ہمارے گناہوں کی سزا کب ختم ہوگی – مکمل کالم
آزاد کشمیر میں کوسٹر کھائی میں جا گری، 29 افراد جاں بحق۔
Balochistan rocked by violence as multiple attacks claim more than 50 lives; 21 terrorists killed۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کو 30 اگست کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے ایجنڈے سے ہٹا دیا جہاں اُس سے اگلے 37 مہینوں میں سات ارب ڈالر کے مالی کُمک کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کی توقع تھی۔
یہ تین خبریں ہیں جو گزشتہ چند دن کے اخبارات میں شائع ہوئیں جبکہ اِن کے علاوہ ہزاروں خبریں ایسی ہیں جو سڑکوں پر ہمارے ارد گرد بکھری ہوتی ہیں اور کہیں شائع نہیں ہوتیں۔
ٹریفک کے حادثات سے شروع کرتے ہیں جو اِس ملک میں معمول بن چکے ہیں۔ چھوٹے موٹے حادثات تو اب کسی گنتی میں ہی نہیں آتے، صرف پچھلے چند دنوں میں ایسے ہولناک حادثات ہوئے کہ بندہ سوچ کر لرز اٹھتا ہے، مگر مجال ہے کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ ہر بات پر حکومت کو کوسنے دینا بھی ٹھیک نہیں، جب 90 فیصد شہری ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر تُل جائیں تو دنیا کی کوئی بھی حکومت ٹریفک کا نظام نہیں چلا سکتی۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگوں کو 90 فیصد والی بات مبالغہ آرائی لگے، مگر ایسے لوگ شاید ڈرائیونگ نہیں کرتے، یا پھر اُن کا باہر نکلنا کم کم ہوتا ہے۔ اِس ملک میں گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا اب کسی عذاب سے کم نہیں، بے شک آپ درست سمت میں جا رہے ہوں، کسی اشارے کی خلاف ورزی نہ کر رہے ہوں، رفتار بھی کم ہو، اور دائیں بائیں نظر بھی رکھی ہو، لیکن اِس کے باوجود کوئی ضمانت نہیں کہ آپ کا حادثہ نہیں ہو گا، کیونکہ عین ممکن ہے اچانک کسی ان دیکھی سمت سے نشے میں دھُت کوئی ڈرائیور اندھا دھند گاڑی چلاتا ہوا آئے اور سامنے والے کو روندتا ہوا نکل جائے، بالکل اسی طرح جیسے ہوائی فائرنگ کے دوران بے گناہ راہ گیر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
قومی شاہراہوں پر ہونے والے حادثات تو اور بھی خوفناک ہوتے ہیں، ایسے حادثات میں ڈرائیور حضرات کی لاپروائی کی وجہ سے درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ لیکن ہمارا رویہ اِس قدر عجیب ہو چکا ہے کہ اب ہمیں کوئی بھی بات غلط نہیں لگتی، اگر کسی کو گاڑی غلط کھڑی کرنے پر ٹوک دو یا سمجھانے کی غرض سے ہی کہہ دو کہ جناب والا چار بچوں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر تیز رفتاری سے ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر آپ کو کتنے نفلوں کا ثواب ملے گا تو جواب میں ایسی شکل بناتے ہیں کہ لگتا ہے دل ہی دل میں غلیظ گالیاں دے رہے ہوں۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر کسی معجزے کے نتیجے میں ہماری معیشت ٹھیک ہو گئی تو بھی ہمارا یہ جاہلانہ رویہ ہمیں لے ڈوبے گا۔
بلوچستان۔ بندہ کیا لکھے؟ ٹریفک کے حادثات نے ہی دل اِس قدر بوجھل کر دیا تھا کہ آج بلوچستان کی خبر آ گئی۔ ایک دن میں 50 ہلاکتیں ہوئیں، اِن میں سے 23 بے گناہ افراد کو تو دہشت گردوں نے موسیٰ خیل میں بسوں اور ٹرکوں سے اتار کر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ خبر کی تفصیل پڑھی تو دل کانپ گیا۔ 30 سے 40 دہشت گردوں نے پنجاب سے بلوچستان جانے والی شاہراہ کی ناکہ بندی کی، 22 گاڑیوں کو روک کر تلاشی لی، اُن میں سے پنجابیوں کو باہر نکالا اور چُن چُن کر مار دیا، جبکہ 23 گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی۔
میں خود کو کافی پروگریسو سمجھتا ہوں، دنیا میں جہاں بھی لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں اور اِس ضمن میں اپنی جان اور مال کی پروا نہیں کرتے، انہیں دیکھ کر میں رشک کرتا ہوں کہ یہ لوگ کس قدر عظیم ہیں، لیکن اپنی تمام پر ’ترقی پسندی‘ کے باوجود میں بلوچ تحریک کو کسی قسم کی مزاحمت کا استعارہ نہیں سمجھتا۔ شاید مجھے اِس قدر دو ٹوک بیان جاری نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ دانشمندی نہیں، تحریر ایسی ہونی چاہیے کہ کل کلاں کو بندہ اُس کی مرضی کی تشریح کرسکے جو بوقت ضرورت کام آ سکے، لیکن میری دانشوری یہاں جواب دے گئی ہے۔ میں اِس بات کو ہضم کرنے سے قاصر ہوں کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والا کوئی شخص کسی دوسرے نہتے فرد کو محض اِس وجہ سے جان سے مار دے کہ اسے اُس کی قومیت پسند نہیں۔ اِس عمل کو بہرحال کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔
ایک منٹ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ جو لوگ ’بلوچ عوام کی یہ جنگ لڑ رہے ہیں‘ وہ نیک نیت ہیں اور ہم یہاں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اُس ظلم سے لا علم ہیں جس سے اُن کے خاندان اور بیوی بچوں کو گزرنا پڑا، اُس صورت میں بھی دہشت گردی کی یہ کارروائیاں اُن کی ’کاز‘ کو فائدہ نہیں بلکہ اُلٹا نقصان پہنچائیں گی۔ اِن لوگوں کے لیے پنجاب میں جو ہمدردی پائی جاتی ہے، وہ ختم ہو جائے گی، اور ریاست کو یہ لوگ شکست نہیں دے پائیں گے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر میں حکمران ہوتا اور صبح صبح میری میز پر یہ خبریں رکھی جاتیں تو میں کس خبر پر زیادہ پریشان ہوتا، بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی پر یا آئی ایم معاہدے پر دستخط نہ ہونے والی خبر پر! اور پھر میری پریشانی کس کام آتی، کیا میرے بس میں بھی کچھ ہوتا؟ چلیے فرض کرتے ہیں کہ بطور حکمران میں آئی ایم ایف والے معاملے کو زیادہ اہمیت دیتا کیونکہ سیکورٹی کی صورتحال سنبھالنے کے لیے تو پولیس، فوج اور رینجرز کو ہی چوکس کرنا پڑتا، کم از کم یہ کام تو بس میں ہوتا، لیکن آئی ایم ایف کی اُس شرط کا کیا کرتا جس کے تحت پاکستان کو سات ارب ڈالر کے معاہدے کو یقینی بنانے کی غرض سے دوست ممالک کی منتیں کرنی پڑتیں کہ وہ اپنے قرضوں کی وصولی موخر کر دیں۔ یہ کس قدر مشکل کام ہے۔ ذرا ایک منٹ کے لیے سوچیں کہ آپ نے اپنے دوست سے کچھ قرض لینا ہے تو آپ کو یہ بات کرنے میں کس قدر شرم آئے گی، اور اگر یہ کام بار بار کرنا پڑے اور ایک کے بعد دوسرے دوست کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں، اور یہ کام آٹھ دس مرتبہ کیا جا چکا ہو اور دوست قرض کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیں جس کے جواب میں آپ کہیں کہ یہ سارا قرض موخر کر دو کیونکہ میں نے اب ساہوکار سے مزید قرض لینا ہے تو آپ یہ بات کرتے وقت کیسا محسوس کریں گے!
یہ وہ خبریں ہیں جو اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جبکہ وہ خبریں علیحدہ ہیں جو انسانی شکل میں ہر چوراہے پر سسکتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ہم اُن سے آنکھیں چرا کر یوں نکل جاتے ہیں جیسے یہ کسی اور مٹی کے بنے انسان ہیں جنہیں نہ درد ہوتا ہے اور نہ بھوک لگتی ہے، اِن کے بچے بھی معصوم نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہمارے بچوں کی طرح کلکاریاں نہیں مارتے، یہ کوئی اور ہی قوم ہے جس کی شکل ہم سے ملتی جلتی ہے۔ نہ جانے یہ سب ہمارے کون سے گناہوں کی سزا ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہی!
- ایک اسپتال کی ’فحاشی‘ – مکمل کالم - 08/09/2024
- مسلمان کی تمنا اور اللہ کے قانون میں فرق ہے – مکمل کالم - 04/09/2024
- زندگی بدلنے والی تین فلمیں – مکمل کالم - 01/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).