لاہور سے اغوا کے بعد 50 ہزار روپے میں فروخت ہونے والے تین سالہ بچے کو پولیس نے کیسے تلاش کیا؟

ترہب اصغر - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


getty
’اگر آپ کی اولاد نہیں تو کیا آپ دوسروں کے اغوا کیے ہوئے بچے خریدیں گے؟ یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ اپنی محرومی ختم کرنے کے لیے کسی کو اولاد سے محروم کر دیں؟‘

یہ الفاظ لاہور کے علاقے ماناوالا کے رہائشی عبد الرزاق کے ہیں جن کے تین سالہ بیٹے کو پانچ دن قبل اچانک اغوا کر لیا گیا تھا۔

پنجاب پولیس کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد جرم تھا جس میں اغوا کے بعد عبد الرزاق کے تین سالہ بیٹے کو صوبہ پنجاب کے ہی ایک اور شہر میں ایک بے اولاد جوڑے کو پچاس ہزار روپے کے عوض بیچ دیا گیا۔

پنجاب پولیس کے مطابق عبد الرزاق کے بیٹے کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ بچے کو مبینہ طور پر اغوا کرنے والے ملزمان کے ساتھ ساتھ اس جوڑے کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے جنھوں نے اس بچے کو گود لینے کے ارادے سے خریدا تھا۔

تاہم اس پورے واقعے میں حیران کن امر عبد الرزاق کے گھر کے باہر سے ان کے بیٹے کا اغوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بی بی سی نے پولیس سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی ہے کہ ملزمان کا سراغ کیسے لگایا گیا اور آیا اس نوعیت کے مزید جرائم کی شکایات حالیہ دنوں میں سامنے آئی ہیں یا نہیں۔

’ایک جوڑے نے بچوں سے باہر کھیلنے کو کہا‘

عبد الرزاق کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور کی تحصیل حاصل پور سے ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے درزی ہیں۔

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبد الرزاق نے بتایا کہ وہ گذشتہ 14 سال سے لاہور کے مضافاتی علاقے ماناوالا میں رہائش پذیر ہیں۔

اس واقعے کی ایف آئی آر ان کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ ڈیفنس بی میں درج ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ 24 اگست سنیچر کے روز صبح دس بجے کا وقت تھا اور وہ خود کام کی وجہ سے گھر پر نہیں تھے اور ان کی اہلیہ کو بھی گھر سے باہر جانا پڑا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق عبدالرزاق نے پولیس کو بتایا کہ ہمارے چاروں بچے گھر پر ہی تھے جب چند ہی دن قبل ان کے محلے میں کرائے کے گھر میں منتقل ہونے والا ایک جوڑا ان کے گھر آیا۔

’انھوں نے ہمارے بچوں سے کہا کہ آپ چاروں میرے بچے کے ساتھ باہر جا کر کھیل لیں۔ جیسے ہی وہ باہر کھیلنے کے لیے گئے تو ان دونوں نے ہمارے ایک تین سالہ بچے کو اٹھا لیا اور باقی بچوں کو گھر بھیج دیا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالرزاق نے بتایا کہ ’ان کی اہلیہ بھی کسی کے گھر میں کام کرتی ہیں اور اسی لیے واقعے کے وقت وہ دونوں گھر پر موجود نہیں تھے۔‘

عبد الرزاق نے بتایا کہ اگرچہ وہ گذشتہ چودہ سال سے لاہور میں رہائش پذیر ہیں تاہم ان کی اہلیہ اور بچے ایک ماہ قبل ہی ان کے آبائی علاقے سے لاہور منتقل ہوئے تھے۔

’پچھلے کچھ عرصے سے میں بچوں کے لیے بہت اداس ہو رہا تھا، اس لیے میں نے ان سے کہا کہ وہ میرے ساتھ لاہور شفٹ ہو جائیں۔ ایک مہینہ پہلے ہی میرے بیوی بچے شفٹ ہوئے تھے اور پچھلے ہفتے یہ واقعہ ہو گیا۔‘

عبد الرزاق نے بتایا کہ اس واقعے کے فوری بعد ان کے گھر کے قریب رہائش پذیر ان کے ایک رشتے دار نے انھیں فون کیا اور اغوا کے بارے میں بتایا تو انھوں نے فوری طور پر پولیس کی ایمرجنسی لائن ون فائیو پر فون ملا دیا۔

getty

پولیس نے بچے کو کیسے بازیاب کروایا؟

عبدالرزاق کا ون فائیو سے فوری رابطہ کرنا اس کیس کی سب سے اہم پیش رفت ثابت ہوئی۔

ایس پی کینٹ لاہور اویس شفیق سے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ اس کیس میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ بچے کے والدین نے اغوا کے فوری بعد ہی پولیس کو وقوعہ کے بارے میں بتا دیا تھا۔

’عموماً لوگ ایسے واقعات کے بعد پہلے خود ہی بچے کی تلاش شروع کر دیتے ہیں جس میں وقت ضائع ہوتا ہے اور معاملات خراب ہو جاتے ہیں۔‘

ایس پی اویس شفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 15 پر کال موصول ہونے کے بعد پولیس نے فوری طور پر لاہور ڈی ایچ اے سے لے کر سیف سٹی کے تمام کیمروں کی فوٹیج جمع کرنا شروع کر دیں۔

اسی فوٹیج کی مدد سے جلد ہی اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ عبدالرزاق کا دعوی درست تھا۔

پولیس نے ان کے محلے کے نزدیک نصب کیمرے کی فوٹیج میں دیکھا کہ ملزمان اپنے بچے سمیت عبدالرزارق کا بچہ بھی ساتھ لے کر جا رہے تھے۔

پولیس نے مزید تفتیش کی تو انھیں علم ہوا کہ ملزمان پنجاب کے شہر منڈی بہاو الدین میں ہیں۔ تاہم جب تک پولیس ملزمان تک پہنچی، وہ بچہ ان کے پاس موجود نہیں تھا۔

ایس پی اویس شفیق کے مطابق ملزمان سے تفتیش میں علم ہوا کہ انھوں نے وہ بچہ پچاس ہزار روپے میں ایک بے اولاد جوڑے کو فروخت کیا ہے۔

ملزمان خاندان کو بچہ دکھانے لے کر گئے ہوئے تھے

ایس پی اویس شفیق کے مطابق ’مرکزی ملزمان کی مدد سے اس جوڑے کی شناخت کی گئی جن کو بچہ فروخت کیا گیا تھا۔ وہاں سے ہم دوسرے جوڑے تک پہنچے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب پولیس نے اس جوڑے کے گھر پر چھاپہ مارا تو وہاں ایک ستر سالہ خاتون ملیں۔‘

’ان سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے اور بہو کو لاہور سے ایک بچہ ملا ہے اور وہ سارے خاندان کو بچہ دکھانے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔‘

اویس شفیق کے مطابق پولیس نے اسی گھر میں انتظار کیا اور جیسے ہی وہ جوڑا بچے کو لے کر واپس پہنچا تو ہم نے انھیں گرفتار کر لیا۔

ایس پی اویس شفیق کا کہنا تھا کہ ’یہ انسانی سمگلنگ کا جرم بھی ہے جس میں دونوں جوڑے، اغوا کرنے والا اور بچے کوخریدنے والا، برابر کے شریک ہیں کیونکہ اغوا کر کے بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کو معلوم تھا کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ جرم ہے۔‘

اویس شفیق نے مزید بتایا کہ ’یہ حالیہ دنوں میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں ایک بے اولاد جوڑے نے تین سال کا بچہ خریدا۔‘

اویس شفیق کے مطابق ایسے گینگ تو موجود ہیں جو بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور پھر ان سے بھیک منگواتے ہیں یا انھیں فروخت کر دیتے ہیں لیکن اغوا شدہ بچہ کسی بےاولاد جوڑے کو فروخت کا یہ پہلا کیس سامنے آیا ہے۔

’اگر آپ بے اولاد ہیں تو کیا دوسروں سے ان کی اولاد چھینیں گے‘

عبدالررزاق کا بچہ پولیس نے ان کے گھر پہنچا دیا ہے لیکن اس واقعے نے اس خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے بچوں کو لے کر واپس آبائی گاؤں حاصل پور جا رہا ہوں۔ میرے بیوی اور بچے اس وقت بھی سہمے ہوئے ہیں، حالانکہ ہمارا بچہ واپس آ گیا ہے لیکن پھر بھی میرے خاندان والے مطمئن نہیں ہیں۔‘

عبد الزاق کو بھی اب یہ علم ہو چکا ہے کہ ان کے بچے کو پچاس ہزار روپے میں بیچا گیا تھا۔

وہ سوال کرتے ہیں کہ ’اگر اللہ نے آپ کو اولاد نہیں دی تو کیا آپ دوسروں کے اغوا کیے ہوئے بچے خریدیں گے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ اپنی محرومی ختم کرنے کے لیے آپ کسی دوسرے کو اولاد سے محروم کر دیں؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33788 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments