حسینہ واجد کا انڈیا میں قیام خطے میں دہلی کے لیے کیا مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟
انباراسن ایتھیراجن اور وکاس پانڈے - بی بی سی نیوز
بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج کے بعد حالات کی خرابی اور مُلک چھوڑنے پر مجبور ہو جانے والی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد گزشتہ ایک ماہ سے انڈیا میں ہیں۔
5 اگست وہ دن تھا جب مُلک میں کئی ہفتوں سے جاری طلبہ کے احتجاج نے بد ترین شکل اختیار کی اور شیخ حسینہ واجد کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر مُلک چھوڑنا پڑا۔
ابتدائی طور پر یہی خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ انڈیا میں اُن کا قیام مختصر ہو گا لیکن اب تک سامنے آنے والی رپورٹس اور اطلاعات کے مطابق برطانیہ، امریکا اور متحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں انھیں ناکامی ہوئی ہے یا یہ کہہ لیں کے ابھی تک انھیں اس معاملے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
انڈیا میں اُن کی موجودگی نے ڈھاکہ میں نئی عبوری حکومت کے ساتھ مضبوط اور مستحکم تعلقات استوار کرنے میں دہلی کے لیے مُشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔
انڈیا کے لیے بنگلہ دیش صرف ایک ہمسایہ ملک نہیں بلکہ ایک ایسا سٹریٹجک پارٹنر اور قریبی اتحادی ہے جو خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں انڈیا کی سرحد کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 4,096 کلومیٹر (2,545 میل) طویل سرحد ہے جس کی وجہ سے انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں سے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کے لیے بنگلہ دیش میں داخل ہونا نسبتاً آسان ہے۔
سنہ 2009 میں شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے کچھ عسکریت پسند گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا۔ مُلک میں اپنے ان سخت اقدامات کے باوجود حسینہ واجد نے ہمسایہ مُلک انڈیا کے ساتھ متعدد سرحدی تنازعات کو بھی خوش اسلوبی سے حل کیا۔
اگرچہ سرحدی امور دو مُلکوں کے درمیان انتہائی نازک اور اہم معاملہ ہوتا ہے تاہم انڈیا اور بنگلہ دیش نے معاشی طور پر بھی اچھے ہمسائیوں کی طرح ایک دوسرے کی اس معاملے میں معاونت کی۔ حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکومت میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات اور رابطوں کو فروغ ملا۔
انڈیا اپنی شمال مشرقی ریاستوں تک سامان پہنچانے کے لیے بنگلہ دیش کی مدد لیتا رہا۔ اس کام کے لیے اُس نے بنگلہ دیش کی سڑکوں، ٹرین اور دریا کے راستے بھی استعمال کیے۔
سنہ 2010 سے اب تک انڈیا نے بنگلہ دیش کو بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے 7 ارب ڈالر سے زائد قرض دیا۔
حسینہ واجد کے اچانک چلے جانے کا مطلب یہ ہے کہ دہلی کو یہ یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کرنی ہو گی کہ وہ جو فوائد بنگلہ دیش سے اب تک حاصل کرتا رہا ہے، اُن میں کمی نہیں آئے گی۔
ڈھاکہ میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر پنک رنجن چکرورتی کا کہنا ہے کہ ’یہ اس لحاظ سے انڈیا کے لیے ایک شدید دھچکہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں کشیدہ حالات ہمارے لیے کبھی بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے۔‘
لیکن سابق سفارت کار اس بات پر بھی زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہلی ڈھاکہ میں عبوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گا کیونکہ ’اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں‘ اور ’یہ بھی کہ آپ کسی مُلک کو یہ حکم نہیں دے سکتے کہ وہ کیا کرے۔‘
انڈیا کی جانب سے مُلکی مفادات اور حالات کو سمجھنے میں کسی بھی قسم کی سُستی نہیں کی گئی اور بنا وقت ضائع کیے ڈھاکہ میں عبوری حکومت سے رابطہ کیا گیا، وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا گیا۔
تاہم دہلی کو بنگلہ دیش میں گزشتہ 15 سال سے حسینہ واجد اور ان کی عوامی لیگ کی غیر متزلزل حمایت کے بعد حالات کو معمول پر لانے اور بنگلہ دیشی عوام میں پائے جانے والے غم و غصے کو کم کرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔
بہت سے بنگلہ دیشی انڈیا سے اس وجہ سے بھی ناراض ہیں کیونکہ انڈیا نے بنگلہ دیش میں تین مرتبہ متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی حسینہ واجد اور اُن کی سیاسی جماعت کی حمایت کا اعلان کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر دہلی علاقائی طاقت کے طور پر اپنی حیثیت کو بچانا چاہتا ہے تو وہ کسی دوسرے ہمسایہ ملک میں اپنا اثر و رسوخ کھونے کا متحمل نہیں ہوسکتا خاص طور پر جب حریف چین بھی خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ سال ہی محمد معظم نے مالدیپ میں صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے انڈیا مخالف موقف کی مدد لی۔
ڈھاکہ میں سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے سینئر ماہرِ اقتصادیات دیباپریا بھٹاچاریہ کہتے ہیں کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا اپنی علاقائی پالیسی کے بارے میں غور و فکر کرے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دہلی کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اس نے اپنے علاقائی شراکت داروں کے نقطہ نظر کو مناسب طریقے سے اپنایا یا نہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
- شیخ حسینہ کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ ہونے کے بعد انڈیا کو ’بہترین کی امید، بدترین کی تیاری‘
- شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کی درخواست آئی تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟
- ’کچھ ماہ تو موت کے کنویں میں گزرے‘: بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ جیل ’آئینہ گھر‘ جہاں قیدی روشنی کو بھی ترس جاتے
- ’انڈیا پر حد سے زیادہ انحصار‘ سمیت وہ عوامل جنھوں نے شیخ حسینہ کے خلاف بغاوت میں کردار ادا کیا
بنگلہ دیش کی معاشی صورتحال پر وائٹ پیپر تیار کرنے کے لیے عبوری حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹی کے سربراہ بھٹا چاریہ کہتے ہیں کہ ’میں نہ صرف بنگلہ دیش کے بارے میں بات کر رہا ہوں بلکہ خطے کے تقریبا تمام دیگر ممالک کے بارے میں بھی بات کر رہا ہوں۔‘
مثال کے طور پر بنگلہ دیش کے معاملے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا بنگلہ دیش میں حزبِ اختلاف کی دیگر سیاسی جماعتوں خاص طور پر خالدہ ضیا کی نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ساتھ بات چیت کرنے میں ناکام رہا۔
بی این پی کے ایک سینئر رہنما عبدالمعین خان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا نے یہ سوچ کر ایک بڑی سٹریٹجک غلطی کی کہ بنگلہ دیش میں صرف ایک سیاسی جماعت عوامی لیگ ہی اُن کی اتحادی ہے۔‘
بی این پی رہنماؤں کو اس بات کا یقین ہے کہ اگر بنگلہ دیش میں آنے والے مہینوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تو وہ ہی کامیاب ہوں گے۔
یہ دہلی کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہوگا۔ انڈیا اور بی این پی کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جس کی قیادت بیگم خالدہ ضیا کر رہی ہیں، جو مُلک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔
سنہ 2018 کے بعد سے اپنا زیادہ تر وقت جیل میں گزارنے والی خالدہ ضیا نے ہمیشہ اپنے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو مسترد کیا اور حسینہ واجد پر سیاسی انتقام لینے کا الزام عائد کیا تاہم حسینہ واجد کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد اب وہ جیل سے رہا ہو چکی ہیں اور اُن کا علاج جاری ہے۔
آنے والے دنوں میں دہلی اور بی این پی کے رہنماؤں کو اپنے اختلافات کو دور کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
2001 سے 2006 تک بی این پی کی زیرِ قیادت سابقہ مخلوط حکومت کے دوران، تعلقات اس وقت خراب ہوئے کہ جب دہلی کی جانب سے ڈھاکہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ اُس نے انڈیا کے شمال مشرقی علاقوں کے باغیوں کو محفوظ پناہ فراہم کی۔
خالدہ ضیا کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش میں ہندو رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اسلام پسند جماعتوں اور بی این پی کی جانب سے ان کے خلاف قتل، لوٹ مار اور ریپ سمیت کئی حملے کیے گئے تھے جو 2001 میں انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی شروع ہوئے تھے۔
تاہم بی این پی کی جانب سے انڈیا مخالف باغیوں کو اپنی سر زمین پر محفوظ پناہ گاہیں فرام کرنے اور 2001 میں اقلیتی ہندوؤں پر حملے کرنے کے الزامات سے انکار کیا جاتا رہا ہے۔
عبدالمعین خان سمیت بی این پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انڈیا ان کے ساتھ معاملات کو بڑھانے اور بات چیت کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ دہلی کو اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی پرے گی۔‘
انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا جیسی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی قوت کے سامنے بی این پی کبھی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ بنگلہ دیش کے اندر انڈیا مخالف شدت پسندوں کو پناہ دے۔
انڈیا سے ناراضی اور غصے کے کُچھ دیگر عوامل بھی ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان 54 دریا ہیں اور آبی وسائل کی تقسیم ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔
مشرقی بنگلہ دیش میں شدید بارشوں کی وجہ سے آنے والا حالیہ سیلاب اس بات کی ایک مثال ہے کہ کس طرح غلط معلومات دونوں ممالک کے درمیان شکوک و شبہات کو ہوا دے سکتی ہیں۔
انڈین ریاست تریپورہ میں موسلادھار بارش کے بعد اضافی پانی دونوں ممالک کے درمیان بہنے والی دریائے گمٹی میں شامل ہوا جس سے ریاست کے اندر اور پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے نشیبی علاقے زیرِ آب آئے۔
لاکھوں افراد متاثر ہوئے، گھر، ساز و سامان حتیٰ کے فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس تباہ کُن سیلاب کے بعد بنگلہ دیش کے لوگوں نے سوشل میڈیا کی مدد سے انڈیا پر اپنا غصہ نکالا اور اس تباہی کی ذمہ داری انھوں نے انڈیا پر عائد کی۔
بنگلہ دیش کی عوام کی جانب سے انڈیا پر الزام لگائے جانے کے بعد انڈین وزارتِ خارجہ کو اس کی تردید کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرنا پڑا، جس میں انڈیا کی جانب سے یہ وضاحت دی گئی کہ سیلاب گومتی ندی سے جُرے علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے آیا نہ کہ انڈیا کی جانب سے ڈیم سے پانی چھوڑنے کی وجہ سے۔
دریاؤں اور آبی وسائل کے علاوہ ایک اور معاملہ بھی دونوں مُمالک کے درمیان حالات کی خرابی کی وجہ ہے اور وہ ہے چین۔
بیجنگ بنگلہ دیش میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ وہ اپنے دوسرے ہمسایہ مُلک انڈیا کے ساتھ علاقائی بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہے۔
مالدیپ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورے کے لیے چین کا انتخاب کرتے ہوئے معظم کا چین میں شاندار استقبال کیا گیا۔
دہلی کو اس بات کا خدشہ ہے کہ مالدیپ کی طرح بنگلہ دیش بھی کہیں اسی راستے پر نہ چل نکلے تاہم انڈیا کو اس بات کی اُمید ہے کہ بنگلہ دیش کا انڈیا کے سامان اور تجارت پر انحصار کی وجہ سے وہ اپنی سفارتی حکمت عملی پر کام کرنے اور اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لیے کُچھ وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
لہٰذا دہلی کو حسینہ واجد کی انڈیا میں موجودگی کے بارے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا، خاص طور پر اگر نئی حکومت اُن کی باضابطہ حوالگی کی درخواست کرتی ہے۔
حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد جوئے کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری ہونے والے ایک بیان نے پہلے ہی بنگلہ دیش میں اُن کے خاندان سے متعلق لوگوں میں پائے جانے والے غصے کو ہوا دے دی تھی۔
ماہرِ اقتصادیات دیباپریا بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انڈیا میں ان کی مہمان نوازی کس طرح سے کی جا رہی ہے لیکن ہاں اس بات سے ضرور فرق پڑے گا کہ اگر وہ وہاں (انڈیا) قیام کے دوران مُلکی معاملات میں کس بھی طرح کی مداخلت کرتی ہیں۔‘
بھٹاچاریہ نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ (حسینہ واجد) انڈیا میں بیٹھ کر بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری حکومت کے خلاف کوئی بات کرتی ہیں یا بیان دیتی ہیں تو اُسے مُلک دشمنی کے مترادف سمجھا جائے گا۔
دہلی یہ چاہے گا کہ حسینہ واجد انڈیا کو بیچ میں لائے بغیر اپنے لیے کسی مناسب راستے کا انتخاب کریں۔
اسی بارے میں
- سوا پانچ لاکھ آبادی والا چھوٹا سا ملک مالدیپ انڈیا کو چیلنج کیوں کر رہا ہے؟ ’انڈین فوجی 15 مارچ تک جزیرے سے نکل جائیں‘
- چین سرحدی تنازعات کے باوجود امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار کیسے بنا؟
- مالدیپ میں تعینات انڈین فوجیوں کی اتوار سے مرحلہ وار واپسی کا آغاز: کیا یہ مالدیپ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا اظہار ہے؟
- جدید ہتھیار، نئی ٹیکنالوجی اور عسکری جدت: انڈیا کا 75 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ جو پاکستان اور چین کو نظر میں رکھتے ہوئے بنایا گیا
- خود کو ’اسلاموفوب‘ کہنے والی سازشی نظریات کی حامل لورا لومر کون اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب کیوں ہیں؟ - 14/09/2024
- سری لنکا میں چھٹیوں پر آئے ڈاکٹر تتلیاں سمگل کرنے کی کوشش پر گرفتار، دو لاکھ ڈالر جُرمانہ - 14/09/2024
- ’شیخ حسینہ کو سیاسی بیان بازی سے روکیں‘: بنگلہ دیش کی نئی سفارتی پالیسی جو انڈیا کو پریشان کر رہی ہے - 14/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).