بورخیس کی جادو نگری اور بابل کا کتب خانہ


 

تحریر آمیز ہستی بورخیس کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے، جنھیں میں پہروں پڑھ سکتی ہوں۔ جن کی ایک ایک سطر، ایک ایک کہانی میں چھپے معنی کے نت نئے جہان دیر تک میرے ذہن پہ نقش رہتے ہیں۔ یہ معنی بھی عجب ہیں کبھی بنتے ہیں، کبھی الجھتے ہیں اور کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے مجسم ہو کر میرے سامنے آ کھڑے ہوئے ہوں۔ یوں جیسے بورخیس کی بھول بھلیاں صرف کہانی میں ہی نہیں بلکہ حرف و معنی میں بھی زندہ و حقیقی ہو جاتی ہوں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ بورخیس کے تخیل کی وہ بلند پروازی ہے جو عام انسانی ذہن کی گرفت سے ماورا ہے۔

بورخیس سے میرا پہلا تعارف اسد محمد خان صاحب کی ترجمہ کی گئی کہانی ”دستِ خداوند کی تحریر“ سے ہوا تھا، جو ان کے افسانوی مجموعے برجِ خموشاں کے اختتام میں موجود تھی۔ کہانی کیا تھی، ایک جہانِ حیرت تھا۔ میں نے اس سے قبل کبھی ایسی کسی جادو نگری میں قدم نہ دھرا تھا۔ حالانکہ مارکیز بہت عرصے سے میرے پسندیدہ ادیب رہے تھے، ان کی جادوئی حقیقت نگاری اور کہانی کہنے کا ساحری طلسمی انداز میرے لیے خاصے کی چیز تھی۔ مگر یہ تو جہانِ دیگر تھا۔ یہاں کہانی کی ہر سطر اپنے اندر تاریخ، تہذیب، اساطیر، پہیلیوں، بجھارتوں اور قدیم زمانوں کی حکمت و دانائی کا ایسا لبادہ پہنے ہوئے تھی جس کے اندر معنی کی کئی تہیں مستور تھیں۔ کسی ایک کو دریافت کرنے میں ذہن کسی دوسری میں الجھ جاتا تھا، یہاں تک کہ پہلی کا سرا ہاتھ سے نکل جاتا۔ اسے ڈھونڈتے دوسری بلکہ تیسری بجھارت کا در کھل جاتا، اور یوں دیکھتے دیکھتے بورخیس کے باغ ہزار پیچ کا راستہ میرے سامنے وا ہو جاتا، جو کسی بھول بھلیاں سے کم نہ تھا۔

تب بورخیس کو مزید پڑھنے کے اشتیاق کے سبب میں نے عاصم بٹ صاحب کے تراجم بورخیس کہانیاں، زیف سید صاحب کے تراجم بھول بھلیاں، جو مزید ترمیم و اضافہ جات کے ساتھ باغِ ہزار پیچ کی شکل میں بھی موجود تھے اور ڈاکٹر ابو بکر ایم فاروقی کی مرتبہ کتاب جو بورخیس کی تنقیدات، مکالمات اور تخلیقات پر مشتمل تھی، وہ بھی پڑھ ڈالی۔ عالمی کلاسیک کا پیپر پڑھانے کے دوران اجمل کمال صاحب اور عاصم بخشی صاحب کے تراجم بھی نظر سے گزرے جو بلاشبہ قابلِ تحسین تھے۔ مگر بار ہا ڈھونڈنے کے باوجود عاصم بخشی صاحب کے تراجم مختلف ویب سائٹس کے علاوہ کہیں کتابی شکل میں یکجا دکھائی نہ دیے۔

اپنی بی ایس کی کلاس کو بورخیس کی کہانی ”بابل کی لاٹری“ جو انسانی تاریخ کے ارتقاء میں لاٹری کی صورت اداروں کے بننے، پنپنے، رفتہ رفتہ طاقتور ہونے اور پھر مطلق العنان ہو جانے کی صورتحال کا احاطہ کرتی ہے، پڑھانے کے دوران ان سبھی مترجمین کے ادبی متون میرے پیش نظر رہے۔ شاید اس لیے کہ یہ بورخیس کی کہانی کی محض قرات نہیں بلکہ معنی کی تفہیم کا بھی معاملہ تھا۔ ان ہی دنوں بک کارنر جہلم نے خوش خبری سنائی کہ وہ عاصم بخشی صاحب کے منتشر تراجم کو یکجا کر رہے ہیں۔ یہ خبر میرے لیے کسی بڑی خوشی سے کم نہ تھی۔

عاصم بخشی صاحب کا نام تراجم کی دنیا میں استناد کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرے پڑھے گئے ان کے نمایاں تراجم میں دائی سیجی کے فرانسیسی ناول ”بالزاک اور پری پیکر چینی درزن، آندرے زینوسکی کا پولش ناول“ حیاتِ موش ”اور اسامہ صدیق صاحب کا ناول“ چاند کو گل کریں تو ہم جانیں ”تھا۔ بلاشبہ یہ سب بہترین تراجم تھے۔ پھر اب حال ہی میں بک کارنر جہلم سے منظرِ عام پر آنے والے ان کے بورخیس کے تراجم کی یکجا کتابی صورت“ بابل کا کتب خانہ ”پڑھی تو اس نے ایک الوہی خوشی سے نوازا۔

یہ اپنے پسندیدہ ادیب کے تراجم پڑھنے کی خوشی تھی، پھر وہ بھی ایک ایسے مترجم کے ہاتھوں جن کے تراجم عمدہ اردو نثر کا ہی نہیں بلکہ ترجمے کے مرحلے میں کی گئی محققانہ کاوشوں کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بورخیس کا متن خود ایک بھول بھلیاں ہے، جس میں کئی تاریخی و اساطیری حوالے اس متن کی بجھارتوں کو دلچسپ ہی نہیں پڑھنے میں پیچیدہ بھی بنا دیتے ہیں۔ کچھ گوشے قاری کے متن کی بار ہا قرات کے باوجود خود کو آشکار نہیں کرتے تاوقتیکہ حاشیے میں مترجم ان معنوں کو آشکار نہ کر دے۔ یہی اس ترجمے کا سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ عاصم بخشی صاحب نے صرف انگریزی کے مختلف تراجم کو اپنے پیشِ نظر نہ رکھا بلکہ ان ہسپانوی الفاظ کی گرہیں بھی کھولنے کی سعی کی جو بورخیس کی کہانیوں میں معنی کی رمزیں سمیٹے ہوئے تھے۔

بورخیس کو پڑھنا اور سمجھنا ایک عام قاری کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایسی بھید بھری نگری ہے جس میں صرف علم والا ہی داخل ہو سکتا ہے۔ بورخیس کی ہر سطر آپ کو اپنے طلسمی جال میں یوں جکڑ لیتی ہے کہ پھر اس کے جادوئی اثرات سے بچنا محال ہوتا ہے۔ وہ لفظوں کا ہی نہیں معنی و کہانی کا بھی جادوگر ہے۔ اس کی اپنی طلسمِ ہوش ربا ہے، جہاں بھول بھلیاں بھی ہیں اور بابل کے قدیم کتاب خانے بھی، جہاں وقت ماضی بھی ہے، حال بھی اور مستقبل بھی اور سب سے دلچسپ یہ کہ وہ وقت کے ماضی، حال اور مستقبل کے تصورات کو ایک نقطے پر یکجا کر دینے پر قادر بھی ہے۔

بورخیس کی تہ دار معنوی کہانیاں فن کی معراج کو چھوتی دکھائی دیتی ہیں۔ شاید بینائی کے چلے جانے کا خوف اور پھر اس خوف کی مجسم حقیقت بورخیس کو آگہی کے اس مقام تک لے گئی جو اس کائنات میں فقط کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ بورخیس نے اپنی بصارت کو عارضی اور بصیرت کو دائمی جانتے ہوئے ہر اس چیز کا مطالعہ کیا جو عنقریب نابینا پن کی دبیز دھند میں چھپ جانے والی تھی۔ اس کا علم تاریخ، تہذیب، زمانوں اور نادیدہ دنیاؤں کا علم تھا۔ اس نے اپنی بہت سی کہانیوں میں تاریخ کو زندہ مجسم کیا۔ وہ وقت کا ایسا بازی گر تھا جس کے قلم کی نوک میں گھڑیاں مقید تھیں۔ انوکھے اور نادر خیالات اس انگلیوں کی فقط ایک جنبش کے محتاج تھے۔

بورخیس کی کہانی ’خداوند کی تحریر‘ کو ہی لیجیے، یہ کہانی ایک گہرے پتھریلے زندان کی گھپ تاریکی میں مقید ایک ایسے قیدی کی زبانی سنائی جا رہی ہے، جس کے ساتھ نصف حصے میں زنداں کی دوسری جانب ایک اسیر تیندوے کی موجودگی اس کا کڑا امتحان ہے۔ پھر وقت کے تیز بہاؤ میں آگہی اس پر ایک عجیب انداز میں منکشف ہوتی ہے، یہ خداوند کی وہ تحریر ہے جو اس تیندوے کی کھال پر نقش ہے، جس کے مفہوم اس پر لحظہ لحظہ عیاں ہوتے ہیں۔ بورخیس کے دلچسپ اسلوب نگارش کو سمجھنے کے لیے اس کہانی کا یہ دلچسپ اقتباس ملاحظہ کیجیے :

”پھر وہ ہوا جو ناقابلِ فراموش بھی ہے اور ناقابلِ بیان بھی۔

کوئی خدا کو چندھیا دینے والے نور میں پاتا ہے، کوئی تلوار میں تو کوئی گلاب کے دائروں میں۔ میں نے ایک انتہائی بلند پہیہ دیکھا، جو نہ تو میری نظروں کے سامنے، نہ ہی پیچھے یا اطراف میں بلکہ ایک ہی وقت میں وہ ہر جگہ موجود تھا۔ یہ پہیہ پانی سے بنا تھا لیکن آگ سے بھی۔ وہ لامحدود تھا، ان تمام اشیاء کو جوڑتا ہوا، جو ہیں، تھیں اور ہوں گی، اور میں اس مکمل بنت کا فقط ایک ریشہ تھا۔ ”

بورخیس کو فکر و آگہی کا وہ اظہار نصیب ہوا تھا، جو اس کے بعد پھر کبھی کسی کو نہ ملا۔ وہ دنیا نہیں کائنات کی بات کرتا، خیال نہیں مافوق الخیال کا تصور پیش کرتا اور ہر وہ چیز لفظوں میں بن سکتا تھا جو اظہار سے ماورا تھی۔ اس حوالے سے کہانی ”طلون اقبال اور ارض ثالث“ کا ذرا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے :

”ایک اور مکتبِ فکر کا کہنا ہے کہ کُل وقت پہلے ہی گزر چکا ہے اور ہماری زندگی ایک بے ثباتی عمل کی ٹمٹماتی اور بلاشبہ ایک تردید شدہ کٹی پھٹی یاداشت یا عکس ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ کائنات ان رمزی تحریروں سے مطابقت رکھتی ہے، جن میں تمام علامتیں بامعنی نہیں ہوتیں اور وہی سچ ہے جو ہر تین سو راتوں کے بعد رونما ہوتا ہے۔ ایک اور سچ یہ کہ جب ہم یہاں سو رہے ہوتے ہیں تو کہیں اور جاگ رہے ہوتے ہیں اور اس طرح ہر انسان دراصل دو انسان ہے۔

بورخیس کے کلام میں الوہیت کے کئی رنگ ہیں، اسے ہر طرح کی زبان اور لہجے پر کامل گرفت ہے۔ وہ انسان، کائنات، کتاب، خدا، وقت اور زمانے کے سبھی تصورات کو اپنی کہانی میں یوں مجسم کر دیتا ہے جیسے وہ کوئی زمینی کردار ہوں اور اپنی بات کہنا چاہتے ہوں۔ ”بابل کی لاٹری“ بورخیس کا ایسا ہی حیرت انگیز افسانہ ہے، جس میں انسانی ارتقاء کی تاریخ میں لاٹری کی صورت اداروں کے طاقت یکجا کرنے اور مطلق العنان حاکمیت کے موجودہ تصور کو بڑی مہارت، طنز اور خوش اسلوبی سے سمیٹا گیا ہے۔ اس کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :

”ایک خوش بخت کھیل اسے داناؤں کی مجلس کا رکن بنوا سکتا تھا، یا اس کے کسی دشمن کو زنداں میں ڈلوا سکتا تھا، یا پھر اپنے حجرے کی پرسکون تاریکی میں اسے وہ بھڑکیل عورت مل جاتی، جس سے پھر ملنے کی اسے کبھی توقع نہ ہوتی۔ ایک برا کھیل: لنگڑا لولا پن، مختلف قسم کی بدنامی، موت۔ کبھی کبھار کوئی ایک واقعہ مثلاً شراب خانے میں زید کا قتل، یا بکر کی پر اسرار موت، یہ سب تیس چالیس قرعوں کا الہامی نتیجہ ہو سکتا تھا۔ بھولنا نہیں چاہیے کہ کمپنی کے سب آدمی اقدرِ مطلق اور ہوشیار تھے۔“

جنت کو کتب خانے کی شکل میں تصور کرنے والے بورخیس کی کہانی ”بابل کا کتاب خانہ“ ایک اور تہہ دار کہانی ہے، جس کی بھید بھری معنویت قاری کو متن کی بار بار قرات سے گزار کر ہی معنی کا قفل کھولتی ہے۔ اور یوں بورخیس کا تخلیق کیا یہ بابل کا کتب خانہ لفظوں کی مجسم صورت میں نمودار ہو جاتا ہے۔ جس کی لامتناہیت قاری کو حیرت سے گنگ کیے دیتی ہے۔ بورخیس لفظوں کی ساحری سے ایسے طنزیہ حقائق آشکار کرتا ہے کہ قاری تحیر آمیز الم میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے اور تکلیف کی ایک لہر اپنے دل پر محسوس کیجیے :

”مجھے ایسے اضلاع معلوم ہیں، جہاں نوجوان کتابوں کے آگے سر بسجود ہیں اور ان کے صفحات کو غیر مہذب وحشیوں کی طرح چومتے ہیں لیکن ایک حرف کی رمز بھی نہیں جانتے۔ وبائی امراض، ملحدانہ تنازعات اور ایسی سیاحتیں جو ناگزیر طور پر بگڑ کر قزاقی میں ڈھل چکی ہیں، آبادیوں کو کھا گئی ہیں۔

میرا گمان ہے کہ بنی نوع انسان کی یہ انوکھی نوع معدوم ہونے والی ہے۔ مگر کتب خانہ زندہ رہے گا۔ روشن خیال، خلوت پسند، لامتناہی، مکمل طور پر ساکن، قیمتی جلدوں سے لیس، بے سود، لازوال اور مخفی۔ ”

بورخیس کا ذہن فلسفے کی ایک ایسی کنجی ہے جو قاری کو نت نئے حیرت کے خزانوں سے آشنا کرتی ہے۔ وہ ایسی نادر باتیں سوچ سکتا تھا جو سننے والے کے لیے نئی اور سوچنے والے کے لیے انوکھی تھیں۔ مثلاً اپنی لطیف کہانی ”ڈیلیا ایلینا سان مارکو“ میں بورخیس کے انسانی الوداع اور جدائی سے متعلق یہ حیرت بھرے خیالات ملاحظہ کیجیے :

”الوداع جدائی کا انکار ہے، ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آج تو ہم نے جدائی کا کھیل رچایا لیکن کل پھر ملیں گے۔ انسانوں نے الوداع ایجاد کیے کیوں کہ وہ خود کو ناگہانی اور بے ثبات دیکھنے کے باوجود جانتے تھے کہ وہ کسی نہ کسی طور لافانی ہیں۔“

قدیم زمانوں، تاریخ، تہذیب اور اساطیر سے لیے گئے اچھوتے موضوعات اور نادر کتھائیں بورخیس کہ کہانیوں کے متن میں کیسی عمدگی سے ڈھل جاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ بورخیس کی کہانی ”راگنا روگ“ کو ہی لیجیے جس میں قدیم رومی، مصری اور نارژوی اساطیر سے کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ یہاں اختتام میں نارژوی دیو مالا راگنا روگ کی مستقبل کی پیش بینی، جس میں کئی اہم دیوتاؤں اور سورماؤں کی موت کا بیان ہے اس کا کس مہارت سے احاطہ کیا گیا، ذرا دیکھیے :

”ان کی پوشاک نفاست بھری سفید پوشی کی بجائے بندرگاہی قمار خانوں اور چکلوں کے بازاری تمول کی غمازی کرتی تھی۔ کاج سے خون کے گلنار دھبے اور چست جیکٹ کے نیچے ایک خنجر کا ابھار دیکھا جا سکتا تھا۔ اچانک ہمیں محسوس ہوا کہ وہ ترپ کی آخری چال چل رہے تھے کہ وہ بوڑھے شکاری درندوں کی طرح شاطر، مورکھ اور ظالم تھے اور یہ کہ اگر ہم نے خوف یا رحم کے ہاتھوں خود کو مغلوب ہونے دیا تو وہ ہمیں تباہ و برباد کر کے ہی چھوڑیں گے۔

ہم نے اپنے بھاری پستول نکالے (جو خواب میں اچانک ظاہر ہوئے ) اور ایک جوشیلی مسرت کے ساتھ دیوتاؤں کا کام تمام کر دیا۔

یونان، روم، مصر، ہسپانیہ، اٹلی، عرب، ہندوستان، چین الغرض دنیا بھر کی قدیم و جدید تہذیبوں کو قلم میں سیاہی کی صورت سمیٹنے اور صفحہ قرطاس پر فلسفیانہ پہلیوں کی صورت سجانے والے بورخیس کا سینہ علم کی لامتناہیت سے منور تھا۔ وہ انوکھی باتوں کو کس دلکشی سے اپنی کہانی کا حصہ بناتا ہے کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ اس کی تحیر آمیز کہانی ”محل کی حکایت“ اس حوالے سے نہایت اہم ہے کہ جس میں جب ایک چینی زرد بادشاہ ایک شاعر کو اپنا محل دکھاتا ہے، تو اس میں تلخ و شیریں سبھی نظارے وہ شاعر اچٹتی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ بھی جن پر خوشامدی درباری فدا ہوئے جا رہے تھے اور وہ بھی جو دلوں پر ہیبت بٹھا دیتے تھے۔ تب آخری منزل پر پہنچنے کے بعد وہ بادشاہ کو ایک ایسی حیرت انگیز نظم سنا کر حیران کر دیتا ہے، جس میں اس کے محل کی ایک ایک جزئیات کا بیان ہے۔ اس کا یہ کارنامہ شاعر کو بقاء اور موت دونوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ مگر کیسے، ذرا بورخیس کے الفاظ میں دیکھیے :

”اُس نظم میں وہ وسیع و عریض محل اپنی چھوٹی چھوٹی جزئیات کے ہمراہ مکمل سما گیا تھا۔ یعنی چینی مٹی کے وہ تمام شاندار ظروف، ہر ایک پر موجود ایک ایک نقش، صبح و شام کے تمام جھٹپٹوں کی سب روشنیاں اور سائے، اور ازل سے اس جگہ بسنے والے انسانوں، خداوندوں اور دیو پیکر اژدھوں کے درخشاں خانوادوں کا ایک ایک لمحہ، چاہے وہ مسرت بخش ہو یا افسردہ۔ نظم سن کر ہر کوئی دم بخود رہ گیا۔ لیکن شہنشاہ چلا اٹھا: ’تم نے میرا محل چُرا لیا! اس کے ساتھ ہی جلاد کی آہنی تلوار نے شاعر کا کام تمام کر دیا۔ ”

بورخیس کا زبردست مطالعہ اور حیرت انگیز اندازِ بیان اسے علویت کے اس درجے پر فائز کرتا ہے، جہاں صدیوں تک شاید ہی کوئی پہنچ پائے۔ دنیا بھر کی رزمیہ، عشقیہ افسانوی، داستانوں کا بیش بہا اساطیری علم اس کے سینے میں مقید تھا۔ شاید اسی لیے عاصم بخشی بورخیس کے مطالعے کو ڈچ گرافک فنکار مورس اشر کی ناممکن شے یعنی ”اشری سیڑھیوں“ سے تشبیہ دیتے ہیں، جن پر چڑھنے والا مسلسل چڑھتا یا اترنے والا مسلسل اترتا ہی رہتا ہے۔ وہ بورخیس کو لکھاری کی بجائے قاری قرار دیتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ بورخیس کے جہانِ حیرت میں اترنے کے بعد ذہن میں رکھا جائے کہ کیا کبھی ایک قاری کو مکمل پڑھنا ممکن ہوا ہے؟

یقیناً نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بورخیس درحقیقت ہمارے تخیل سے باہر بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ:

”بورخیس ایسا جادوگر ہے جو اپنے نابینا پن سے بینائی کشید کرتا ہے اور لافانیت کو ایسا معقول واقعہ بنا دیتا ہے جیسے یہ اگلا لمحہ۔“

ہماری جانب سے بک کارنر جہلم کے شاہد برادران کو ایسے اہم، تاریخی اور بے بدل کام کی ایسی ہنرمندانہ اشاعت پر دلی مبارکباد۔ محترم عاصم بخشی صاحب کو ایسے بیش قیمت، اہم اور تاریخی تراجم کی یکجا کتابی صورت پر دلی مبارکباد اور بہت سی نیک تمنائیں۔ دعا ہے ان کا قلم یونہی جولاں رہے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments