ریاست کیسے ناکام ہوتی ہے؟


پاکستان اس وقت جن حالات کا سامنا کر رہا ہے، اس میں اکثر و بیشتر اس امکان پر مباحث دیکھنے یا سننے میں آتے ہیں کہ موجودہ حالات اور تصادم کی کیفیت میں ملک کا مستقبل کیا ہے۔ کیا پاکستان اپنے گونا گوں مسائل سے باہر نکل سکے گا اور کیا موجودہ لیڈر حالات کی سنگینی سمجھتے ہوئے حقیقی قیادت کا کردار ادا کرنے کے قابل ہیں؟ بدقسمتی سے ان سوالوں کا کوئی تسلی بخش جواب کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔

حالات کی سنگینی اور بے انتہا پریشانیوں سے قطع نظر محض یہ کہنے سے مسائل سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ قیادت نا اہل ہے یا اس کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ یا ادارے اپنے آئینی فرائض میں ناکام ہو رہے ہیں۔ کیوں کہ ان مسائل کو سمجھے بغیر ایسی بنیاد فراہم نہیں ہو سکتی جو ان مشکلات سے نکلنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ جو مسائل ہمیں بہت بڑے اور بھیانک دکھائی دیتے ہیں، ان کی وجوہات ہماری روزمرہ چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں اور بے اعتنائیوں میں چھپی ہوتی ہے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ سیاست دان ملک لوٹ کر کھا گئے یا فوج نے سیاست میں حصہ لے کر قوم کا آئینی راستہ کھوٹا کر دیا۔ عام شہریوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا اس بڑی خرابی کو پیدا کرنے میں انہوں نے اپنے رویہ اور مزاج کی وجہ سے بھی کوئی کردار ادا کیا ہے یا نہیں؟

مثال کے طور پر حال ہی میں ملک بھر کے تاجروں نے ایک کامیاب ہڑتال کی تاکہ حکومت انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے سے باز رہے۔ ملک کے تاجر کئی دہائیوں سے متعدد حکومتوں کے خلاف یہ ہتھکنڈا استعمال کرتے رہے ہیں تاکہ وہ اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے سے محفوظ رہیں۔ ان تاجروں کے پاس عذر خواہی کے ہزار بہانے ہوں گے۔ یوں بھی دنیا میں کوئی بھی دولت کمانے والا شخص آسانی سے ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ اس کے باوجود جن ممالک نے ٹیکس نظام کے علاوہ سیاسی معاملات کو ایک خاص ضابطے کا پابند کیا ہے، انہوں نے قوانین و قواعد کا ایسا طریقہ استوار کیا ہے کہ سب شہریوں کو آمدنی کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور سے سیاسی و سماجی آگاہی اور نظام تعلیم کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ عام شہری بھی ٹیکس دینے اور قومی خزانہ میں معاونت کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض بے قاعدگیوں یا قانون شکنی کے اکا دکا واقعات کے علاوہ عام طور سے آمدنی پر ٹیکس سے گریز کا کوئی طریقہ نہ تو قبول کیا جاتا ہے اور نہ ہی اکثریت اس سے بچنا چاہتی ہے۔ کیوں کہ سخت نظام بنانے کے علاوہ شہریوں میں یہ شعور پیدا کیا گیا ہے کہ اگر وہ ٹیکس نہیں دیں گے تو ریاست ان کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں یہ شعور پیدا نہیں کیا جا سکا۔ تاجروں کی حالیہ ہڑتال نے اپوزیشن سیاسی پارٹیوں کی بے بنیاد تائید و حمایت کی وجہ سے ایک بار پھر ’کامیابی‘ حاصل کی۔ حکومت نے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹر کرنے کے طریقہ کار پر ’از سر نو‘ غور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کافی حد تک یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ تاجروں کی طاقت کے سامنے شہباز شریف کی کمزور اور متزلزل حکومت بہت زیادہ شرائط نہیں منوا سکے گی۔ اس کے برعکس جو طبقات ٹیکس دینے سے علی الاعلان انکار کرتے ہیں، وہی بجلی و گیس کے بلوں میں اضافہ پر بھی سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں۔

بلاشبہ پاکستان میں بجلی کی قیمتیں غیر ضروری طور پر زیادہ ہیں اور اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں لیکن کوئی بھی حکومت عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگانے پر اسی لیے مجبور ہوتی ہے کہ جو طبقات ٹیکس دے سکتے ہیں، وہ اسے اپنی قومی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود دیکھا جاسکتا ہے کہ حب الوطنی اور وطن پر جاں نثار کرنے کے دعوے بھی انہیں طبقوں کی طرف سے سننے میں آتے ہیں جو معاشی استعداد کے باوجود قومی خزانہ میں اپنا حصہ ادا نہیں کرتے۔ کمزور حکومت انہیں اس ہٹ دھرمی سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔

پاکستان میں حکومت سے شکوہ و شکایات کا رجحان عام ہے۔ ہر دور میں یہی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت عوام کا خیال نہیں رکھتی اور ان پر محصولات کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ لیکن کوئی یہ بات نہیں سوچتا کہ یہ صورت حال پیدا کرنے میں ان طبقات کا کتنا ہاتھ ہے جو کسی قیمت پر ٹیکس ادا نہیں کرتے اور سہولتیں حاصل کرنے کے لیے ان کی آواز سب سے اونچی ہوتی ہے۔ ایسے میں کوئی یہ ماننے پر بھی آمادہ نہیں کہ جب حکومت کی آمدنی میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، خزانہ خالی ہو گا تو حکومت یہ سارے مطالبات کیسے پورے کرے گی۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ’حکومت ہمارے لیے کیا کرتی ہے، ہم ٹیکس کیوں دیں‘ ۔ ایسے نعروں کی بنیادی وجہ یہ تاثر ہے کہ پاکستان میں اقتدار میں آنے والے لوگ اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، انہیں عوام کی ضرورتوں کا خیال نہیں ہوتا۔ اس تاثر کو پیدا کرنے میں انہی عناصر نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو ہمہ وقت کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔

کرپشن کو ایسا نعرہ بنا لیا گیا ہے گویا ایماندار لیڈر آنے سے ملک میں دودھ شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اپنے ہی دعوے کے مطابق سو فیصد ایماندار عمران خان کے اقتدار میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکی۔ ان کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد خود انہیں بدعنوانی کے متعدد مقدمات میں ملوث کر دیا گیا۔ اس طرح اقتدار کے حصول کے لیے ملک میں ایسا شیطانی چکر شروع ہو چکا ہے جس میں محاورے کے مطابق ’حمام میں سب ہی ننگے ہیں‘ ۔ لیکن یہ طرز عمل دھیرے دھیرے ملک کو زوال اور تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے پر الزام لگاتے ہوئے خود کو ہر غلطی سے مبرا سمجھتا ہے۔

سماجی مزاج کا یہ محض ایک پہلو ہے۔ ریاست کی ناکامی کے دیگر عوامل پر غور کیا جائے تو اس بنیادی نکتے کو سمجھنا ہو گا کہ جب ریاست اپنے شہریوں کے خلاف صف آرا ہو گی اور ایک کے بعد دوسرے گروہ یا علاقے کے لوگوں کو ملک دشمن قرار دے کر ان کا صفایا کرنے کا اعلان کیا جائے گا تو درحقیقت یہ ریاست کی بنیادیں کمزور کرنے کا طریقہ ہے۔ پاکستان 1971 میں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ان حالات کا مشاہدہ کرچکا ہے۔ اس کے باوجود بنیادی مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والوں کو احترام دینے اور ان کا موقف سننے اور مسائل حل کرنے کا طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکا۔ گزشتہ ویک اینڈ پر بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ قوم پرست گروہ نے متعدد جگہوں پر تشدد اور ہلاکت خیزی کا ارتکاب کیا۔ اس کے بعد سے حکومت کا ہر ذمہ دار پوری قوت سے بس ایک ہی اعلان کرتا دکھائی دیا ہے کہ دہشت گردوں کو کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کا سر کچل دیا جائے گا۔ حالانکہ بلوچ عوام کے جائز مسائل پر پیدا ہونے والی پریشانی گزشتہ پانچ چھے دہائی پرانی ہے۔ اتنی ہی مدت سے ریاست طاقت کے زور پر بلوچ عوام کے مطالبات نظر انداز کر کے محض چند شر پسندوں کے قلع قمع میں مشغول دکھائی دی ہے۔

اس کے برعکس اگر عوام کے مسائل حل کر کے اور انہیں سہولتیں فراہم کر کے شدت پسندوں کے خلاف محاذ آرائی کی جاتی تو عوام بھی عسکری اداروں کے شانہ بشانہ ان عناصر کی سرکوبی میں معاونت کرتے۔ عوام کے مسائل کو نظرانداز کر کے عسکری گروہوں کو ختم کرنے کا طریقہ اختیار کرنے سے دیکھا گیا ہے کہ ان گروہوں کو ’رضاکار‘ بھرتی کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ مایوس شہریوں میں کچھ لوگ کچھ نہ جان بوجھ کر اپنی تکلیف کے سبب ہتھیار اٹھا کر ریاست کو للکارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں یہی صورت حال ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

نظام میں خرابیاں دور کرنے اور اور برائیوں سے نمٹنے کے لیے ہوشمندی اختیار کرنے کی بجائے ریاستی ادارے ہر جگہ پر زور زبردستی کرنے اور اپنی مرضی نافذ کرنے کا طریقہ اختیار کرنے پر بضد ہیں۔ یہ سب ہتھکنڈے ریاست کو کمزور کرنے ہی کا طریقہ ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ گزشتہ روز کراچی میں دیکھنے میں آیا۔ پولیس نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو اچانک اٹھا لیا۔ انہیں 8 گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھنے، شدید احتجاج یا ضرورت پوری ہونے پر رہا کر دیا گیا۔ یہ پروفیسر کراچی یونیورسٹی کے اس سنڈیکیٹ کے رکن ہیں جس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کی جعلی ڈگری کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ سنڈیکیٹ کا اجلاس ہفتہ کو ہونے والا تھا لیکن پروفیسر کو غائب کر کے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت یا ریاستی اداروں کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ قبول نہیں ہو سکتا۔ جبر کا یہ ماحول کسی بھی ریاست کو مستحکم کرنے کا سبب نہیں بنتا۔

اسی جبر کی مثال میڈیا پر متعدد پابندیوں کی صورت میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اب سوشل میڈیا پر تنقید کا ایک لفظ کہنے والے کو بھی ملک دشمن کہہ کر اٹھا لینے کا نیا وتیرہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ کوئی مناسب عذر پیش کیے بغیر انٹرنیٹ کی رفتار سست کردی گئی ہے۔ متعدد سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس پر پابندیاں عائد ہیں اور ’آزادی اظہار‘ کو ’ڈیجٹل دہشت گردی‘ کا نام دے کر مسدود کرنے کا طریقہ اعلیٰ ترین ریاستی فورمز کی طرف سے متعارف کروایا جا رہا ہے۔

دوسری طرف عوام پر ریاست کے اعتبار کا یہ عالم ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ وہ کب کس دہشت گرد گروہ سے کیا معاملات طے کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ بدھ کے روز پاک فوج کے لیفٹننٹ کرنل خالد امیر خان، ان کے دو بھائیوں اور بھتیجے کو نامعلوم مسلح افراد نے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے اغوا کیا تھا۔ وہ اس وقت گاؤں کی مسجد میں اپنے مرحوم والد کی فاتحہ خوانی کے لیے جمع تھے۔ ٹی ٹی پی نے بعد میں اغوا شدہ افراد کے ویڈیو پیغامات جاری کیے جن میں تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات ماننے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ انہیں رہائی مل سکے۔ اب آئی ایس پی آر نے اطلاع دی ہے کہ انہیں عمائدین کی مدد سے رہا کرا لیا گیا ہے۔ البتہ اس بیان میں یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ ان لوگوں کو کن عناصر نے اغوا کیا تھا اور انہیں رہا کرانے کے لیے ان کے کون سے مطالبات مانے گئے ہیں۔

یہ چند مثالیں دینے کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ریاست اعتبار اور باہمی احترام کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔ عوام ریاست پر اور ریاست اپنے لوگوں پر اعتبار کرتی ہے۔ اسی احترام کی بنیاد متفقہ آئین مان کر اس کے تحت بنائے گئے قوانین کو ہر شہری، ادارہ، حکومت اور اپوزیشن قبول کرتی ہے۔ جب آئین و قانون کو نعرہ بنالیا جائے اور مرضی مسلط کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈا جائز سمجھا جائے تو ایسی ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد قائم نہیں رہتا۔ یہ ماحول کسی بھی ریاست کے کمزور ہو کر بکھرنے کا نقطہ آغاز بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2887 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments