ہمارے ملک کے پیدل لوگ۔


ارے غلط مت سمجھیں میں بات کر رہا ہوں ہمارے ملک میں پیدل چلنے والے لوگوں کے بارے میں۔ میری رائے میں اپنے ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر پیدل چلنا ایک آرٹ اور ”گیان“ افروز تجربہ ہے۔ جس طرح سواری پر سوار لوگ پیدل چلنے والوں کا خیال نہیں کرتے بالکل اسی طرح پیدل چلنے والوں پر یہ واجب ہے کہ وہ گاڑیوں اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو بھی خاطر میں نہ لائیں بلکہ ٹکر ہو جانے کی صورت میں فوراً مظلوم بن جائیں اور ان کی اچھی ”خاطر مدارت“ کریں۔

کوئی بھی سڑک پار کرنے سے پہلے ہمارے عوام انگریزی حروف تہجی کے آخری لفظ ”Z“ کے درمیانی ڈنڈے کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس طرح سیدھی سڑک کو ترچھا پار کرنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اطراف سے آنے والی گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے والا یہ فیصلہ کر پاتا ہے کہ بریک لگانی ہے یا سائیڈ سے کٹ مار کر بھی نکلا جا سکتا ہے۔ قسمت یارانہ کرے تو کٹ مارنے والا راستہ احسن ہے کیوں کہ اس طرح بریک شو اور ٹائر کم گھستا ہے اور لمبی عمر پاتا ہے۔

چلتے چلتے اچانک رک جانا بھی ہمارے پیدل چلنے والے عوام کا خاصہ ہے۔ اس سے سوچ کو تقویت ملتی ہے اور ٹانگوں کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اچانک رک جانے کی وجوہات تو لازمی ہوں گی۔ کوئی سودا سلف خریدنے سے رہ گیا ہو گا یا بندہ راستہ بھی تو بھول جاتا ہے کبھی کبھی۔ پیدل چلتے ہوئے اگر فون آ جائے تو بھی ایک دم رک جانا بہتر ہوتا ہے کیوں کہ ٹانگیں حرکت میں ہوں تو کان کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

ایک مرتبہ سڑک کراس کرنے کے لیے پل کا استعمال کرنے کا اتفاق ہوا۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت ایک صاحب میرے آگے تقریباً 2 سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگ کر چڑھ رہے تھے۔ میں اپنی دھن میں مگن تھا اور معلوم نہیں کب ان پر کسی گیان کا انزال ہوا اور وہ ایک دم رک گئے۔ میرا سر ان کی تشریف میں ”تسلیم خم“ ہو گیا۔ بات اور جگہ ایسی تھی کہ دونوں ہی چونک گئے۔ فوراً کھسیانے ہو کر ڈبل ”و“ کے ساتھ میرے خجالت آمیز چہرے پر ”سووری“ چھڑک کر بولے کہ اچانک فون آ گیا تھا۔ غالباً پشت کی جیب میں فون وائبریشن پر رکھا تھا جو اچانک رک کر انھوں نے نکال لیا تھا۔ شکر ہے مجھے چوٹ نہیں لگی۔

معلوم نہیں انتظامیہ زیبرا کراسنگ بنانے کے نام پر اتنا سفید پینٹ کیوں ضائع کر دیتی ہے۔ سڑک تو کہیں سے بھی کراس کی جا سکتی ہے تو پھر اس پینٹ کے پیسے بچا کر ملکی معیشت کی ترقی میں کیوں نہیں لگائے جاتے۔ اس کے علاوہ بڑی شاہراہوں کو پار کرنے کے لیے پل بنا کر بھی بہت سا روپیہ ضائع کیا جاتا ہے۔ یہ پل ہمیشہ سنسان اور اندھیرے رہتے ہیں جس کی وجہ سے غیر نصابی سرگرمیاں یہاں فروغ پانے لگتی ہیں اس لیے انھیں فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔

میں نے حساب لگایا ہے کہ یہ سب نخرے ہمیں انگریز سکھا گیا ہے۔ وہ لوگ خواہ مخواہ انسانوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔ لندن میں پیدل چلنے کا اتفاق ہوا تو بہت ہی عجیب لگا مجھے۔ ایک فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے میں نے دیکھا سامنے سے دو تین لوگ آ رہے تھے۔ ابھی وہ سب کچھ فاصلے پر تھے لیکن تھوڑا سائیڈ پر ہو کر چلنے لگے تا کہ ٹکراؤ نہ ہو۔ مجھے عجیب لگا کہ ہمارے یہاں تو بالکل ناک تک آ کر بھی اکثر راستہ نہیں بدلہ جاتا۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔

ایسے ہی وہ لوگ سگنل پر موجود زیبرا کراسنگ کے ذریعے سڑک کراس کرتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر اگر سگنل نہیں ہے اور سڑک کراس کرنی ہو تو ایک مسلسل جلتی ہوئی پیلی بتی کے زیر سایہ زیبرا کراسنگ بنا دی گئی ہے جہاں سے پیدل چلنے والے سڑک کراس کر سکتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ اس تجربے سے گزرا تو بڑی حیرانی ہوئی۔ اتنی ٹریفک نہیں تھی سو میں نے جیسے ہی سڑک پر پاؤں رکھا تو کچھ دور سے آتی ہوئی گاڑیاں بھی رک گئیں تا کہ میں سکون سے اس پار چلا جاؤں۔ شکر ہے میں دو دن بعد واپس اپنے ملک آ گیا ورنہ اس عمل بد کی عادت ہو جاتی تو چھٹکارا کیسے پاتا۔ ملک واپس آ کر میں نے دو چار مرتبہ دیسی انداز سے جان جوکھم میں ڈال کر سڑک کراس کی اور خدا کا شکر ادا کیا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ”ہوائی روزی“ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔

khawar-jamal has 53 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments