ہمارے سماج کے ”عریاں“ دانش گرد
مذہب اور عقیدہ ہر انسان کا ذاتی انتخاب ہوتا ہے جس میں مداخلت کرنا یا خدائی فوجدار بن کر دوسروں کو راہ راست پر لانے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ کسی کی انفرادی یا نجی حد کا احترام کرنا انسانیت کا تقاضا ہوتا ہے اور اخلاقیات کے بلند ترین اصولوں میں سے ایک اہم اصول ہے۔ جب آپ اخلاقی پہرے دار بن کر دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے لگتے ہیں تو انسانی معیار کی پست ترین سطح تک گر جاتے ہیں۔ ذاتی عقائد کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا اور اسی فکس فریم میں رکھ کر دوسروں کے متعلق حتمی رائے قائم کر لینا کوئی دانشمندانہ رویہ نہیں ہوتا۔
سوشل میڈیا کی برکت سے وہ تمام چہرے رفتہ رفتہ بے نقاب ہونے لگے ہیں جو ٹی وی اسکرین پر تو بھاشن بازی کرتے ہیں لیکن نجی زندگی میں انتہائی بدبودار کردار کے مالک ہوتے ہیں۔
عمر چیمہ کے مطابق تفتیش کے دوران اوریا مقبول جان کے موبائل میں سے انتہائی نازیبا اور برہنہ تصاویر برآمد ہوئی ہیں، خود کی برہنہ تصاویر کے علاوہ کوئی پارٹی شارٹس بھی نکلے ہیں۔ یہ وہی اوریا مقبول جان ہیں جو اپنے ایمان افروز لیکچرز کے ذریعے سے بھولے بھالے عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں اور استحصالی چکرویو کے خاصے رمز شناس ہیں۔ ان کے موبائل سے ملنے والا نیوڈ میٹریل ان کے شخصی تضادات اور قول و فعل میں واضح خامیوں کو عریاں کر رہا ہے اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ جو جتنا زیادہ مذہب کارڈ کا استعمال کرتا ہے وہ اتنا ہی بڑا رانگ نمبر ہوتا ہے۔ جی یہ وہی حضرت ہیں جو اپنا روحانی رشتہ طالبان سے جوڑتے ہیں، خواتین کی تعلیم اور آ زادی کے قائل نہیں ہیں حالانکہ ان کی دونوں بیٹیاں یورپ میں آ باد ہیں، نہ صرف انہوں نے وہاں سے تعلیم حاصل کی ہے بلکہ شادیاں بھی وہیں کی ہیں اور ایک فرزند ہیں وہ بھی باہر رہتے ہیں۔
یہ وہی ہیں جنہیں خواتین کے گیم کے لباس میں عریانی اور بے حیائی دکھائی دیتی ہے، غزوہ ہند پر لیکچر دیتے ہیں اور یورپ کی خامیاں گنواتے رہتے ہیں جبکہ اولاد یورپ سدھار چکی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو ملک میں رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود پیشی کے دوران یہ فرما رہے ہیں۔ “ان کے بچے تو باہر رہتے ہیں لیکن وہ کہیں نہیں جائیں گے ان کا مرنا جینا اسی ملک میں ہو گا۔“ جناب! آپ کا یورپ میں کام بھی کیا ہے؟ جذباتیت کا جو سطحی سا منجن آپ ادھر بیچتے ہیں اس کی وہاں مانگ نہیں ہے وہ صرف یہیں بک سکتا ہے۔ آپ ایسے لوگ تو وہاں جا کر بیگانگی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہاں تضاد بیانیوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اسی لیے تو آپ یہاں رہنا چاہتے ہیں اور بچی کھچی زندگی کو پوری شان سے جینا چاہتے ہیں۔
ہمیں اوریا مقبول جان یا کسی کی بھی نجی زندگی یا عقیدے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ مذہب و عقیدہ کے نام پر خود کو چنیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسروں کے متعلق ججمینٹل بنے رہتے ہیں۔ جب آپ اپنے مخصوص نقطہ نظر سے دوسروں کو جج کریں اور اخلاقی ٹھیکیدار بن کر دوسروں کو بھاشن بازی کریں گے تو پھر آپ پر بھی انگلیاں اٹھیں گی اور آپ کو بھی اسی پلڑے میں تولا جائے گا جس میں ساری زندگی آپ دوسروں کو تولتے رہتے ہیں۔
- اوئے بچی چیک کر ذرا، کیا غضب مال ہے - 13/09/2024
- میاں چنوں کے ایک بزرگ شہری کو خواب میں حضرت داتا گنج بخش کا دیدار - 08/09/2024
- ہمارے سماج کے ”عریاں“ دانش گرد - 05/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).