں کو یہ سب بتاتے ہوئے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ آدھی صدی گزر جانے کے باوجود کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ راشن ڈپو والے اور ان کی اولاد تو آج کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹور کے ملازموں کے دن بھی سنور چکے ہیں۔ راشن کارڈ کی جگہ شناختی کارڈ لے چکا ہے لیکن غریب کے حالات نہیں بدلے وہ آج بھی طویل قطاروں میں ویسے ہی کھڑا ہے پہلے راشن ڈپو کے باہر کھڑا ہوتا تھا اب یوٹیلٹی سٹور کے باہر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی اسٹور سمیت سولہ محکمے بند کرنے کی تیاری کر لی ہے متعلقہ محکموں کو بندش کے لیے ایک ہفتے سے تین ماہ کا وقت دے دیا گیا ہے۔ دوسری جانب یوٹیلٹی اسٹورز کے ہزاروں ملازمین بے روزگاری سے پریشان ہیں۔ ان کے روزگار کا متبادلہ پلان سامنے آنا بہت ضروری ہے۔ ان ملازمین کو دوسرے محکموں میں خدمات انجام دینے کے لیے پالیسی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان یوٹیلٹی اسٹورز کے متبادل غریبوں کو ریلیف دینے کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے؟ میرے خیال میں سخت ترین اقدامات سے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور مقررہ نرخ ناموں پر عملدرآمد کرانے سے ہی عوام کے پچاس فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انتظامیہ چاہے تو نرخ ناموں کے مطابق اشیاء کی خریداری ہر دکان سے ممکن بنا سکتی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو بند کرنے سے ہونے والے نقصان سے بچنے کے لیے انہیں راشن ڈپو کی طرز پر پرائیویٹ شعبہ میں دے دینے سے بے روزگاری کے خدشات بھی ختم ہو سکتے ہیں اور کسی حد تک ریلیف بھی مل سکتا ہے۔ سنا ہے کہ حکومت اب اس ادارے کی بندش کی بجائے ری اورگنائزیشن کی بات کر رہی ہے جو یقیناً حوصلہ افزا ہو گا۔

ا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments