بس آپ ہی مسلمان ہیں اور صرف آپ ہی پاکستانی ہیں


میرے سامنے والے گھر میں ایک حاجی صاحب رہتے ہیں۔ پڑھے لکھے آدمیں ہیں۔ سول سیکرٹریٹ میں ملازمت کرتے ہیں۔ تقوی دار آدمی ہیں۔ مسجد جاتے ہیں۔ راستے میں ملنے والوں کو سلام کرتے ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ ہمارے ہمسائیگی کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ مہینے میں ایک آدھ بار ان کے گھر سے کچھ پکا ہوا آجاتا ہے یا میرے گھر سے کچھ پکا ہوا چلا جاتا ہے۔ ہم دونوں نے محلے کے تین جنازوں میں ایک ساتھ شرکت کی ہے۔ جمعہ میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ عید کو گلے ملتے ہیں۔

آج صبح ملے۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں تردد سے جواب دیا۔ میں تھوڑا پریشان ہوا کہ حاجی صاحب کو جانے کیا ہوا مگر کریدنا مناسب نہ سمجھا اور آگے بڑھ گیا۔ حاجی صاحب نے پیچھے سے آواز دی۔
بات سنیں۔
جی حاجی صاحب۔
آپ سے ایک بات پوچھوں ناراض تو نہیں ہوں گے؟
جی ضرور پوچھ لیجیے اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے۔
آپ مسلمان ہیں؟
حاجی صاحب! اس سوال کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
آپ نے کہا تھا آپ ناراض نہیں ہوں گے۔
میں ناراض نہیں ہو رہا مگر دو سال بعد آپ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
حاجی صاحب آپ وجوہات بتا دیجیے۔
وہ کچھ لوگ مسجد کے باہر باتیں کر رہے تھے کہ محلے میں کچھ لبرل سیکولر لوگ پیدا ہو گئے۔
تو؟
آپ کا نام بھی لے رہے تھے۔
تو؟
اسی لئے تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ آپ مسلمان ہیں؟
تو کیا لبرل یا سیکولر آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا؟
وہ مجھے نہیں پتہ۔ آپ میرے اچھے ہمسائے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ آپ کے بارے میں بدگمانی کے شکار ہوں۔
حاجی صاحب، آپ جانتے ہیں میں کونسی زبان بولتا ہوں؟
جی بالکل جانتا ہوں آپ پشتو بولتے ہیں۔
پشتو بولنے والے کو کیا کہتے ہیں؟
پشتون بھی کہتے ہیں۔ پختون بھی کہتے ہیں، پٹھان بھی کہتے ہیں۔
درست فرمایا آپ نے حاجی صاحب۔ اب ایک سوال میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں؟
جی جی بالکل پوچھ لیں۔
کیا آپ نے پاکستان میں آج تک کوئی پشتون سکھ، پشتون یہودی، پشتون عیسائی یا پشتون ہندو دیکھا ہے؟
نہیں۔ نہیں دیکھا۔
تو پھر آپ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
دیکھیں سر آپ ناراض نہ ہوں۔ ہم اچھے ہمسائے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ایک خلش ہے میرے اندر وہ دور کرنی ہے۔

حاجی صاحب۔ یہ سوال مناسب نہیں ہے۔ آپ راہ چلتے کسی سے ایمان کی گواہی طلب نہیں کر سکتے۔ آپ کسی کے ایمان کا داروغہ نہیں بن سکتے۔ مگر آپ کی سفید ریش کی خاطر میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اب اجازت دیجیے۔
نہیں سر ایک اور سوال بھی ہے۔
جی پوچھئے۔
آپ کلمہ پڑھ کر سنا دیں۔
اسلام علیکم۔
میں سلام کر کے چلا آیا۔ حاجی صاحب دیکھتے رہے۔ فیصلہ آپ کیجیے کہ کیا مجھے حاجی صاحب کو کلمہ پڑھ کر سنانا چاہیے تھا؟

ٹہرئیے۔ ابھی بات ختم نہیں ہوئی۔

مجھے آج لاہور جانا ہے۔ میرے پاس اپنی گاڑی کے کاغذات موجود ہیں جو میرے نام پر ہیں۔ میرے پاس ڈرائیونگ لائسنس موجود ہے جس پر میری تصویر بھی ہے۔ میرے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہے اس پر بھی میری تصویر موجود ہے۔ میرے پاس ایک عدد پریس کارڈ موجود ہے۔ میرے پاس ایک ہیلتھ انشورنس کارڈ موجود ہے۔ میرے پاس ایک ویزا کارڈ موجود ہے۔ پشتون ہوتے ہوئے آئی جی پنجاب کے لیٹر کے مطابق میرے پاس ایک عدد سرٹیفیکیٹ بھی موجود ہونا چاہیے جو مجھے لاہور میں انٹری اور ایگزٹ پر دکھانا چاہیے۔ میرے پاس وہ سرٹیفیکیٹ موجود نہیں ہے۔

یہ فیصلہ بھی آپ کیجیے کہ کیا مجھے لاہور جانا چاہیے؟

اس سماج میں میں ہر وہ عمل بالکل اسی طرح کرتا ہوں جیسے حاجی صاحب کرتے ہیں مگر احباب کو میرے ایمان کی گواہی درکار ہے۔
اس ملک میرے پاس ہر وہ شناخت موجود ہے جو ایک پاکستانی کے پاس ہونی چاہیے مگر میرے لئے ایک الگ سرٹیفکیٹ درکار ہے۔

یادش بخیر ایک واقع یاد آ گیا۔ لاہور کے ایک دوست نے جیم خانہ لاہور میں دعوت کی تھی۔ میں پہنچا تو کیفے کے دروازے پر روک لیا گیا۔ فرمانے لگے کہ آپ شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اندر نہیں جا سکتے۔ دوست نے کافی دیر کیفے کے مینیجر سے مذاکراتکیے مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ واپس آکر شرمندہ سا کہنے لگا کہ یار معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے پہلے اس کا احساس نہیں تھا۔ چلیں آپ کو بھئیے کے کباب کھلاتا ہوں۔ عرض کیا میں مینیجر سے ایک بات کر سکتا ہوں؟ کہنے لگا یار اس کی بھی مجبوری ہے۔ عرض کیا نہیں مجھے تو صرف ایک بات پوچھنی ہے۔ دوست بادل ناخواستہ ہمراہ ہوا۔ مینیجر کو سلام کیا۔ اس شریف آدمی نے شرمندگی سے کہا کہ سر میں معذرت خواہ ہوں۔ میری مجبوری ہے۔ عرض کیا نہیں صاحب کوئی بات نہیں بس ایک بات پوچھنی تھی۔
جی جی ضرور پوچھیں۔

کیا آپ نے وہ مشہور زمانہ جملہ سنا ہے کہ
( Dogs and Indians are not allowed)

جی سر سنا ہے۔
کیا یہاں کتے داخل ہو سکتے ہیں؟
کیا مطلب سر؟
سادہ سا سوال ہے کہ کیا اس کیفے میں کتے داخل ہو سکتے ہیں۔
کہنے لگا۔ نہیں سر یہاں کتے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔
اس جواب پر ہم تینوں شرمندہ ہوئے۔

کسی سے گلہ نہیں کر رہا۔ کوئی دکھ اور افسوس بھی نہیں ہے۔ اس تناو، دباؤ سے میں اب نکل چکا ہوں۔ اس دشت کی سیاہی میں اب ایک عمرگزری ہے۔ لاہور میں بہت محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں اور نہ بھی ہوں تو ایک پولیس ناکہ تو پار کر لیں گے۔ نا بھی کر سکے تو چوکڑی مار بیٹھ جائیں گے۔ آپ کے سامنے صرف آئینہ رکھ رہا ہوں۔ اس آئینے میں دیکھ لیجیے۔ آپ کو اس میں مسلمانی بھی نظر آئے گی اور عام پاکستانیوں پر صرف خود کو ہی محب وطن سمجھنے والوں کی مسلط کردہ پاکستانیت کا چہرہ بھی آشکار ہو گا۔

سلامت رہیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah