نیل پالش


درمیانے خد و خال کی حامل ندا نے نیل پالش کی شیشی کھولی۔ اور برش کو بھگو کر سلطانہ کے دائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ وہ برش کو سلطانہ کی چھوٹی انگلی کے ناخن پہ پھیرنے ہی والی تھی کہ سلطانہ نے پوری قوت سے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیا اور آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا۔

سلطانہ سلطانہ، بتاؤ کیا ہو رہا ہے تمہیں؟ مجھے تم سے ملے ہوئے پانچ دن ہو چکے ہیں لیکن تم نے اب تک مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔“ ندا نے سلطانہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھینچ لیا۔ مجھے صرف پچھلے ہفتے معلوم ہوا تھا کہ تم یہاں کب سے آئی ہوئی ہو اور میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً یہاں آ گئی۔

سلطانہ نیل پالش کو گھور کر دیکھے جا رہی تھی۔ آنسوؤں کی بارش ہنوز جاری تھی۔
ندا اٹھ کر سلطانہ کے سامنے بیٹھ گئی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب ہوئی۔
” تم تو بناؤ سنگھار کی بہت شوقین تھی۔ آج میرے کہنے پہ لگا لو نیل پالش۔ تمہیں اچھا محسوس ہو گا۔“
تیس سالہ سلطانہ صرف ایک لفظ ہی دہرا سکی۔ ”نہیں، نہیں۔ “

” لیکن سلطانہ، تم کب تک ایسی ہی زندگی گزارتی رہو گی۔ تمہیں آگے بڑھنا ہے۔ پچھلی دنیا سے نکل آؤ میری جان۔ ندا نے آگے بڑھ کر سلطانہ کو گلے لگا لیا۔ “

سلطانہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔”وہ ہر وقت میرے ساتھ ہیں، خاص کر رات کو”۔

daesh-girl-slaves

” لیکن اب وہ یہاں نہیں ہیں۔ اور تم اب موصل میں نہیں ہو۔ تم اپنے گھر سنجار میں واپس آ گئی ہو۔ اب تم آزاد ہو۔ نئی زندگی شروع کرو۔ دیکھو، یہ نیل پالش کا رنگ کتنا اچھا ہے، تمہارا پسندیدہ۔“

سلطانہ نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”میں نہیں بھلا سکتی کہ مذہب کے نام پہ داعش کے لوگوں نے مجھے جنسی غلام بنا لیا بلکہ مجھے ہی نہیں تمام غیر مسلم لڑکیوں کو ۔ ہر رات مجھے کبھی ایک کبھی دو نوجوان اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے۔ میں ان کے لئے محض ایک کھلونا تھی، اور کچھ بھی نہیں۔ شام ہوتے ہی میری طبیعت خراب ہونے لگتی اور میں چیخیں مارنے لگتی رات کے بارے میں سوچ سوچ کر ۔

پھر وہ وحشت ناک لوگ مجھے بننے سنورنے کا حکم دیتے۔ اگر میں ان کی ہدایت پر عمل نہیں کرتی تو وہ مجھے مارتے پیٹتے۔ ”

پھر سلطانہ تھوڑی دیر کے لئے رکی۔ ”ایک دو دفعہ میں نے ان کے منہ پہ تھوک دیا، تم سوچ ہی نہیں سکتی کہ مجھے کتنی اذیت ناک سزائیں ملیں۔ با خدا، تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ میرے ساتھ کیا کیا ہوا۔ میں روز رات میں کتنی دفعہ مرتی لیکن مجھے موت نہیں آتی!“

ندا نے سلطانہ کے ماتھے کو چوما اور اس کے رخسار پر سے آنسوؤں کو صاف کیا۔
ندا اسے اٹھا کر صحن میں لے گئی اور سیمنٹ کے فرش پہ چاک سے ایک لمبی لکیر کھینچی۔

” آج تمہیں اس لکیر کو پار کرنا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے، پھر تم واپس اسُ پار کبھی نہیں جاؤ گی۔ میں تمہارا دکھ پوری طرح سمجھتی ہوں۔“ ندا نے سلطانہ کے گالوں کو اپنے ہاتھوں سے دباتے ہوئے کہا۔

”میں اسکول میں تمہاری سب سے زیادہ گہری سہیلی تھی، اب بھی ہوں، اور ہمیشہ رہوں گی۔ میں ہر قدم پہ تمہارے ساتھ ہوں۔ دو سال ایسے ہی گزر گئے، اب تم بقیہ زندگی ضائع نہیں کر سکتی۔ میں نے فیشن پروگرام میں تمہارا داخلہ کروا دیا ہے۔ اب تم نئی زندگی شروع کرنے والی ہو۔“

سلطانہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ ندا کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ اس کے لئے اجنبی تھی۔

کھانا کھانے کے بعد ندا نے سلطانہ کو اس کی دوائیں دیں اور تھوڑی دیر بعد سلطانہ گہری نیند میں ڈوب گئی۔

صبح تڑکے ہی سلطانہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس کو اپنے ہاتھ عجیب سے لگے۔ اس نے کچھ دیر اپنے ہاتھوں کو ملا، گھپ اندھیرے میں غور سے انہیں دیکھا، پھر ننگے پاؤں بھاگ کر غسل خانے کا بلب روشن کیا۔ سلطانہ کافی دیر تک اپنے ہاتھوں کو آئینے میں کھڑی دیکھتی رہی۔

پھر ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے زرد چہرے پہ پھیل گئی۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments