دہشت گردی کے پے درپے واقعات


ایک طرف ملک میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو پاکستان میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نے تمام رکن ممالک کے سربراہان کو دعوت نامے بھجوا دیے ہیں پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی گئی ہے، تو دوسری طرف ملک دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے تانے بانے بھارت سے ہی ملائے جا رہے ہیں لگ یوں ہی رہا ہے جیسے بھارت شنگھائی تعاون اجلاس کو سبوتاژ کرنا چا رہا ہے ایسے میں مودی جو کہ جیتا ہی پاکستان مخالف بیانئے کی بدولت ہے کیا پاکستان کی دعوت پر اجلاس میں شرکت کرے گا یہ تو خیر آنے والا وقت ہی بتائے گا اب دہشتگرد کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ملک میں دہشتگردی کا بٹن اچانک آن کیسے ہو گیا اس کے پیچھے آخر کیا سازش ہے؟

حال ہی میں بلوچستان کے ضلع موسٰی خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد 23 افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا، واضح رہے کہ 13 اپریل 2024 کو صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 افراد سمیت کُل 11 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہو گئے تھے۔ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے ) کی جانب سے یہ حملے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18 ویں برسی کے موقع پر کیے گئے تھے اور کالعدم علیحدگی پسند تنظیم جانب سے ’آپریشن ہیروف‘ کا نام دیا گیا تھا

بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیاں تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں ان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں خصوصاً مزدوروں کو شناخت کرنے کے بعد قتل کیا گیا ہو۔ پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فور کنفلکٹ اینڈ پیس سٹڈیز کے مطابق گزشتہ برس بلوچستان میں کم از کم 170 حملے ہوئے تھے، جس میں 151 عام افراد اور 114 سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔

دہشتگردی کے ان واقعات میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اور خواتین سے خودکش حملہ کروایا جا رہا ہے۔ ماہل بلوچ کالعدم بی ایل اے کی جانب سے بطور خودکش بمبار استعمال ہونے والی تیسری خاتون تھیں۔ اس سے قبل اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے کنفیوشس سینٹر کے باہر خودکش حملہ کیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد مارے گئے تھے۔ شاری بلوچ عرف برمش تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔

وہ دو بچوں کی والدہ تھیں اور ان کے شوہر پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ ان کا تعلق ضلع تربت کے علاقے نظر آباد سے تھا۔ تربت میں جون 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک خودکش حملہ آور کی شناخت سمیعہ قلندرانی بلوچ کے نام سے کی گئی تھی۔ کالعدم جماعت بی ایل اے کے مطابق سمعیہ بلوچ ریحان بلوچ کی منگیتر اور مجید برگیڈ کے بانی رہنما اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔ ریحان بلوچ نے اگست 2008 کو بلوچستان کے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب چینی انجینیئروں اور کارکنوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔

ایسے میں ریاست کہاں کھڑی ہے نوجوانوں کی ذہن سازی کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ بلوچ کالعدم تنظیموں میں خواتین خودکش بمباروں کے رجحان میں اضافہ کیوں ہے؟ پڑھے لکھے نوجوانوں کا پے درپے حملوں میں استعمال ہونا مملکت خداداد کے لئے انتہائی تشویشناک ہے ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کا تدارک کرے ان کو بہترین وسائل دیں ذہنی طور پر ان کی تربیت کا باقاعدہ آغاز کریں تاکہ کالعدم تنظیمیں اپنے مقاصد کے لئے ان نوجوانوں کا استعمال نہ کریں سرکاری سطح پر باہنر اور خصوصی طور پر بلوچستان کے طلبا کی حوصلہ افزائی کی جائے ان کو اسکالر شپ کے مواقع فراہم کیے جائیں ماہانہ وظائف دیے جائیں ان کی جسمانی صحت کا خاص خیال رکھا جائے کیونکہ ایک ریاست اپنے شہریوں کے لئے ماں کے جیسی ہوتی ہے تو ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں لے ہنگامی بنیادوں پر اس کا تدارک کرے تاکہ مستقبل کے معمار کسی کے جھانسے میں نہ آئیں اور وسائل سے مالا مال بلوچستان کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments