جنگ میں شکست کی صورت میں ہندو خواتین کی اجتماعی خودکشی اور ریاست جھال


ہندو دھرم میں ایسی اجتماعی خودکشی کو جوہر کہتے ہیں۔ یہ ستی کی طرح ایک رسم ہے۔ تاریخی کتب میں اس بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ یہ رسم اس وقت شروع ہوئی جب یونانیوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔ کچھ نے یہ لکھا کہ یہ رسم صرف اس صورت میں ادا کی جاتی تھی جب مسلمان اور ہندو راجپوتوں کی لڑائی ہوتی تھی۔ ایک مؤرخ یہ بھی لکھتا ہے کہ یہ رسم اس وقت ادا کی جاتی رہی جب ہندوستان میں راجپوتوں کی آپسی لڑائیاں ہوتی تھیں۔ ان تینوں میں کون سی بات سچ ہے وہ جاننا کافی مشکل ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ رسم صرف شمالی ہندوستان کے اُن علاقوں میں ہوتی تھی جہاں راجپوتوں کی حکومت تھی یا راجپوت بہت بڑی تعداد میں آباد تھے۔

جھالاوار کے علاقے گرگروں (Gargron) کے قلعے پر قبضے کے دوران دو مرتبہ ایسا موقع آیا کہ جب اس رسم کو ادا کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس رسم کو ادا کیا گیا۔ جب میں اس علاقے سے گزر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں خواتین نے اپنے آپ کو ہلاک کیا یا ان کے مردوں نے ان کی مرضی کے خلاف انھیں جلایا تھا۔ اب تو اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاتا لیکن کسی دور میں یہ عام سی بات تھی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ستی کی رسم بھی عام تھی جس میں خاوند کے انتقال کی صورت میں بیوی کا جل جانا بھی ایک مذہبی معاملہ سمجھا جاتا تھا۔

تاریخ میں آتا ہے کہ رنجیت سنگھ کی میت کے ساتھ چودہ خواتین نے بھی موت کو گلے لگایا تھا۔ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ جتنا بڑا آدمی ہوتا اتنی بڑی تعداد میں خواتین اپنے آپ کو جلاتی تھیں بیویوں کے علاوہ اس تعداد میں کنیزیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ میرے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ ہندو دھرم میں جو ہمیشہ امن و آشتی کی بات کرتا ہے اس بات کو کیسے قبول کیا گیا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کی بیوی کو بھی باقاعدہ تیار کر کے شمشان گھاٹ پر لے جا کہ زندہ جلایا جاتا تھا۔ جو خاتون ایسا کرتی تھی اسے عزت دی جاتی تھی۔ اسے دیوی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

جیسا کہ میں نے پچھلے صفحات میں لکھا کہ جب ایک ریاست کے راجہ کا بیٹا رتن سنگھ ایک جنگ میں مارا گیا تو اس کے باپ نے اپنی بہو کو ستی ہونے سے منع کیا اور بعد میں وہ خاتون اس علاقے میں تیس سال تک حکمران رہی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی چاہے کہ ان کے ہاں کوئی خاتون ستی نہ ہو تو یہ بھی ممکن تھا۔ اس سب کے باوجود میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہندو دھرم نے اتنے تکلیف دہ عمل جس میں ایک زندہ خاتون کو جلایا جاتا تھا کو کس طرح سے برداشت کیا اور کس طرح سے اپنے ہاں پروان چڑھایا۔ کس بے دردی سے ان کے بچوں کو یتیم اور بے آسرا کیا جاتا تھا۔ بہرحال یہ تاریخ کا واقعہ ہے جو ہوتا رہا ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

اس موقع پر میں یہ بات بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس کی گواہی میرے اپنے خاندان سے بھی میرے پاس موجود ہے کہ جب تقسیم ہند کے وقت فسادات ہوئے تب بھی بہت سی مسلمان خواتین نے کنوؤں میں چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیا تھا تاکہ وہ ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ ہمارے خاندان کی خواتین نے بھی ایسا کیا۔ میری ایک رشتے کی خالہ جس کی تین بچیاں تھیں نے ایک کنویں میں چھلانگ لگائی ان کی دو بچیاں بچ گئیں اور ایک بچی ان کے ساتھ ہی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ جو ایک بچی بچ گئی اس کی شادی میرے چچا کے ساتھ ہوئی۔

تقسیم ہند کے وقت کسی خاندان کی ہجرت کا واقعہ پڑھتے ہوئے مجھے پتہ چلا کہ فسادات کے وقت جب ان کے گاؤں پر حملہ ہوا تو وہ اپنے گاؤں کی تمام خواتین کو قریب سے گزرنے والی ندی کے کنارے لے گئے اور انھیں وہاں کھڑا کر کے کہا کہ اگر ہندو اور سکھ فسادیوں نے ہم پر غلبہ حاصل کر لیا اور ہم مارے گئے تو آپ آگے آنے کی بجائے ندی میں چلی جائیں گی تاکہ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ہاتھ لگنے سے بچا سکیں۔ فسادی جیت گئے اور پھر وہی ہوا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ وہ بھی ایک اجتماعی خودکشی تھی۔ اللہ رُب العزت سے دعا ہے اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایسی صورت حال سے محفوظ رکھے۔ آمین

جھالاور ریاست اور راجپوت حکمران

جھالاور ریاست کا بانی ایک راجپوت سردار، جھالہ زلیم سنگھ تھا۔ جھالہ زلیم سنگھ اس وقت کی ایک بڑی ریاست کوٹا میں دیوان کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس علاقے میں ایک فوجی چھاؤنی تھی جس کا نام امید پورہ تھا۔ جھالہ زلیم سنگھ نے اس علاقے کو مرہٹوں کا راستہ روکنے کے اعتبار سے موزوں جانتے ہوئے اسے ایک فوجی چھاؤنی کی حیثیت سے ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ ریاست کوٹا کو بچانے کا ایک منصوبہ تھا۔ پھر ایک وقت آیا جب انگریزوں نے جھالہ زلیم سنگھ کی خدمات کے اعتراف میں ایک بڑے علاقے کو ریاست کوٹہ سے الگ کر کے زلیم سنگھ کے پوتے جھالہ مدن سنگھ کو اس کا حکمران بنا دیا۔ اس طرح وہ ریاست جھالاور کے پہلے حکمران بنے اور انھوں نے جھالاور کی تاریخ میں نمایاں مقام بھی حاصل کیا۔

سی ایس بائلے نے (صفحہ 85 ) پر لکھا ہے کہ اس ریاست کے حکمرانوں کا تعلق کوٹہ سے تھا اور وہ جھالا قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کاٹھیاواڑ سے اس علاقے میں آئے تھے۔ جھالاور کے مرکزی قصبے کو پتن یا جھلارا پتن بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر سے چار میل کے فاصلہ پر ایک محل کی باقیات موجود ہیں جن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں کسی دور میں چندراوتی نام کا ایک شہر تھا جسے اورنگزیب کے دور میں تباہ کیا گیا۔ اس علاقے میں ایک مندر کی باقیات بھی پائی جاتی ہیں۔ کوٹہ ریاست کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے جھالا زلیم سنگھ کو اپنی الگ سلطنت قائم کرنے کا موقع ملا، جس کے لیے اسے انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس نے انگریزوں سے ایک معاہدہ کیا جس میں اس نے انگریزوں کی بالادستی کو تسلیم کیا اور سالانہ خراج کے طور پر ایک بڑی رقم سے کسی بھی مشکل صورت میں انگریزوں کی امداد کو یقینی بنایا۔ اس سب کے بدلے انگریزوں نے مدن سنگھ کو مہاراجہ رانا کا خطاب دیا۔

جھالاوار ضلع میں واقع یہ قلعہ چاروں طرف سے پانی سے گھرا ہوا ہے۔ یہ قلعہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ آج تک کوئی اس کی بنیادوں کے بارے میں نہیں جان سکا۔ اس قلعے میں کئی منزلیں ہیں۔ اپنے طرزِ تعمیر کی وجہ سے اسے بھارت بھر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

اس علاقے میں دو تھرمل پاور یونٹ بھی کام کر رہے ہیں۔ جن کی استطاعت بارہ سو میگا واٹ ہے۔ یہاں دنیا کی سب سے اونچی چمنی بھی لگائی گئی ہے جس کی اونچائی نو سو فٹ ہے۔ جھاوار پتن کے علاقے میں ہزار سال سے بھی پرانے مندر موجود ہیں۔ جن میں سے اب چند ہی اپنی اصل حالت میں ہیں۔ یہاں موجود سن مندر یا سوریا مندر ہی وہ قدیم مندر ہے جو اپنے طرزِ تعمیر کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments