کتھا، قاری، اور نور جونیجو کا”مہذب وحشی”
یہ سندھ ہے، ہزار راتوں پر محیط داستان عشق۔
یہ سندھ ہے۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا امین۔ صوفیوں کی سرزمین۔ علم کے متلاشیوں کا مرکز۔ اور اسی سندھ کے باطن سے نور جونیجو کے فکشن کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ جدید سندھ سے، اُس کی انفرادیت، اس کے تفاخر، اور اس کے مصائب سے۔ اس کی آرزوؤں، اس کے اندیشوں سے۔ اس کے مرکز سے نور جونیجو کی کہانیاں نکلتی ہیں، اور بہتی چلی جاتی ہیں۔ اس کا ناول ”مہذب وحشی“ سرمایہ دارانہ نظام اور تاریخی کروٹوں سے جنم لینے والی تہذیب کے پردے میں موجود وحشت سے ہمیں روبرو کراتا ہے۔
ہم اس ناول کے وسیلے سندھ کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے طرز فکر سے، ان کی مسرت، ان کے غموں سے، ان میں موجود امکانات اور محدودات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ نور جونیجو کے کردار کبیر کے وسیلے آگہی کے عذاب میں مبتلا آج کے نوجوان سے ہم کلام ہوتے ہیں، جس کے پاس کئی سوالات ہیں، کئی احساسات ہیں۔ وہ مسرور ہے، مطمئن ہے، مگر شاکی ہے۔ پا چکا ہے، مگر ہنوز تلاش میں ہے۔
ناول کا عنوان ”مہذب وحشی“ متضادات کیفیات کو یک جا کر کے قارئین کو صورت حال کی لایعنیت، عصری پیچیدگی اور پوسٹ ماڈرن دنیا میں آفاقی تصورات کی شکست و ریخت کی سمت متوجہ کرتا ہے۔ یہ عنوان ہمیں نہ صرف بیانیے میں موجود ”عصری تضادات“ کا اشارہ دیتا ہے، بلکہ ایک معنوں میں Uncertainty of Language کی بھی جھلک دکھاتا ہے۔ ناول خارج سے زیادہ داخل کی سیر کراتا ہے۔ یہ کردار کی سوچ کے در ہم پر وا کرتا ہے۔ اس کے نظریات، سوالات، خدشات کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ روحانیت، انسانیت، آفاقیت سے متعلق اس کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یوں یہ ناول بیانیہ ہی نہیں رہتا، بلکہ کلامیہ بھی ٹھہرتا ہے۔
ایک سمت یہ ناول ہمیں مرکزی کردار کبیر کے مطالعے، اس مطالعے سے کشید کردہ افکار سے روشناس کراتا ہے، وہیں نور نے ایلسا کے کردار کا اہتمام کر کے اس تنوع اور رنگ رنگی کو منظر کیا ہے، جو مختلف تاریخی اور سماجی ڈھانچوں سے جنم لیتی ہے، جس سے انسان کا اپنا فکری ڈھانچا تشکیل پاتا ہے، اور یوں وہ اوروں جیسا ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے۔ جیسے کبیر اور ایلسا ایک جیسی کتابیں پڑھنے کے باوجود مختلف ہیں۔ اپنے اندر مکمل کائنات۔ جنت اور جہنم کا امتزاج۔
ناول کے کرداروں کے افکار بار بار اس خطے کے سماجی، سیاسی، مذہبی مہا بیانیوں کو چیلنج کرتے ہیں۔ دو مختلف کرداروں کے مابین مکالمے میں زبان یا الفاظ میں پنہاں معنوں کی arbitrariness کے ساتھ ساتھ یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ کیسے معنی التوا کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گو ناول میں واقعات نگاری سے زیادہ افکار کو حیثیت دی گئی ہے، مگر خودکلامی پر مبنی یہ بیانیہ اپنی literariness کے باعث ہمیں باندھے رکھتا ہے۔ اور ہمیں غالب اور شاہ لطیف سے ملواتا ہے۔
یہاں مجھے ہوزے سارا ماگو کا لازوال ناول Blindness یاد آتا ہے، جس کے مرکزی کردار نے کہا تھا: ”ہم سب اندھے ہیں، آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے۔“
نور جونیجو کا ناول بھی ہمیں یہی خبر دیتا ہے کہ ہم تہذیب کے مہذب چولے میں بھی وحشت کے پہلو میں محو استراحت ہیں۔
میرے لیے یہ ایک قابل توجہ، قابل مطالعہ کتاب ہے، جس نے اپنے قارئین کھوج نکالے۔ قارئین، جو نور کے متاثر فکشن میں اپنی جیون کہانی پڑھ سکتے تھے۔ وہ سن سکتے تھے، جو انھوں نے نہیں کہا، مگر کہنا چاہا۔ اور یوں یہ کتاب اہم ہو جاتی ہے۔
سندھی زبان میں شائع ہونے والے اس ناول کی پذیرائی متوقع تھی کہ یہ آج کی کہانی ہے۔ ننگر چنا صاحب کے اردو ترجمہ کو بھی سراہا گیا۔ بے شک چنا صاحب کی کاوش قابل قدر ہے۔ اب یہ ترجمہ ہندوستان میں شائع ہونے جا رہا ہے۔
سندھ کا نوجوان اب ہند کے سفر پر نکلا ہے۔ اس سفر کے لیے نیک آرزوئیں۔
- کتھا، قاری، اور نور جونیجو کا ”مہذب وحشی“ - 05/09/2024
- کتھا، قاری، اور نور جونیجو کا”مہذب وحشی” - 05/09/2024
- فرخ اور عرفان کا “قائد اسکواڈ”: ناول میں متوازی تاریخ کا تجربہ - 17/08/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).